Main Menu

گلگت بلتستان کو صوبائی سٹیٹس: کرنا کيا چاہيے؟ تحرير: محمد زاہد خان

Spread the love

گلگت بلتستان کو صوبائی سٹیٹس یا آزاد کشمیر طرز کے سیٹ آپ کیخلاف آزاد کشمیر کی آزادی پسند جماعتوں کو کوئی بھی ایسا بیاندینے سے گریز کرنا چاہیے جس سے وہاں کے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہو۔

ریاست کو دوبارہ متحد تمام حصوں کے لوگوں کی رضاکارانہ کوشش اور تعاون سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

ریاست کو متحدہ کرنے کیلئے تمام ریجنز کے درمیان رابطے کی بحالی بنیادی نقطہ ہے جسکے لئے دوستانہ حالات پیدا کرنے کی ضرورتہے!

بجائے بیان بازی کے آزادی پسند تمام جماعتیں گلگت بلتستان کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں اور ان پر واضع کریں کہ ہمریاست جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان  کسی بھی خطے کی تعمیر و ترقی کے خلاف نہ پہلے تھے نہ آئیندہ ہوںگے اور نہ ہی تعمیر و ترقییابنیادی حقوق دینے کیلئے کسی صوبے کا اعلان کرنا لازمی ہے۔

صوبے کا سرکاری یا غیر سرکاری اعلان کرنے یا نہ کرنے کا فرق اس لئے بھی نہیں پڑتا کیونکہ ریاست کے دونوں اطراف 73 سالوںسے دونوں قابض ممالک کا ہی کنٹرول ہے جہاں  اختیارات اور حقوق دینے کیلئے وہاں کسی سٹیٹس کا ہونا ضروری نہیں۔

اور نہ ہی سٹیٹس اختیارات دینے اور ریفارمز کرنے میں رکاوٹ ہے!

چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2017 میں خود یہ تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ ہے اور  نہ ہی آئینیحصہ بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ 1973 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 اور 257 میں بھی یہ واضع کردیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیںہے اور اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل میں بھی گلگت بلتستان کو متنازعہ  ریاست جموں کشمیر اقصائے تبتہا کا حصہ قرار دیا جاچکا ہے۔

کسی بھی متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے حصے کو قابض ممالک اگر اپنا آئینی حصہ بناتے ہیں تو انکو سب سے پہلے اپنے آئین میں تبدیلیکرنی پڑے گی جیسے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو غیر قانونی آئینی ترمیم کے ذریعے 35 اے اور 370 کو ختم کیا تھا۔

بے شک وہ ایک غیر قانونی طریقے سے ہی کی گئی تھی۔

اس لئے پاکستان کو بھی متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے کسی بھی حصے کو اپنا آئینی حصہ بنانے کے لئے اپنے آئین میں تبدیلی کرنیپڑے گی باوجود اس کے کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہوگا!

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس کے خلاف کوئی منصوبہ بندی کرنیچاہیئے کہ اگر پاکستان کوئی ایسی آئینی تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے لانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو کیسے ایڈریس کیا جائے اورریاست کی مستقل تقسیم کو باہمی اعتماد اور اتفاق کے ساتھ کیسے روکا جائے؟

اگر آزاد کشمیر کی آزادی پسند سیاسی قیادت گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ گلگت بلتستانکو اختیارات دینے اور اس کی تعمیرو ترقی میں آئینی یا غیر آئینی صوبے کا اعلان کرنا ہی ضروری نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر آزاد کشمیر کی آزادی پسند سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان کے یہ تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیںکہ وہ گلگت بلتستان کی تعمیرو ترقی اور اختیارات کی بحالی میں رکاوٹ نہیں تو آگے چل کر  یہ پیشرفت مستقبل میں ریاست کو دوبارہمتحد کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

اس کے لئے گلگت بلتستان کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ حکمت عملی طے کرنی پڑے گی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *