Main Menu

ہجرتيں ، انقلاب کے خواب اور قبرستان ؛ تحرير: امتياز فہيم

Spread the love

مرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر

ایک افتاد زدہ پسماندہ اور جبری ظالمانہ قبضے و تقسیمِ باطل کے حصار میں قید ملک کے باشندوں کے لئے اپنی ذاتی زندگی کے مسائل حل کرنا جن میں خوراک رھائش لباس و علاج و تعلیم اور دیگر مسائل شامل ہوتے ہیں نہ صرف بہت کھٹن ہوتا ہے بلکہ جوئے شِیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

ایک ایسے سماج میں جہاں روزگار کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ بدتہرین عذاب ہے اور جس کے لئے مدتوں سے ہمارے لوگ ہجرتوں پہ مجبور و مہجور ہی نہیں بلکہ اپنی زندگیاں ہی وار دیتے ہيں ۔
اب تک سیکڑوں محنت کش اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیھٹے ہيں سیکڑوں نوجوان ہجرتوں کے سنگلاخ سفر کے دوران موت کے خونی آسیب کا شکار ہوچکے ہیں ۔

ظاہر ہے جس ملک کے تمام تر وسائل بیرونی قبضے کے جبر و استبداد کے قاتل سائے تلے چند لوگوں کے مفادات کے لئے استعمال ہو رہے ہوں وہاں کے عام انسان مزدور و کسان کی کسمپرسی کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہتی ۔
جہاں زراعت کو سرے سے غیر ضروری و افتاد زدہ بنا دیا گیا ہو جہاں کارخانہ فیکڑی یا کسی قسم کی کوئی چھوٹی بڑی انڈسٹری کا نام و نشان تک نہ ہو بلکہ اس طرح کا مطالبہ کرنے والوں کو سُنکی ، مذہب دشمن ، خاندانی شان و شوکت کا دشمن ، بھدی روایات کا دشمن قرار دلوایا جاتا ہے۔

جہاں علاج کو غیر سرکاری دھندہ بنا دیا گیا ہو تعلیم تفریق و امتیازات پہ مبنی ہو اور ایک غیر سرکاری نفع بخش فرم بنا دی گئی ہو ۔

جہاں عام انسان عدل و انصاف کے نام سے ہی ڈرتا ہو ، جہاں عدالتوں میں عدل و انصاف کے بجائے صرف اور صرف اپنی مراعاتوں پہ ساری توجہ مبذول کروائی جا رہی ہو ، جہاں انتظامیہ عوام کی خذمت و مدد کی بجائے چند طاقتورں کی جگالی کو اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہو ۔

جس دولخت وطن کی تین اسمبلیاں عوام کے مفادات کے حق میں قانون سازی کے بجائے اپنے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی وفاداری کو سب سے زیادہ پوجتی ہوں ۔

بلخصوص ( آذاد کشمیر ) نام کی جو اسمبلی ہے اس کا اب تک کی معلوم شدہ تاریخ میں سوائے پاکستان میں برسرِ اقتدار ٹولے کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کوئی کام ہی نہ ہو ۔

جس کے دریا ندی نالے آبشاریں چشمے و جھرنے غیروں کے کھیت سیراب کرنے کے لئے غیروں کے شہروں کی تاریکیاں مٹانے کے کام آتے ہوں ۔

جس وطن کے باسی پانی کے ان گننت ذخائر ہونے کے باوجود پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوں وہاں ہجرتیں نہیں ہونگی وہاں دنیا کے نیم ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک میں ہم ایسے وطن بدروں غمگساروں کے ڈیرے نہ ہونگے تو اور کیا ھوگا ؟

مگر سوال یہ ہے کہ ہم سب جو اپنی ذاتی زندگیوں کو سنوارنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور ساتھ میں یہ توقع بھی رکھتے ہيں کہ وطن آذاد ھو جائے ایسے کیونکر ممکن ہے ؟؟

میرے لئے پیارے وطن جموں کشمیر کا ہر اک فرد بلا رنگ نسل مذہب و جنس و فرقہ و علاقہ بہت قابلِ احترام ہے ۔ ان سب کے کےعقیدے و مذاہب بھی بہت قابلِ احترام ہیں۔

اب جو لوگ گلف یعنی عرب ممالک میں برسرِ روزگار ہیں ان کی زندگی انتہائی کھٹن مشقتوں میں گزرتی ہے۔مگر ان کے دم سے دیس کے چولہے چلتے ہيں ،زندگیاں مسکراتی ہیں ۔

یورپ و امریکہ میں ھمارے جو محنت کش ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ بہت خوشحال زندگی گزار رہے ہیں مگر وہ لوگ جو مدتوں سے اسی دولخت دیس کے نام پہ سیاسی پناہ لیکر رہ رہے ہیں جو کہ ان کا جمہوری حق بھی ہے ۔ مگر کیا ان کا اور ھمارا فریض یہ نہیں بنتا کہ وہ اور ھم سب مل کر مادرِ وطن کی آذادی اور اس کے پسے ھوئے طبقات کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالیں ؟

جو لوگ مدتوں سے یا کم و بیش بیس یا تیس سالوں سے ترقی یافتہ ممالک میں جا بسے تھے جن کی ایک دو نسلیں جوان ہو چکی ہیں جو ماضی میں آذادی کے نام لیوا تھے پھر اپنی ذاتی زندگی کے مسائل میں ایسے الجھے کہ سب کچھ ہی بھول گئے۔

اب سوشل میڈیا کے عام استعمال کے بعد اکثر و بیشتر انہی نیک ناموں کے آذادی پسندوں کے لئے وہ وہ نیک و اچھے شگون کے پیغامات دیکھنے و پڑھنے کو ملتے ہیں کہ اؤسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ۔

مگر ان کے پیغامات سے خوشی بھی ھوتی ھے کہ صبح کے بھولے شام کو گھر تو آئے ۔۔۔ کیا اچھا ھو کہ یہ بھولے ہوئے جو گھر آ ہی گئے ہيں تو کم از کم تمام ایسے لوگوں کو جو جو سانئسی شعور و فکر کیساتھ جڑے ہیں جو ایک نئی سحر سب کے لئے طلوع کرنے کے حامی ہوں ان سب کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرنے کی کوئی تو سبیل کریں ۔

آذادی و انقلاب کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے کہ ایک طرف ترقی یافتہ دنیا کی مراعاتوں سے بھی استفعادہ حاصل کیا جائے اور دوسری طرف وطن میں موجود ان آذادی پسند کارکنوں و راھنماؤں کو مشہورے بھی ديئے جائیں جو خود بہت ہی افلاس و غربت کی سی زندگی جینے پہ مجبور ہیں۔

ہاں اچھا ہے بہت اچھا ہے بلکہ اور اچھا ہے تم مرو کھپو جلو۔۔۔ ہمیں کیا ہم تو ایک ترقی یافتہ دنیا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

یاران وطن ! آپ سب سے میرا خود اپنے آپ سے بھی یہی کہنا ہے

کہ خود مرے بغیر (جنت یا دوخ ) نہیں ملتی ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے جو جو زندہ ضمیر ہے جسے اپنےعوام کی بدحالی و غلامی بیروزگاری غربت و افلاس کا احساس ہے اس کے لئے وطن میں آنا ممکن ہے۔ بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو تو وہ سفارتی محاذ پہ آذادی و انقلاب کے لئے دوپسے نہیں دے سکتا ؟؟؟؟
کیا وہ لکھ بھی نہیں سکتا ؟؟؟؟
کیا وہ باقی دوستوں و ساتھیوں یا عورتوں ومردوں سے بات بھی نہیں کر سکتا ؟؟؟

اور اگر کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا تو کیا وہ ایک چیخ بھی نہیں بھر سکتا ؟؟؟
گھور تاریکی میں ایک ننھی سی روشنی کی کرن امید کا بہت بڑا حوصلہ ھوتا ہے مطلق قبرستان جیسی خاموشی میں ایک زور دار چیخ خوف سے نجات کا ذریعہ ہوتی ہے۔

اس لئے محترم احباب گرامی !

آذادی و انقلاب جموں کشمیر کے عوام کی میراث ہے
اٹھو تم سب جو غلام نہیں ہو گئے !!






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *