Main Menu

تنویر احمد کا مقدمہ ؛ تحرير عابد مجيد

Spread the love

تنویر احمد نے جو کچھ کیا اور انکے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح انکے ہم خیال بظاہر تماشہ دیکھ رہے ہیں لیکن تاریخ میں تماشہ بن رہے ہیں ۔ یہ منظر افسوس ناک بھی ہے اور فکر اندوز بھی ۔ میں ایک سیاسی کارکن ہوں چالیس سالوں سے عملی سیاسی کارکن ہوں پاکستان کی سب سے زیادہ نظریاتی اور نظم ضبط والی طلبہ تنظیم پاکستان نیشنل سٹوڈینٹس نے میری تربیت کی بہترین استاد ملے اسکے بعد جموں کشمیر پی این ہی جیسی انقلابی سوچ کی حامل پارٹی کا تیس سالوں سے کارکن ہونے کے ناطے یہ اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ کسی بھی تحریک یا قومی آزادی کی جدوجہد جو ایک اعلی منشور ایک سیاسی پارٹی اسکی تنظیم اور کیڈر ہی ( جو اتفاق سے ہمارے ہاں سرے سے موجود نہیں ) ہی کہ زریعے ممکن ہو ۔ کوئی انقلاب یا کسی بھی قسم کی تبدیلی اسکے بنا ممکن نہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں اسکی کمی کی وجہ سے میں خود بھی تنہاہ کچھ کام کرنے کی سوچتا رہتا ہوں اسکی وجہ سیاسی پارٹیوں کا درست سمت کام نہ کرنااصل مسائل ریز کرنا ہے اور آج بھی سیاسی پارٹیاں کم علمی میں اسکا شکار ہو رہی ہیں ۔تنویر احمد کے مقدمے کو لیکر چند آزادی پسندوں کا خیال ہے کہ اسکا فائدہ تنہاہ تنویر احمد کو جائے گا جبکہ یہ سوچ دقیانوسی ہے تنویر احمد کو لیکر اگر کوئی پارٹی یا اتحاد باہر نکلتا ہے تو اسکا سب سے بڑا فائدہ آپکی فکر کو ہوگا خود کو بھی محفوظ کر رہے ہونگے اور دشمن کے دیے ہوئے چیلنج کا ملکر مقابلہ کرنے کا عبد یہ بھی دے رھے ہونگے یہ ایک سیاسی عمل ہے ۔

تنوير احمد پاکستانی پرچم اتارنے کے جُرم ميں گرفتار ہے

تنویر احمد کی حکمت عملی سے اختلاف ہو سکتا ہے کرنا بھی چاہیے لیکن جب ایک ہم خیال قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتار ہے تو اس ہی ایشو بنا لیا جاتا اور تحریک بنائی جاتی کہ اپ کو ہماری ریاست کاپرچم تسلیم کرنا ہوگا اسے آزادی کی نشانی سمجھ کر قبول کرنا ہو گا اور ہمیں آزاد کہنا ہی نہیں تسلیم بھی کرنا ہو گا ۔تحریکیں اسی طرح بنتی ہیں تیونس میں ایک حادثے نے تحریک کو جنم دیا کراچی میں بشرہ زیدی کے سڑک پر حادثے نے تحریک با ڈالی تو ہمارے ہاں ریاستی دہشت گردی کے خلاف سب ملکر تحریک کیوں نا بنا پائے ۔ کچھ دوستوں کا اعتراض کہ باقی پارٹیوں سے رابطہ نہ کیا گیا ۔ اس پر آپکو موقع کی مناسبت سے Empathie کو بروئے کار لانا ہوگا کہ اسوقت وہ پارٹیوں کو دھونڈتے یا پرچم لگا کر ہم سبکو للکارنے والوں سے بات چیت کرتے اس عمل میں سیاسی پارٹیوں کو دعوت کی نہیں بلکہ از خود حصہ بن جانا تھا اسلیے کہ ہم سبکو دشمن نے للکارا تھا اور ہو سکتا ہے آپکا امتحان بھی ہو کہ کتنے پانی میں ہو ۔ اسے مہم جوئی نہیں کہا جا سکتا۔ تنویر احمد نے چند بہترین ایشوز کا انتخاب کر کے بہت اعلی کام کیا اور انہیں بہت پیز رائی بھی ملی اسوقت انکیے تنہاہ کام کرنے پر کسی کو اعتراض نہ ہوا مگر آج کیوں ؟۔ زولفقار احمد نے کم از کم ملاقات کرکے جو اظہار یکجہتی کا قدم اتھایا دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔ جعلی غازیوں مجاوروںاور مجاہدوں کی برسیوں میں جانا اگر جرم نہیں تو تنویر احمد نے تو ریاستی جھنڈا(جیسا بھی ہے) کے احترام اور آپکے قومی ہیرو کے احترام کی جنگ شروع کی ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ اس مقدمے کو بنیاد بنا کر آزاد کشمیر کو آزاد تسلیم کروانے اور سرکاریی اور غیر سرکاری عمارتوں پر ریاستی پرچم لگانے اور غیر ریاستی پرچم ہٹانے کے تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔ پرچم کسی بھی ریاست کا ہو اسکا احترام ہونا چاہیے لیکن اپنی آزادی کی قیمت پر نہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *