Main Menu

اختلاف راۓ؛ تحرير: الياس خالد

Spread the love


کسی معاشرے میں اختلاف رائے کا ہونا اس معاشرے میں زندہ انسانوں کے وجود کا ثبوت ہے۔ اختلاف رائے انسانی ذہن کے دریچوں کو کھولتا ہے اور اندازِ تفکر میں وسعت پیدا کرتا ہے۔تاہم جہاں اختلاف رائے معاشرے کیلیے سودمند ہے وہیں خوامخواہ کا اختلاف بگاڑ بھی پیدا کرتا ہے۔

اختلافات زندگی کا حُسن ہوتے ہیں۔ یہ اتنے حُسین ہوتے ہیں کہ یہ سوچ اور فکر کو ایک نئی راہ پر ڈال کر اس کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیتے ہیں۔یہ اتنے پاور فُل ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مجموعی زندگیوں میں بھی بڑے پیمانے پر بہتری لیں آتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اختلاف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہم تذلیل کو بھی اختلاف رائے کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم سر عام بے عزتی کرکے کہتے ہیں یہ اختلاف رائے ہے۔

بحثیت قوم مجموعی ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ
“تعمیری اختلاف کہتے کسے ہیں، یہ اختلاف ہماری زندگیوں میں کیسے مثبت تبدیلی لا سکتا ہے، اختلاف کیسے کیا جائے، تنقید کو کیوں کر برداشت کیا جائے، تنقید اور تذلیل میں کیا فرق ہے۔”

ہم سمجھنے سے قاصر اس لیے ہیں کہ
یہ تمام چیزیں ہماری تربیت اور معیار کا حصہ ہی نہیں رہیں۔ ہمارے ہاں علمی موضوعات ہوں یا دوسرے معاملات ہم اس پر بغیر کچھ جانے، پڑھے، بغیر جانکاری حاصل کیئے اختلاف رائے کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی چلے جاتے ہیں، جس کا مقصد دوسرے کو زچ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

جبکہ تعمیری اختلاف کا حُسن یہ ہے کہ
اس کا انجام کسی ایک نقطے پر اتفاق پر ہوتا ہے۔ اگر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو وہ سوچ کے کئی نئے اُفق سامنے لے کر آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اول تو تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ خود اختلاف کے حق کو انجوائے کیا جاتا ہے لیکن دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج العام ہے، ہم اختلاف کر کے پھر اس کو دوسرے پر مسلط بھی کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ مناسب طریقہ اختلاف یہ ہے کہ، آپ نے اختلاف رائے کر لیا، اپنی ایک الگ رائے پیش کر دی، بس اب چھوڑ دیں اور دوسرے کی بھی سن لیں۔

اس کی بنیادی وجہ مقلدانہ ذہنیت ہے، جو جس نقطے پر کھڑا ہے وہ اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ عموما شخصیت پرستی بھی اس کی وجہ ہے۔ اکثر دوست احباب کے درمیان کسی موضوع پر اختلاف ہو جاتا ہے، وہ اس اختلاف کو شخصیات سے منسوب کر اس کے تمام دوسرے پہلوؤں پر سوچ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔

اپنے اختلاف رائے کو تبادلہ خیال کے طور پر پیش کریں۔
ایک صاحب علم کے لیے سب سے اہم چیز تبادلہ خیال ہوتی ہے، تنقید ایک موضوع ہوتا ہے، یہ دو شخصیات کے درمیان صرف ڈسکشن ہی تو ہے۔

جب آپ شخصیات کے اثر اور اپنے مخصوص مقلدانہ نظریات سے باہر نکلیں گے تو آپ فکری آزادی محسوس کریں گے۔ آپ آزادانہ غور و فکر کر سکیں گے۔ اسی فکر سے ترقی کے تمام راستے کھلتے ہیں۔ یہ آزادانہ فکر تنقید مانگتی ہے، یہ چاہتی ہے اس کے ساتھ کوئی اختلاف کرے، تاکہ سوچ میں اضافہ ہو، اور پھر یہ سوچ ایک رہنما سوچ بن جاتی ہے۔

بصورت دیگر مقلدانہ فکر وہی سوچ سکتی ہے جو اس پر مسلط ایک شخصیت سوچتی ہے اور انسان تمام عمر وہی سوچتا چلا جاتا ہے۔ وہ کسی دلیل اور اختلاف کو نہیں مانتا، اس بنیاد پر وہ خوامخواہ کے اختلافات کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے اور نہ صرف اپنا وقت برباد کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

تنقید اور اختلاف کو ایک اصول کی نظر سے دیکھنا چاہیے نہ کہ اس کو ذاتی سمجھا جائے یا شخصی۔ جو لوگ تنقید برداشت نہیں کرتے وہ اپنے اندر چھپی صلاحیتیوں سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے۔ تنقید اجتہاد کا راستہ کھولتی ہے۔ جہاں اجتہاد رُک جاتا ہے وہاں ذہنی ترقی رُک جاتی ہے۔ لیکن اس کےلیے تنقید کا تنقید ہونا ضروری ہے نہ کہ تنقیص۔

تنقید علمی اور منظقی تجزیہ ہے، جسے نظریاتی ہونا چاہیے، نہ کہ شخصی۔ جبکہ تنقیص کا سارا انحصار عیب جوئی اور الزامات تراشی اور دوسرے کی تذلیل پر ہوتا ہے، جس کا حاصل باہمی بغض و عناد اور منافرت ہے جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد اور انارکی کا راستہ کھلتا ہے۔

اختلاف کے لیے بلند کی جانے والی آواز دلیل ہو نہ کہ تزلیل۔

تنقید کو مسکرا کر ویلکم کرنے سے ہمارے اندر برداشت کے رویوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے، یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں گے۔ یہ خول مقلدانہ نظریات اور شخصیات کا خول ہے جو ہمارے اذہان پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ اس خول کو توڑنا ہو گا، اس کے بعد جو اختلافات اٹھیں گے وہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ کی تنقید اور اختلافات تخریب کو جنم دیتے رہیں گے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *