Main Menu

اپنے بچوں کو محفوظ اور عوام کے بچوں پر جہاد فرض کرنے والے منافق ہيں، بابر قادری کا قتل سے قبل مکمل بيان

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

بابر قادری ايڈووکيٹ کون تھے؟

بابر قادری ايڈووکيٹ رياست جموں کشمير کے ہندوستانی مقبوضہ علاقے سرينگر کے رہنے والے تھے ۔ بابر قادری ايک وکيل تھے اور جموں کشمير پيپلز جسٹس پارٹی کے صدر بھی تھے۔ قادری ايک نڈر آزادی پسند تھے اور رياست جموں کشمير کے قومی اتحاد کے لئے متحرک کردار تھے۔ اپنے سماج پہ چھپائ غلامی و تقسيم در تقسيمی پہ سوالات اُٹھانا اُنکا جُرم تھا ۔ وہ اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھ کر عوام کو جہاد کا سبق پڑھانے والے کرداروں ۔ غنڈہ گرد و تخريب کار عناصر، عوام کا لہو بيچنے والے قابض ممالک کے آلہ کاروں اور استحصالی طبقات پر سوال اُٹھاتے تھے۔

بابر قادری کا جُرم کيا تھا ؟

بابر قادری کا جُرم سوال اُٹھانا ، انصاف و رواداری کی سياست کی آواز بلند کرنا، غلامی ، استحصال اور غنڈہ گردی کے خلاف دليل کی بنياد پر سوالات اُٹھانا تھا۔ بابر قادری کا جُرم تھا کہ وہ عوامی بيداری کی تحريک چلا رہا تھا اور عوامی حقوق کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بابر قادری کا ماننا تھا کہ جھوٹ ، منافقت ، غنڈہ گردی ، آلہ کاری و دھوکہ دہی کی سياست کی بجاۓ ايمان داری سے عوامی حقوق کی سياست کی جاۓ۔
بابر قادری جيسے سچے انسان کا رياست جموں کشمير جيسے سماج ميں مرنا اس غلامی و کاسہ ليسی ميں اٹل ہے مگر بابر قادری کی آواز و کردار کو ختم کرنا نہ تو قابضين کے بس ميں ہے اور نہ ہی اُنکے کاسہ ليسوں ميں۔

بابر قادری اپنا آخری ويڈيو پيغام دے رہے ہيں۔

گزشتہ روز فيسبُک پر اپنی لائيو ويڈيو ميں اُنکا کہنا تھا کہ ميں ذاتی طور پہ ميں فيصلہ کر چُکا تھا کہ مياں عبدالقيوم (جماعت اسلامی کے رہنما اور سيد علی گيلانی کے دست راست )کے بارے ميں اب کوئ مزيد بات نہ کروں چونکہ اب وہ سياست سے ريٹائرمنٹ کا اعلان کر چُکے ہيں مگر آۓ روز اُنکے آدميوں کی جانب سے موصول ہونيوالے دھمکی آنيوالے ميسجز کی وجہ سے ميں اُن سب کے سامنے کليئر بات رکھنا چاہتا ہوں کہ اس سارے معاملے ميں ميرا مؤقف ہے کيا؟

بابر قادری ايڈووکيٹ کا کہنا تھا کہ مياں عبدالقيوم سے ميرا کوئ ذاتی جھگڑا نہيں کوئ زمين کا تنازعہ نہيں کوئ پیسے کا معاملہ نہيں نہ ہئ وہ ميرے رشتے دار يا تعلق دار ہيں۔ مياں عبدالقيوم صاحب کو کشمير ميں سيد علی شاہ گيلانی کے تبدل کے طور پر ديکھا جا رہا تھا۔ جموں کشمير کی سياست ميں وہ ايک مقام حاصل کر چُکے تھے۔ جب کوئ شخص سياسی مقام حاصل کرتا ہے تو عوامی رائنما بن جاتا ہے اور تب ہر کوئ عوامی رائنما سے سوال کر سکتا ہے۔ حتی کہ عوام ميری بھی باز پُرس

کر سکتی ہے۔ اسليے سياسی معاملات ميں سوال اٹھانا عوام کا حق ہے۔ اگر کسی شخص کو ميرے سياسی نقطہ نظر يا عمل سے اختلاف ہے تو ضروری ہے کہ يا تو ميں اپنی اصلاح کروں يا سوال کرنے والے شخص کو کنوينس کروں کہ آپ غلط اور ميں درست ہوں۔ يہ اصل سياست ہے۔
سياست يہ ہے کہ ايکدوسرے کو سمجھتے ہوۓ اپنے نقطہ نظر پہ کنونس کر کے آگے بڑھا جاۓ۔
انتہائ تاسف کا مقام ہے کہ جہاں ہم رہتے ہيں يعنی جموں کشمير ميں يہاں لوگوں کو يہ بتايا جاتا ہے کہ آپ خود سوچ نہيں سکتے۔ جو آپ کو بتايا جاۓ، جو سکھايا جاۓ آپ وہی سوچيں، آپ وہی سمجھيں اور وہی بوليں۔ جيسے شعر ہے کہ

نثار اے وطن تيری گليوں پہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئ نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئ چاہنے والا تيرے طواف کو نکلے
نظر جُھکا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

يہ ہمارے رائنماؤں کا اصل رويہ ہے اور جموں کشمير کی ليڈرشپ کا ايسا ہی رويہ رہا ہے۔ جب بھی شيخ عبداللہ کے خلاف بات کرتا تھا تو يہی کہا جاتا تھا کہ يہ انڈين ايجنسيوں کا بندہ ہے۔ نوے کی دہائ ميں جب بھی کسی باشعور شخص نے بات کی اُسے موت کے گھاٹ اتار ديا گيا کہ يہ شخص زبان دراز اور گُستاخ ہے۔ اب يہ رويہ نہيں چلنے والا۔ ميں نے غلامی کو اپنے شعور اور ذہن سے قبول نہيں ہی ہے اسليے ميں يہ رويہ نہيں مانتا۔ کوئ ذاتی مسئلہ نہيں تھا بلکہ قيوم صاحب کا سياسی قد کاٹھ تھا اسليے ميں سوالات کرتا تھا ۔

مياں عبدالقيوم کون ہيں؟

قادری نے اپنی ويڈيو ميں بتايا کہ قيوم صاحب نے پيپلز کانفرنس سے اپنا سياسی سفر شروع کيا، اس جماعت کے ضلعی صدر بھی رہے اور اليکشن بھی لڑا اور ہار گۓ اُس کے بعد وہ جماعت اسلامی ميں چلے گۓ اور جتنا اُن کا بس چلا جماعت اسلامی کی تنظيم کا انہوں نے غلط استعمال کيا۔ اُسکے بعد وہ حزب المجائدین کے ترجمان بنے ہوۓ تھے۔ وہاں پر بھی اختلاف کے دوران اُنکو گولی بھی ماری گئ جسکا مجھے افسوس ہے۔
ميں لمبے عرصے سے قيوم صاحب کا بطور وکيل کردار ديکھ رہا ہوں۔ ہائ کورٹ بار ايسوسی ايشن ميں صرف دھمکيوں ، دباؤ اور دھونس پہ سياست کر رہے ہيں ۔ يہ کونسا طريقہ ہے سياست کا؟ ميرا آپ لوگوں سے سوال ہے کہ کيا ہم ايمان داری و ديانت داری سے سياست نہيں کر سکتے؟ ہم کيوں ملی ٹينیٹس کو اپنی سياست کيليے استعمال کرتے ہيں؟ ہم نے اپنے مقاصد پانے کيليے کيوں ايجنسيوں کا سہارا لينا ہے؟ بار ايسوسی ايشن ميں اپنے نقطہ نظر ٹھونسنے کيليے ہم نے کيوں غنڈے پالنے ہيں؟

يہ ميرے سوالات ہيں اگر يہ گُناہ ہے تو يہ گُناہ ميں کرتا رہوں گا۔ اسکے لئے قيوم صاحب اور انکے حواری مجھے جان سے بھی مار ديں تو مجھے افسوس نہيں ہے۔

ميرا مسئلہ کيا ہے؟

اُنيس سو نوے سے قيوم صاحب کا شيوہ رہا ہے کہ وہ ہميشہ اپوزيشن کو غنڈہ گردی سے دباتے آۓ ہيں۔ آپ ہمارے سب سے سينئر وکيل ظفر صاحب سے پوچھ ليجيے کہ اُنہيں اپنی نامينيشن واپس لينی پڑی؟ نذير احمد رونگا صاحب کو کتنی دفعہ پيچھے ہٹايا گيا؟ لوگوں سے کب تک چھپاتے رہينگے؟
مگر اب تو بات کرنی پڑے گی۔ آپ کب تک لائرز کو غلام بنا کر رکھيں گے؟
يہ سوالات ہيں جو کہ پوچھنا جائز ہيں۔ قيوم صاحب جب سے جېل سے نکلے ہيں انہوں نے کہا کہ مجھے کوئ بات نہيں کرنی اسليے مجھے اُن پہ بات کرنے کی دلچسپی نہ تھی مگر اُنکے چند اقدامات پہ ميں رقمطراز رہا حالانکہ وہ پورا سال جيل ميں رہے تو ميں نے اُنکی حمائت کی چونکہ ميرا نقطہ نظر يہ ہے کہ مظلوم کی حمائت کرو چاہے وہ دشمن ہی کيوں نہ ہو۔ مگر وہ جيل سے باہر نکلے تو وہی ظلم دہرانا شروع کيا تو ميں نے پھر سے آواز اٹھائ۔ اگر ميں نے غلط کيا ہے تو بتائيے ميں معافی مانگوں گا۔
اس ضمن ميں ميں نے فيسبُک کيمپين کی تھی اور کہا جاتا ہے جيسے منظور ڈار صاحب نے کہا کہ ميں نے گالياں دی ہيں۔ کوئ مجھے ميری پوسٹ دکھاۓ جہاں گالياں دی گئ ہوں۔

يہ ميرے سوالات ہيں اور ميں قيوم صاحب ، منظور ڈار اور مجھے صبح گالياں اور دھمکياں دينے والے قيوم صاحب کے جونئیر وکيل نثار صاحب کو مذاکرے کی دعوت ديتا ہوں کہ کسی بھی جگہ آ جائيں اور بحث کريں۔
ميرا سوال ہے کہ کيا قيوم صاحب نے اُنيس سو نوے سے بار ايسوسی ايشن کو مذہب کے نام پہ نہيں چلايا؟
کيا قيوم صاحب نے بار ايسوسی ايشن کو سيد علی گيلانی کا بطورِ ہتھيار نہيں استعمال کيا؟
گيلانی صاحب کے نظريات درست ہو سکتے ہيں مگر انہوں نے بار ايسوسی ايشن کا طور ادارہ بيڑا غرق کر کے رکھا۔ اب بار ايسوسی ايشن ميں کوئ بات ہی نہيں ہوتی اور نہ ہی وکلاء کا کوئ کردار ہے۔ کيونکہ کہا جاتا ہے کہ بار ایسوسی ايشن حريت کا ہی حصہ ہے۔ اب دھونس اور دباؤ سے اپوزيشن کو چلانا کب تک چلے گا اور کيوں ؟؟
دو ہزار آٹھ کی امرناتھ ياترا کی ايجيٹيشن جو نذير احمد لونگا صاحب نے شروع کی ؟ عوام نے گيلانی صاحب پہ الزام لگاياہے کہ انہوں نے وہ شورش ناکام بنائ مگر اصل ميں وہ قيوم صاحب نے ناکام بنائ تھی اُنہوں نے جامع مسجد ميں آکر اعلان کيا تھا کہ بس اب معاملہ ختم ہو گيا۔ يہ شخص کو دبل گيم کھيل رہا ہے يہ گيلانی صاحب کی چھتری تلے رہتا ہے مگر انکے خلاف کام کرتا ہے اور اُنکو بدنام بھی کر رہا ہے۔ اس نے ايسے کام کئے اور کہا کہ گيلانی صاحب نے کئے ہيں۔
ميں گيلانی صاحب کا وکيل نہيں ہوں مگر گيلانی صاحب کے مريدوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ قیوم صاحب نے کيا کيا۔

پھر دو ہزار دس ميں اُنکا کردار بتايا جاۓ، اگر ناکامی ہوئ تو يہ انکی بدولت ہوئ ۔ دو ہزار دس کے بعد يہ گرفتار ہو گۓ اور يہ بتائيے کہ بار ايسوسی ايشن کو کس نے تباہ کيا؟ بار ايسوسی ايشن ايک متحرک ادارہ تھا وکلاء جب لال چوک ميں نکلتے تھے تو ايکشن ہوتا تھا مگر جب قیوم صاحب قيد ہوۓ تو انہوں نے سرينگر کيا کوئ بات ہئ نہيں کی۔
جو لوگ مياں قيوم کے مداح ہيں کہ اُنکی تحريک کے لئے کردار ہے مگر سوال ہے کہ دو ہزار دا کے بعد انہوں نے کيا کيا؟
کورٹ شفٹنگ کے وقت وکلاء کا کيا حال ہوا؟ قيوم صاحب نے کوئ اعتراض کيا؟ انہوں نے بارہا دہرايا اور اخبارات ميں بھی آيا کہ مجھے ويلفيئر سے کچھ نہيں بلکہ صرف آزادی کی بات کرنی ہے اور شہيد ہونے کا شوق ہے۔ اگر ہم مان بھی ليں کہ وہ مخلصی سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہيں تو پانچ اگست کے بعد گرفتار ہوۓ اور شرائط پر رہائ نہيں لی؟؟ پھر وہ دعوے کدھر گۓ کہ مجھے شہيد ہونا ہے؟؟ کيوں ہندوستانی حکومت کی شرائط مانيں؟ کيا محض لوگوں کے بچوں کو ہی شہيد کروانا ہے؟ کيا صرف چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں ميں پتھر دينا ہے کہ وہ گولياں کھائيں؟

يہ ميرے سوالات ہيں۔ جب آپ خود کچھ کرنے پہ تيار نہيں تو عوام کو مت بتائيں، چھوٹے چھوٹے بچوں کی زندگيوں سے مت کھيليں۔

قيوم صاحب نے بار بار کہا کہ يہ پتھر مارے والے بچے اسلامی کمانڈوز ہيں۔ انکے اسطرح کے بيانات پہ ہمارے بہت سارے نوجوان شہيد ہو گۓ۔ اب جب خود کی باری آئ تو مِنت سماجت کر کر کے رہائ لے لی۔ مجھے مجبور مت کريں کہ ميں اُن باتوں پہ منہ کھولوں جو آپکے بارے ميں جانتا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو تو پتھراؤ کا اشتعال ديتے ہيں اور خود معافياں مانگتے ہيں۔

ميرا وکلاء سے عوام سے سوال ہے کہ کسی کو پتہ ہے قيوم صاحب جيل سے کب رہا ہوۓ؟؟ کسی کو پتہ ہے کہ وہ کشمير ميں آۓ؟ کسی سے انہوں نے بات کی ؟؟

منافق بے نقاب ہو جاتے ہيں

دو چہرے والے لوگ بے نقاب ہو جاتے ہيں۔ دو چہرے والوں کو اوپر والا بے نقاب کر کے رہتا ہے۔

ميرا اختلاف يہ ہے کہ قيوم صاحب عوام ميں کہتے ہيں جہاد کرو، پاکستان کے لئے لڑو۔ چلو يہ آپکے نظريات ہو سکتے ہيں مگر يہ بتائيں آپ نے خود کيا کيا؟؟آپکے خاندان کا کوئ جہاد پہ گيا؟ آپکے خاندان کے کسی نے پتھر چلايا؟ کدھر ہيں آپکے خاندان والے ؟

سارے بچے ہمارے ہيں

يہ سب بچے ہمارے بچے ہيں۔ جو جيلوں ميں پس رہے ہيں، قيد پہ قيد کاٹ رہے ہيں۔ چودہ چودہ سال سے ہمارے بھائ جيلوں ميں ہيں۔ اُنکا کوی اب نام بھی نہيں ليتا۔ کيا وہ ہمارے بچے نہيں ہيں؟ کيا اُنکے بارے ميں ہميں سوچنا نہيں چاہيے؟ قيوم صاحب کے کونسے ايکشن ہيں اس ضمن ميں، کوئ بتاۓ؟

عوام کو کب تک بے وقوف بنائيں گے؟

اب جب تک اُنکی جانب سے کوئ اشتعال نہ آيا تو ہو سکتا ہے ميں کبھی قيوم صاحب کے بارے ميں بات نہ کروں۔ مگر ميں بلا خوف و ترديد يہ بات کہتا ہوں کہ اگر قيوم صاحب کو لگتا ہے کہ ميں اُنکو بدنام کر رہا ہوں تو وہ لال چوک ميں گھنٹہ گھر کے سامنے مباحثہ رکھيں ميں حقائق اُنکے سامنے رکھتا ہوں۔ پھر ديکھتے ہيں عوام کيا کرتی ہے۔ کتنی دير تک جھوٹے پروپيگنڈے پہ عوام کو بے وقوف بنائيں گے؟
جن وہ جيل سے چھوٹے تو بار کونسل سے ڈائريکشن آئ کہ تمام وکلاء اپنی بار کونسلز کے زريعے اپنی تفصيلات بھيجيں تاکہ لائسنسز کو باقاعدہ کيا کيا جاۓ ۔ ميں نے بيدار صاحب ، بلال احمد وانی صاحب سے گزارش کی کہ تفصيلات بھيج ديجيے مگر اُنکا کردار ديکھيے انہوں نے انکار کر ديا کہ تفصيلات نہيں بھيجتے۔

ميرا لوگوں سے عاجزانہ سوال ہے کہ جو انسان کسی کی روزی روٹی کے بارے ميں نہ سوچے کسی کے مستقبل کے بارے ميں نہ سوچے وہ ليڈر کيسے ہو سکتا ہے؟؟

منظور ڈار صاحب آپ بھی مجرم ہيں، بار ايسوسی ايشن ليڈرشپ رياستی عوام کی مجرم ہے

منظور ڈار صاحب ميں حد ميں ہی ہوں برحل آپ حد ميں رہيں۔ پانچ اگست دو ہزار اُنيس کے بعد قوم جاگ چُکی ہے ہمارے سامنے آپ بے نقاب ہو چُکے ہيں۔ بار ايسوسی ايشن کے کرتے دھرتوں ميں آپ تھے ۔ پانچ اگست کے بعد آپ نے کيا کيا؟؟بار ايسوسی ايشن اور وکلاء کو ناکارہ کس نے بنايا؟ آپ مُجرم ہيں اور آپ اپنے جُرم کو چھپانے اور سہارا لينے کے لئے ايک مجرم کو سپورٹ کر رہے ہيں۔
پانچ اگست دو ہزار اُنيس کے وقت جو ليڈر شپ تھی وہ جموں کشمير کے عوام کی مجرم ہے۔

يہ لوگ مجھے مروا ديں گے مگر ميں ڈرنے والا نہيں ہوں

ميں سوالات کرتا ہوں تو غدار ہوں، ہندوستانی ايجنٹ کہلاتا ہوں ۔ نياز احمد اور منظور ڈار کے ميرے تين دن پہلے کی گئ پوسٹ پر کمنٹس ديکھ ليجيے۔ لگتا يہی ہے کہ يہ لوگ مجھے مروا دينگے چونکہ انکے پاس ميرے سوالات کا کوئ جواب نہيں ہے۔ يہ جس عوام کے سامنے بڑی بڑی تقريريں کرتے تھے ، خود فائدے لیتے ہيں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو کرواتے ہيں ۔ اب اُسی عوام کے سامنے بے نقاب ہو رہے ہيں اور چاہتے ہيں کہ يہ آواز رُک جاۓ۔ پاکستان اور ہندوستان کو بے وقوف بناتے ہيں۔ خود مزے کرتے ہيں اور عوام کو بے وقوف بناتے ہيں۔ منظور ڈار صاحب! بابر قادری دھمکيوں سے ڈرنے والا نہيں ہے۔

قول و فعل ميں تضاد

ميں کُھلا چيلنج ديتا ہوں جيسے ماضی ميں قيوم صاحب نے ملی ٹينٹس بھيجے تھے آپ بھی بھيج ديجيے ۔ اب ملی ٹينٹس بھی سمجھتے ہيں کہ آپ لوگوں نے اس قوم پہ کيا کیا ظلم کيا۔ ملی ٹينٹس کو ميدانِ کارزار ميں لاکر خود گھروں ميں بیٹھے ہو۔ آنے بچے تو امريکہ ميں سيٹل ہيں اور ان بيچارے ملی ٹينٹوں کو جہاد کا سبق پڑھايا۔ آپ اُنکے پاس بھی جاہئے چونکہ آپ جاتے رہتے ہيں وہ بھی يقيناً سمجھتے ہيں۔ مير صاحب نے جب آڈٹ رپورٹ نکالی تو ثابت ہوا کہ آپ نے عوام کے لاکھوں روپے چوری کئے۔
کوئ ايک چيز مجھے ديکھائيے جو آپ نے وکلاء کے لئے کی ہو۔ آپ نے تو حقيقتا وکلاء کو بھيک مانگنے پہ مجبور کيا۔ ہماری کہيں عزت نہ رہی نہ انتظاميہ ميں نہ عوام ميں نہ ہی ججز ہماری عزت کرتے ہين۔ اپنے فائدے کے لئے تو آپ حکومت کے پاس بھی چلے جاتے ہو جہاں ضرورت پڑھتی ہے چلے جاتے ہو مگر جب وکلاء کی بات آتی ہے تو کہتے ہو کہ ہميں آزادی پہلے لانی ہے اور باقی کام بعد ميں کرنے ہيں۔ يہ آپکے قوم و فعل ميں تضاد ہے۔

ميرا چيلنج

اب آخر ميں آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی اگر يہ لگتا ہے کہ ميں غلطی پر ہوں تو ميں کہتا ہوں کہ پروگرام ترتيب ديں مجھے بھی بُلائيں اور قيوم صاحب کو بھی بلائيں ۔ ميں آپ کو وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ نہيں آئيں گے ۔ اگر آپ گۓ اور ميں غلط ثابت ہو گيا تو تمام لوگوں سے معافی مانگوں گا۔ ميں آپ کو بتاؤں گا کہ دھونس دباؤ پہ کيسے سياست کی ہے ان لوگوں نے۔ ميں دکھاؤں گا کہ ذاتی مفادات کيسے لئے گۓ۔ ميں ثابت کروں گا کہ جموں کشمير کو تقسيم کرنے والا قيوم ہے۔ انہوں نے قرارداد پاس کروائ پرسوں جموں کے دوست مجھے کہہ رہے تھے کہ پہلے سری نگر والوں نے پاس کی پھر ہم نے اور آپ آزادی کی بات کرتے ہيں؟ قومی يکجہتی کی بات کرتے ہيں؟ جموں کو تو آپ بے خود الگ کیا ہے۔ ايک طرف آپ جموں کو ساتھ نہيں چلانا چاہتے اور دوسری طرف آپ کہتے ہيں کہ جموں والے ہمارے ساتھ چلنے کو تيار نہيں۔ کيسے ساتھ دينگے؟

جہاد عوام کے لئے ايمان کا حصہ اور آپکے لئے ؟؟؟؟ کُھلا تضاد

جب آپ اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنے کشميريوں پہ اتنا ظلم کرتے ہيں تو جموں والے آپ پہ بھروسہ کيوں کريں؟ آپکی سياست نے رياست بھی توڑی ئے۔ ہندوستان کے سامنے بھی جھوٹ بول بول کے اپنے فائدے لئے اور جموں کشمير کی عوام سے بھی جھوٹ بول بول کے انکے بچے ان سے چھينے۔ عوام کو بتايا کہ جہاد فرض ہے۔ ہندوستان کے خلاف لڑنا ايمان کا حصہ ہے۔ اگر لڑنا عوام کے لئے ايمان کا حصہ تھا تو بتائيے آپ کے لئے کيا تھا؟
آپ نے اپنے خاندان کے کونسے فرد کی قربانی دی ہے؟ آپ تو جب جيل گۓ تو ميری موجودگی ميں ايک ويڈيو لنک پہ چيف جسٹس کو کہہ رہے تھے کہ ميں بيمار ہوں مجھے چھوڑ ديجئے ۔ قوم کو کہتے ہو کہ لڑائ لڑو، قوم کو کہتے ہو کہ بندوق اُٹھاؤ، قوم کو کہتے ہو کہ پتھراؤ کرو اور اپنے لئے کہتے ہو کہ جناب ہميں چھوڑ دو۔۔۔

يہ کُھلا تضاد ہے اور اسکے لئے آپ مجھے کہتے ہو کہ بابر قادری تم ہندوستانی ايجنٹ ہو اور مجھ پہ حملے کرواتے ہو۔ دو دفعہ آپ لوگوں نے مجھ پر حملے کرواۓ۔ مگر اب ملی ٹينٹس بھی شايد جان چُکے ہيں کہ ان کو استعمال اور اُنکا استحصال کرنے والا کون ہے۔ کون سچ بولتا ہے اور کون جھوٹ بولتا ہے۔

ميں اب اختتام کرتا ہوں۔ اپنے بھائیوں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ اب بار ايسوسی ايشن کے انتخابات ہونے والے ہيں اب بھی اگر ہم نے استحصالی گروہ کی حمائت ترک نہ کی تو ہمارا بیڑہ غرق ہو جاۓ گا۔ ميں کسی کی بھی کمپين نہيں کروں گا مگر اتنا کہتا ہوں کہ اپنی ذات کے لئے ، اپنے بچوں کے لئے آپ بھیک مانگنے پر اُتر آۓ ، يہ پيشہ ختم ہو چُکا ۔ اب اس سے زيادہ کيا ہو گا؟
اس پيشے کی عزت رکھنے کے لئے، اپنی لاج رکھنے کے لئے آپ اُن لوگوں کو سامنے لائيں جو شريف النفس ہوں، جو سياست اور وکالت بھی جانتے ہوں ، جو بات کرنا بھی جانتے ہوں ، جو اُدھر کی يا اِدھر کی کسی ايجنسی کے ٹٹو بھی نہ ہوں۔ جو ججز و انتظاميہ کے سامنے آپکی بات کر سکیں ۔
غنڈوں اور استحصال کرنے والوں کی بجاۓ حقیقی وکيلوں کا انتخاب کيجيے۔
ہميں کسی غنڈے اور سياست دان کی ضرورت نہيں ہے بلکہ ہميں ايک وکيل کو سپورٹ کرنا ہے۔ اپنے آپ کو بدل دو تب آپکی اپنی اور قومی تقدير بھی بدل سکتی ہے۔
ڈار صاحب اور اُنکے جونیئر نیاز صاحب جنہوں نے مجھے دھمکياں بھی دی ہيں ميں اُن سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ استحصال بہت ہو گيا۔ خدا کا واسطہ ہے اب اس قوم کو بخشو، ہم وکيلوں کو بخشو۔ پھر بھی اگر آپ بات کرنا ہيں تو ميں تيار ہوں۔ اگر آپ چاہو تو ميں قیوم صاحب کے گھر جانا چاہتا ہوں ، اکيلے جاؤں گا آپ کے سامنے بات کروں گا۔ اگر مجھ پہ غلطی چڑھی تو معافی مانگوں گا اور اگر آپ کر محسوس ہو کہ اُنکی غلطی ہے تو کم از کم اُن سے کہو کہ آپ غلط نظام کو پروموٹ مت کرو۔ آپ عمر کے اُس حصے ميں ہو جہاں آپکو بُردباری اور خدا کو ياد کرنے کی ضرورت ہے۔ مت کرو ايسا، ہماری قوم اور اُسکے مستقبل کے ساتھ مت کھيلو، ميری التماس ہے کہ وکلاء کے مستقبل کے ساتھ مت کھيلو۔

ايک منفی مہم چل رہی تھی کہ بابر قادری “يو نہی” فضول ميں قيوم صاحب کے خلاف ہے۔ ميں وقت ديکھنے پہ تمام نظريہ کا شکر گزار ہوں ۔ ميں کوئ پاگل نہيں ہوں۔ آپ آئيں بات کريں، آپ سُنيں کہ کس کی کيا غلطی ہے۔ بشير صاحب، بيدار صاحب وانی صاحب کو سب پتہ ہے اُن سے پوچھيں۔ ايگزيکٹو ممبرز سے پوچھيں۔ حالات يہ ہيں کہ ايگزيکٹو ممبرز بھی انکے چمچے ہو جاتے ہيں۔ مجھے بيدار صاحب کل کہہ رہے تھے کہ باہر تو وہ آپکو سپورٹ کرتے ہيں مگر وہاں پہ ڈرتے ہيں ۔

ڈر کی سياست چھوڑ ديں

ڈر کی سياست چھوڑ ديں، ڈر کو بھگا ديں ۔ زيادہ سے زيادہ مارے جائيں گے مگر آپکے ضمير کی آواز زندہ رہے گی۔
سب کا شکريہ
سب پہ سلامتی !






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *