Main Menu

سیاست نہیں ریاست بچاؤ، تحرير: ثوبیہ فاروق

Spread the love

دنیا کی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جاے تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے وہ تمام اقوام جنہوں نے بڑھ چڑھ کرغاصب قوتوں کے خلاف اپنی قومی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا ان میں یہ بات مشترک نظر آتی ہے کے ان زندہ قوموں کے اندر بحثیت قوم غلامی سے نفرت اور اپنی قومی شناخت پر مر مٹنے کا جزبہ جنون کی حد تک شامل تھا یہی وجہ ہے کے غیور اقوام کے لوگوں پر جب بھی جبر و محکومی مسلط کرنے کی کوشش کی گیء تو ان آزادی پسند قوتوں نے اپنے آقاٶں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور اپنی سالمیت کا دفاع کرنے کی تڑپ میں ان اقوام نے طویل اور خونچکاں جنگیں لڑیں یہاں تک کے غا صبوں کو تنگ آ کر انکا حق آزادی تسلیم کرنا پڑا دوسری طرف دیکھا جاۓ کشمیر کی تحریک آزادی کی طرف تو بدقسمتی سے ٧٤ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک تہریک کی سمت ہی درست نہیں کی جا سکی بیرونی آقاٶں کے دیے ہوۓ نظریہ الحاق نے پوری قوم کو گمراہ کیے رکھا تو اٹوٹ انگ اور شہ رگ کے دعوے کی مالا جپنے والے مسخرے بھی راہ کی دیوار بنے رہے ہیں دہلی و اسلام آ باد کے وظیفہ خوروں نے کشمیر کی تہریک آزادی کو کبھی قومی رنگ اختیار کرنے ہی نہیں دیا کیوں کے ان کی نوکری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کے نام نہاد آزاد کشمیر کی موجودہ نسل جو سرکاری نصاب پڑھ کر تعلیمی اداروں سے نکلی ہے اس کو دانستہ اپنی اصل تاریخ سے بے خبر رکھا گیا ہے ان کی زہن سازی کا یہ عالم ہے کے وہ ریاست پاکستان کو ہی اپنے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور یے حقیقت ماننے کو ہی تیار ہی نہیں کے ان کو بھی قومی غلامی سے نجات کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے کیوں کے قابضوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کے اپنی مفتوح قوم کی تاریخ کو بری طرح مسخ کر دیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ لوگوں کو ان کی ثقافت اور تہزیب سے الگ کر کے قابض قوم کے کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے حتہ کے ان کو اپنی زبان تک بھلانے کی کوشش کی جاتی ہے آج ریاست کشمیر میں ضرورت اس امر کی ہے کے نوجوان نسل کو اپنی تہزیب اور تاریخ سے آگاء کرنے کے لیے بھرپور مہم چلاٸ جاۓ اگر اس قوم کے معماروں کو کشمیر کی ہزاروں سالہ تاریخ سے متعارف کرا دیا جاۓ تو بلضرور اس کے مثبت نتاءج حاصل ہوں گے اس مقصد کے لیے سٹڈی سرکل ضروری ہیں اس قوم کواپنے شاندار ماضی کا پتہ ہونا چاہیے کے کشمیر شاہ میری سلاطین ،چکوں،مغلوں اور افغانوں کے عہد سے گزرتا ہوا سکھوں اور ڈوگروں کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کے بعد آج کی مہزب دنیا میں بجاۓ ایک آزاد باوقار ملک کے طور پر اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہونے کے ابھی تک طفیلی ریاست کے طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہے تاریخ گواہ ہے کے شاندار اقوام وقتی محکومی جنگوں،مصاءب وآلام اور جبری تسلط سے وقتی طور پر دب سکتی ہیں مگر فنا کبھی نہیں ہو سکتیں اس لیے قومی آزاری اور وحدت کی بحالی کے لیے کسی دوسری ریاست کی طرف دیکھنے کے بجاۓ کشمیریوں کو خود میدان میں آنا ہو گا مقبول بٹ شہید کے نظریات پر عمل کر کے ہی آگے بڑھنا پڑے گا کیوں کے مقبول بٹ، سردار سبز علی اور ملی خان جیسے سرفروشوں نے اس قوم کو غلامی کی لعنت سے بچانے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیا اور ظلم کے آگے نہ جھکنے کی پاداش میں تختہ دار جن کا مقدر ٹھہرا آج ان کی قربانیوں کو جس طرح فراموش کیا جا رہاہے یہ صورتحال ہر غیرت مند اور باشعور کشمیری کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے ٥ اگست کو بھارت نے اپنے دستور میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور غیر قانونی طریقہ سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی منظوری دے دی جس کہ نتیجے میں اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ریاستی افراد کو state subject سرٹیفیکیٹ جاری کیے جا رہے ہیں تا کے مستقبل میں اقوام متحدہ کی جانب سے کسی ریفرینڈم کی صورت میں ان نو آباد شدہ باشندگان سے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دلوایا جا سکے ۔اسی منصوبے کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ڈیموگرافی (demography) تبدیل کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے معاہدہ کراچی اور ایکٹ ٧٤ جیسی بندشوں کی موجودگی میں مظفرآباد کے حکمران بھی محض اسلام آباد کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتے ہیں حال ہی میں پیش کی جانے والی آزاد کشمیر کے ایکٹ میں ١٤ویں ترمیم کا مسودہ بھی پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے ریاستی اسمبلی کو مزید بے اختیار بنانے اور قوم پرست جماعتوں کی آواز کو دبانے کی ایک مزموم سازش تھی جو ریاستی اسمبلی نے فلوقت مسترد کر دی ہے یہ اقدام جو پاکستان کے پالیسی سازوں نے اٹھایا لمہحہ فکریہ ہے مزید تشویشناک بات یہ ہے کے اس مرتبہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی این ،ایف،سی ایوارڈ میں شامل کر لیا گیا ہے جو صوبوں کے زیل میں آتا ہے اور صاف لگتا ہے کے ریاست کشمیر کی مرحلہ وار تقسیم کے منصوبے کی طرف بڑھا جا رہا ہے اور گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کا صوبہ بنانے کی تیاری ہے ان تمام واقعات کے پس منظر میں نہ صرف مظفر آباد کے حکمرانوں کو ہوش کا مظاہرہ کرنا ہو گا اس گھمبیر صورتحال میں قوم پرستوں کے اتحاد پی، این، اے کا قایم رہنا بہت ضروری ہے گزشتہ برس پی، این، اے کے اتحادیوں نے ریاستی اسمبلی کو خورمختار بنانے کا مطالبہ لے کرجو مظفر آبارمارچ کیا وہ مارچ مستقبل میں تقسیم کشمیر کی منصوبہ بندی کے پیش نظر خصوصی اھمیت کا حامل تھا ٠ مگر افسوس کا مقام ہے کہ غیر ملکی آقاوں کے اشارے پر اس تحریک کو ثبوتاژ کرنے کے لیے ریاستی طاقت کو استمعال کیا گیا اور محب وطن لوگوں کو تشدد کے زریعے دبانے کی کوشش کی گی۔ مگر مظفر آباد کے ان کتھ پتلی حکمرانوں یہ بات فراموش کر دی کے ریاستی جبر کے زریعے تحریکوں کا راستہ کھبی روکا جا سکتا تو آج دنیا کے نقشے پر کوٸ آزاد ملک نظر نہ آتا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام قوم پرست جماعتیں اتفاق راۓ سے ایک قومی موقف تشکیل دیں اور آپس کے اختلافات کو وقتی طور پر فراموش کر دیں ۔ کیوں کہ اتحاد کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ”اختلافات کے باوجود متحد رہا جاۓ“۔ اس وقت ریاست کشمیر کی بقاء اور وحدت و سالمیت کا تحفظ سب کی قومی زمہ داری بنتی ہے ۔ یہ وقت سیاست کرنے کا ہر گز نہی ہے ۔تہریک آزادی کشمیر تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکی ہے اگر اس وقت مل جل کر کشمیر کی جبری تقسیم کو روکنے کے لیے جلد کو ئی لاءحہ عمل نا بنایا گیا تو خدانخواستہ ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑھ سکتا ہے یہ ریاست رہے گی تو سیاست رہے گی فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *