Main Menu

کامريڈ آفتاب کی جدوجہد اور خوابيدہ سماج؛ تحرير: آر اے خاکسار

Spread the love


بلاشبہ کامريڈ آفتاب جيسے لوگ اپنے سماج کا ہی نہيں بلکہ پوری دنیا کے مظلوم انسانوں اور معاشروں کا سرمايہ ہوتے ہيں ۔ ايسے انقلابی دوستوں کی رحلت يقيناً ايک خلا پيدا کرتی ہے جو سماجی عمل ميں کبھی بہت وقت بعد پورا ہوتا ہے اور کبھی کبھار پورا ہوتا ہی نہيں۔ يہ تمہيد اسليے کہ کامريڈ آفتاب سميت رياست جموں کشمیر کے کافی سارے دوست آزادی، خودمختاری اور حقيقی انسانی سماج کے قيام کيلیے اس وقت کوشاں رہے جب سارا سماج نيند کے مزے لُوٹ رہا ہے اور جو جاگنے کے دعویدار ہيں وہ بھی خوابيدہ اسطرح کہ اپنے عمل کی بجاۓ لفظی دعاؤں ، عالمی و آفاقی قوتوں کی طرف نظريں لگاۓ بیٹھے ہيں کہ کوئ آ کر انکا مسہلہ حل کرے گا۔ مذکورہ دوست نے نہ صرف اپنے سماجی مسہلہ کو سمجھا بلکہ اپنی پوری تواناہيوں کے ساتھ اس مسئلے کے حل کی عملی جہت کی۔ رياست جموں کشمیر کے جملہ منقسم حصوں ميں عوامی شعور کی سطح يہ ہے کہ کسی طور نہ اپنے وسائل کا ادراک اور نہ مسائل کی سمجھ بلکہ کہيں قبلاہيت اور کہيں مذہبی اور مسلکی تفريق کو شعار بنا کر شعوری اور لاشعوری طور پر انہی قوتوں کی مرضی اور منشاء کی تکميل کيلیے سرگرم عمل ہيں جو قوتيں ان کے استحصال پر سالوں نہيں دہاہيوں سے تواتر سے کاربند ہيں۔


اب اس صورتحال ميں محوِ خواب عوام کو بیدار کرنا اور سماجی عمل کو سمجھنے کی دعوت دينا يقيناً انقلابی جدوجہد ہی نہيں بلکہ دينِ الہيا کی سرفرازی اور فرضِ عين بھی ہے اور کامريڈ آفتاب ان لوگوں ميں سے ہيں جنہوں نے اپنی فکر کو کسی مصلحت کا شکار نہيں کيا بلکہ ہر لمحہ ميدانِ عمل ميں رہے۔ گلگت بلتستان اور نام نہاد آزاد کشمير سے پاکستانی حکومت سالانہ کھربوں روپے کماتی ہے اور بدلے ميں بھيک ميں چند ارب روپے اپنے سہولت کاروں کو ديے جاتے ہيں تاکہ عوامی مسائل اور بنيادی ضرورتوں کی عدم دستيابی پر عوامی راۓ عامہ کو سبوتاژ کيا جا سکے اور خطے کے عوام پاکستانی سرمايہ داروں کے خالص صارف الگ۔ اب پاکستانی کالونيلزم کے نظريات تھوڑے کھل کے عام آدمی کے بھی سامنے آ رہے ہيں۔ پاکستانی حکومت رياستی سہولت کاروں کو بھی آقا اور غلام کے آداب و قواعد ميں رکھتی ہے تاکہ وسائل کی لُوٹ گھسوٹ ميں کسی قسم کی مشکل درپيش نہ ہو۔ نام نہاد آزاد کشمير ميں رياست جموں و کشمير کی تاريخ پہ نيشنل ايکشن پلان کے تحت پابندی کو عرصہ ہوا مگر کسی طرف سے بھی کوئ مخالفت کی آواز سنای نہيں دی بلکہ خوشدلی اور خندہ پيشانی سے اس جبر کو بھی قبول کيا گیا۔ گلگت بلتستان ميں رياستی باشندہ قانوں کی معطلی، شيڈيول فور، اينٹی ٹيررسٹ ايکٹ جيسے قوانين لاگو کر کے عوامی حقوق کی ہر آواز کو دبايا گيا اور بہت سارے لوگوں کو ہميشہ کی طرح ہراساں اور پابندِ سلاسل بھی کيا گيا مگر پھر بھی کسی جانب سے بھی جبر اور ظلم کی ان ساری عياں شکلوں کے خلاف کوئ مربوط اور منظم آواز نہ سنای دی۔ وجہ يہی عوامی شعور اور انتظام کی ہے چونکہ جبر کو انسانی جبليت کسی صورت تسليم نہيں کرتی۔ جبر کے خلاف نفرت ايک باشعور انسان کسی نہ کسی صورت ضرور رکھتا ہے۔ شعور کے بغير انسان مکمل نہيں بلکہ انسان نما کوئ چيز ہوتی ہے جس کو اندھيرے اور اُجالے ميں تفريق نہيں ہوتی۔ يہی وہ نقطہ تھا کہ اپنے سماج کے انسانوں کو جبر کی يہ ساری شکليں کیسے سمجھائ جاہيں ۔ مذہبی ، علاقائ، مسلکی اور لسانی تقدس ميں لپيٹی گئيں شکليں سمجھائ کيسے جاہيں تاکہ عوام الناس اپنے حقوق کے لئے ہی نہيں بلکہ جبر کی بھی ہر شکل کے خلاف آواز بلند کريں اور ايک انسانی معاشرے کے قيام کی جدوجہد کريں۔ يہی وہ بحث تھی جسے کامريڈ آفتاب اور ساتھی لے کے چلے اور اپنی جدوجہد کو عمل کی کسوٹی پہ پرکھنے کی پوری کوشش کرتے ہوۓ ظلم کی جملہ اشکال کے خلاف اپنا انقلابی اور انسانی حق ادا کيا کہ کسی طور ہمارا سماج اپنے مسائل ، اپنے وسائل کی لُوٹ گھسوٹ کو سنجيدہ لے۔ مگر ادراک، فہم و شعور سے عاری سماج کو جگانا کوئ آسان کام نہيں بلکہ اسکے لئے انتھک اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامريڈ آفتاب کی جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہمارا عہد ہے اور يقين بھی ہے کہ اس سرمايہ داری اور جبر کے خلاف جدوجہد واحد حق کا راستہ ہے اور رياست جموں کشمير سمیت پوری دُنيا کے مظلوم اور محکوموں کی سرفرازی ہی ہماری منزل ہے۔
اُٹھو تم سب جو غلام نہيں ہو گے!!






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *