Main Menu

محب وطن ساتھیوں کی توجہ کے لیے؛ تحرير: قیوم راجہ

Spread the love


مجھے طویل سیاسی قید کا طویل تجربہ ہے۔ جب کوئی انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسے دفنا کر اس کے لواحقین دل پر پتھر رکھ کر اپنا نظام زندگی جیسے کیسے ہو جاری رکھتے ہیں لیکن جب کسی خاندان کا ایک فرد قید ہو جاتا ہے اور وہ بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر تو اس خاندان کو طرح طرح کے سیاسی ، معشرتی ، قانو نی نفسیاتی اور مالی مسائل کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی مریض کی موت خاندان پر بوجھ کم اور کسی فرد کی قید قیدی کے خاندان کے بوجھ میں اضافہ کرتی یے۔ بعض اوقات یہ بوجھ اتنا پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ عام آدمی جو ایسے تجربات سے نہ گزرا ہو وہ اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ ایک سابق اسیر ہونے کی حیثیت سے مجھے تنویر احمد اور ان کے خاندان پر بیتنے والی تمام صورت حال کا ادراک ہے اور اگر کوئی قاری قید رہا ہے تو اسے بھی یقینا اندازہ ہو گا۔ ہم برطانیہ سے شمس رحمن صاحب اور عابد ہاشمی صاحب کے مشکور ہیں جنہوں نے تنویر احمد کے بچوں کی ویلفیئر کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر وقتی تعاون کیا مگر تنویر احمد پر الزامات کی سنگینی کم اور اس پر حکومت پاکستان کا رد عمل شدید ہے۔ اب تک ججوں نے قانونی سے زیادہ سیاسی ریمارکس دیے ہیں جو انکی شایان شان نہیں ۔ عدالت کو صرف یہ دیکھنا چائیے کہ مقبول بٹ شہید چوک میں جھنڈوں کا مسلہ کس کی غلطی سے پیدا ہوا کیوں پیدا ہوا اور اس پر کس نے کیا رد عمل دیا۔ اس پورے مسلہ میں تنویر احمد واحد کردار نہیں ہے جسکو حکومت نشانہ بنا دے۔۔ تنویر احمد کا کہنا ہے کہ اسکی گرفتاری کا طریقہ کار غیر ریاستی اداروں کے دبائو کا نتیجہ تھا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ دوسرا تنویر احمد کا دعوی تھا کہ لیپا کی عدالت میں چند سال قبل جب اسی طرح کے کیس میں انہیں پیش کیا گیا تو عدالت نے گرفتار کرنے والے ادارے کی سرزنش کی تھی جسکی وجہ سے تنویر احمد نے آزاد کشمیر عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس بار حکومت پاکستان کچھ زیادہ ہی ملوث نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں متحد ہو کر حکمت عملی طے کرنی ہو گی۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ ایک قابل ضمانت کیس میں تنویر احمد کو ضمانت کیوں نہیں دی جا رہی؟ رکاوٹ کون اور کیوں ہے؟ یہ سوال بھی اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ایک متنازعہ اور مقبوضہ ریاست پر قابض ملکوں چائے وہ ہندوستان پاکستان یا چین ہو ۔۔۔ ان کے جھنڈوں کی کیا قانونی حیثیت ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کا جھنڈا ہکڑنےسے انکار کر دیا تھا اسکی کیا وجہ تھی اور اہنے اس عمل پر وہ کس قسم کے رد عمل کی توقع رکھتے ہیں؟ راجیو گاندی اسلام آباد آیا تو بے نظیر حکومت نے روڑ سے کشمیر بورڈ اتروا دیا تھا۔ ہندوستان -پاکستان کے تعلق بحال کرنے کے لیے جموں کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں ان حقائق پر توجہ دیتے ہوئے متحد ہو کر تنویر احمد کے دفاع اور اس سے بہتر اور مثبت نتائج برآمد کرنے کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور اپنی جو تھوڑی بہت انرجی ہے اسے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ اختلاف رائے کو مخالفت کا رنگ نہیں دینا چائیے ۔

تنوير احمد پاکستانی پرچم اتارنے کے جُرم ميں گرفتار ہے

جب ایک آدمی کے خلاف چارج شیٹ جاری ہو جاتی یے تو اس کے خلاف سیاسی و قانونی جد و جہد ضروری ہو جاتی ہے۔ برطانیہ خود کو جمہوریت کی ماں کہتا یے جہاں عدلیہ کی ازادی کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن وہاں بھی عدلیہ نے سماعت کی اور وزیر داخلہ نے یمیں خفیہ سزا دی جس کے خلاف برطانیہ کے ایک بڑے قومی اخبار گارڈین میں میرا ایک خط بعنوان ججوں کی سماعت اور سیاستدانوں کی سزا شائع ہوا جس نے کشمیری کمیونٹی کو متحد کر دیا جس کے نتیجے میں برطانوی میڈیا اراکین پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کے ادارے بھی کشمیری کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہو گے۔ ہمارا کیس یورپی انسانی حقوق کی عدالت میں گیا جس نے برطانیہ کے وزیر داخلہ کو ہمیشہ کے لیے عدالتی معاملات میں مداخلت سے محروم کر دیا۔ اس بار بھی ہمیں ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ یہ ساری جد و جہد چھوڑ کر صرف آزاد کشمیر پولیس سے جنگ کرنے سے کوئی بڑے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے البتہ اگر تنویر پر تشدد کی انکوائری منصفانہ نہ ہوئی تو تنویر احمد متبادل راستہ اختیار کرنے کا حق رکھتے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *