Main Menu

ریاستی پرچم، حقیقت کیا فسانہ کیا؟ تجزيہ و انتخاب: ثاقب الياس

Spread the love

پرچم کسی بھی قوم یا ریاست کی امتیازی اور جداگانہ شناخت کے اظہار کا ایک ذریعہ و نشان ہوتا ہے، یہ محض رنگوں یا علامات کا مجموعہ نہیں بلکہ کسی ریاست کی مجموعی تاریخ، وقار، شناخت اور خودمختاری کا ترجمان ہوتا ہے… ریاست جموں کشمیر اپنے قیام سے لیکر انیس سو سینتالیس میں غیر ملکی حملے کے نتیجے میں تقسیم ہونے تک ایک پرچم رکھتی تھی، سینتالیس میں جب فرقہ وارانہ جذبات و سازش کے زیر اثر ریاست کو دو لخت اور لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا اس کے بعد قابضین اور ان کے گماشتوں کی طرف سے ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا کہ ریاست جموں کشمیر کی تاریخ، امتیازی علامات، جغرافیائی وحدت اور جداگانہ شناخت دوبارہ بحال ہونے کے تمام راستے بند کر دیئے جائیں، اس سلسلے میں جہاں دیگر اقدامات اٹھائے گئے وہیں ریاستی پرچم جو ریاست کی وحدت اور جغرافیے کا ترجمان و نمائندہ تھا اسے بھی ایک حکمران خاندان کا پرچم بتاتے ہوئے متروک و منسوخ قرار دے دیا گیا حالانکہ پرچم ہمیشہ ممالک کے نمائندہ ہوتے ہیں نہ کہ حکمرانوں کے… آئیے متحدہ ریاست کے پرچم اور تقسیم ریاست کے نتیجے میں رائج ہونے والے جھنڈے کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ سچ اور جھوٹ، منافقت اور اخلاص، غداری اور محب الوطنی، نیشنلزم اور نیشنلزم کے نام پر قابضین کی کاسہ لیسی سب صاف صاف واضح ہو جائے…

ریاستی پرچم کی حقیقت
کسی بھی ملک کا پرچم اسکی جغرافیائی سرحدوں، وحدت، جداگانہ شناخت اور معاشرتی اقدار کا نمائندہ ہوتا ہے نہ کہ وہاں کے نظام حکومت اور حکمرانوں کے طرز حکمرانی کا… ھمارا ریاستی پرچم ایک سو ایک سال تک ریاست جموں کشمیر کا نمائندہ پرچم رہا ہے، جی ہاں بالکل، اسی ریاست کا جو 14 اگست انیس سو سینتالیس تک اپنی متعین، مقرر اور مسلمہ سرحدات رکھتی تھی اور آج بھی ریاست انہیں سرحدات کیساتھ مسلمہ متنازعہ شناخت رکھتی ہے، یہ اسی ریاست کا پرچم جو اقوم متحدہ میں غیرملکی قبضے کی وجہ سے متنازعہ قرار پائی، یہ اسی ریاست کا پرچم ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، یہی وہ پرچم ہے جو ریاست کی تقسیم تک جموں کشمیر کی تمام اکائیوں، کشمیر، بلتستان، لداخ، گلگت اور جموں میں بطور ریاستی پرچم لہرایا جاتا رہا جاتا رہا، یہ پرچم تاریخی طور پر ریاست جموں کشمیر کا واحد اور تاریخی طور پر غیر متنازعہ پرچم رہا ہے.
تجزیہ
ان حقائق کی روشنی میں یہ ریاستی جھنڈا ریاست کی وحدت، تاریخی ارتقاء، خودمختاری اور وقار کی علامت ہے…
آزادکشمیر کے پرچم کی حقیقت

تقسیم ریاست اور غیر ملکی قبضے کے بعد آزادکشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو ریاستی پرچم کے مقابلے میں ایک پرچم کی ضرورت محسوس ہوئی (واضح رہے اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی پرچم بدستور لہرایا جاتا تھا) تو انہوں نے آزادکشمیر حکومت کے موجودہ جھنڈے کو بطور “قومی پرچم” رائج کیا، اس جھنڈے کا خالق جی کے ریڈی ہے جو مدراس انڈیا (موجودہ چنائی) کا رہنے والا ایک کٹر ہندو تھا اور سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار “کشمیر ٹائمز” میں ملازمت کرتا تھا،
آزاد کشمیر کا پرچم انیس سو سینتالیس میں ایک بھارتی شہری جی کے ریڈی نے ڈیزائن کیا، اس پرچم کی 7/8 زمین سبز اور 1/8 بسنتی رنگوں پر رکھی گئی جو کہ علی الترتیب مسلم اور غیر مسلم آبادی کو ظاہر کرتے ہیں، سبز رنگ پر ستارہ و ہلال پاکستان سے الحاق کی علامت ہیں، اس کے علاوہ چار خطوطِ مستقیم چار دریاؤں یعنی سندھ، جہلم، راوی اور چناب کو ظاہر کرتے ہیں… بحوالہ کشمیر آزادی کی دہلیز پر از غلام احمد پنڈٹ، واضح رہے غلام احمد پنڈت سینتالیس میں آزادکشمیر حکومت کے موسٹ سینئر بیوروکریٹ تھے اور تقسیم سے قبل اور بعد کے حالات کے چشم دید گواہ بھی، آزاد کشمیر کے پرچم کے ڈیزائن اور پسمنظر کے بارے میں جرمنی کے ایک ریسرچ اسکالر نے جب وزارت خارجہ پاکستان سے رہنمائی چاہی تو وہ مراسلہ وزارت امور کشمیر کی وساطت سے آزادکشمیر حکومت کو ملا اور غلام احمد پنڈت کو اس سلسلے میں کام دیا گیا انہی کی تحقیق پر مبنی جواب پاکستانی وزارتِ خارجہ نے جرمنی ارسال تھا…
جی کے ریڈی کی حقیقت
آزادکشمیر کے جھنڈے کا خالق جی کے ریڈی ہے جو مدراس انڈیا (موجودہ چنائی) کا رہنے والا ایک کٹر ہندو تھا اور سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار “کشمیر ٹائمز” میں ملازمت کرتا تھا،
وہ ہندو ہونے کے باوجود بظاہر ریاست جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا زبردست داعی اور حامی تھا، یہی وجہ تھی کہ پاکستان اور ریاست میں پاکستان نواز قیادت کا اسے زبردست اعتماد حاصل تھا… جموں کشمیر پر غیر ملکی حملے کے بعد وہ ایک خاص مقصد سے پہلے سرینگر سے ایبٹ آباد اور پھر وہاں سے پشاور منتقل ہوا، پشاور میں کشمیری نژاد وزیر اعلٰی خان عبدالقیوم خان سے مراسم اور تعلقات کی بناء پر سرکاری مہمان بنا اور کثرت سے کشمیر کے جنگی محاذوں کے دورے کرتا رہا، ارباب اقتدار و اختیار کا منظورِ نظر ہونے کے ناطے اس کی رسائی ان مقامات تک بھی تھی جہاں دیگر افراد نہیں جا سکتے تھے، انہیں دوروں کے دوران وہ پاکستانی فوج کی نقل و حرکت اور محاذ پر موجودگی کے ثبوت اکٹھے کرتا رہا بعد میں اپنے والد کی بیماری کا بہانہ بنا کر خان عبدالقیوم خان کی مدد سے بھارت فرار ہوا اور ممبئی سے شائع ہونے والے تحقیقاتی ہفت روزہ “بلٹز” (Weekly Blitz) میں جی کے ریڈی کا تیار شدہ کشمیر میں پاکستانی افواج کی نقل و حرکت کا پورا چارٹ بمع ثبوت اور تصاویر شائع ہوا، جی کے ریڈی کے حاصل کردہ ثبوت اور تصاویر بھارت پہنچنے کے بعد ہی پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ کشمیر میں اپنی فوجوں کی موجودگی کو تسلیم کیا، جی کے ریڈی کے انڈیا فرار ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے اسے انڈین جاسوس قرار دیا… بعض لوگ اسے کشمیر فریڈم لیگ کا پنڈت رہنما بتاتے ہیں جو سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے، کشمیر فریڈم لیگ کا رہنما اور پنڈت ہونا تو ایک طرف وہ ریاستی شہری بھی نہ تھا…
تجزیہ
ریاست جموں کشمیر پر غیر ملکی قبضے کے بعد اقوام متحدہ نے 14 اگست انیس سو سینتالیس سے قبل کی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مرکزی نقطہ مانتے ہوئے اسے متنازعہ قرار دیا، یہی وجہ ہیکہ تمام قوم پرست جماعتیں اپنے آئین و منشور میں بھی اسی تاریخ کو مرکزی نقطہ مانتے ہوئے ریاست کی اس جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کی بحالی کا مطالبہ کرتی ہیں جو کہ ایک منطقی اور مناسب بات ہے، چودہ اگست سینتالیس کو بنیادی نقطہ ماننے کا مطلب یہ ہیکہ اس کے بعد قابضین اور ان کے گماشتوں کی طرف سے ہونے والے تمام انتظامی معاہدوں اور دیگر بندوبستوں کو باطل اور غیر قانونی سمجھتے ہیں… یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن مسئلہ تب بنتا ہے جب ہم اپنے آئین میں درج اور بین الاقوامی طور پر مسلمہ اس بنیادی نقطے سے انحراف کرتے ہوئے اگست سینتالیس کے بعد ہونے والے کسی غیر ملکی جگاڑ یا اس جگاڑ میں استعمال ہونے والے مقامی گماشتہ حکمرانوں کے عمل کو اپنے نظریات کا حصہ بنا لیتے ہیں، جیسے چار اکتوبر کی حکومت اور اس کی دیگر علامات جیسے آزادکشمیر کا پرچم، یہ ایک بنیادی اور شرمناک تضاد ہے جس کا شکار ایک آدھ کو چھوڑ کر تمام قوم پرست جماعتیں ہیں… دوسرا سوال یہ ہیکہ کیا اس جھنڈے کے معانی و مطالب ہمارے نظریات یعنی ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی اور مکمل آزادی و خودمختاری سے مطابقت رکھتے ہیں؟ بالکل نہیں… یہ جھنڈا پاکستان کی سرپرستی مین قائم نام نہاد آزاد حکومت کا جھنڈا ہے جو صرف یہاں کی حکومت کا نمائندہ ہے، اگر یہ قومی پرچم ہے تو اس کیساتھ ایک قومی ترانہ بھی پاکستان سے درآمد کیا گیا تھا، جو ریاست جموں کشمیر کی جبری تقسیم کو مذہبی بنیادوں پر مستقل کرنے کیلئے عوام کی ذہن سازی کے عمل کا ایک حصہ ہے… یہی وجہ ہیکہ اس جھنڈے کو قومی پرچم قرار دینے والے بھی اسی علاقے میں بسنے والوں کو قوم قرار دیتے ہیں جو آزادکشمیر کے ترانے میں بیان کی گئے ہیں،
کوہساروں کی آبادی
پہن چکی تاج آزادی
تم بھی اٹھو اہل وادی
حامی ہے اللہ تمہارا
یعنی مسلم اکثریتی وادی اور آزاد کشمیر کے اڑھائی اضلاع جو توڑ پھوڑ کے بعد اب دس کی گنتی پوری کر رہے ہیں، جموں، لداخ اور گلگت بلتستان کدھر گئے؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا ہماری جنگ صرف مسلم اکثریتی علاقوں کے لیئے ہے یا ہم سچ میں پوری ریاست کی مکمل آزادی کی بات کرتے ہیں؟؟؟ ہماری تمام قوم پرست جماعتیں ریاست جموں کشمیر کو غیر فرقہ وارانہ یعنی سیکولر ریاست بنانے کا نظریہ رکھتی اور دعوٰی کرتی ہیں تو کیا یہ جھنڈا جس میں عقیدے کی بنیاد پر آبادی کو تقسیم دکھایا گیا ہے ان کے نظریات سے مطابقت رکھتا ہے؟؟؟ یہ جھنڈا کسی تھیوکریٹ اسٹیٹ کا جھنڈا تو ہو سکتا ہے لیکن ایک غیر فرقہ وارانہ ریاست کا نہیں… سوالات بیشمار ہیں جو آزادکشمیر کے اس جھنڈے اور ہمارے قوم پرستوں کے ہاں پائے جانے والے تضادات پر اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ہمارا مقصد صرف غلطیوں کی نشاندہی کرنا اور دہرے معیار کو بینقاب کرنا ہے کسی کی تذلیل یا تحقیر نہیں ہے، آخری بات جو کافی دلچسپ بھی ہے کہ ہمارے قوم پرست اپنے جلسے جلوسوں میں ایک نعرہ بلند کرتے ہیں کہ
تقسیم کرے جو….؟؟؟؟
تقسیم جو مانے….؟؟؟؟
یہ نعرہ بازی دراصل ہمارے اپنے خلاف ہوتی ہے.کیونکہ ہم نے تقسیم کو مانتے ہوئے اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی ایک کٹھ پتلی حکومت کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوتا ہے…






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *