Main Menu

قدیم ترین اہل کتاب : صابئین

Spread the love


دو روز قبل صابئ مذہب کی عید تھی یہ ایک ایسا مذہب ہے جسکا ذکر قران پاک میں موجود ہے لیکن اسکے بارے میں زیادہ معلومات تاریخ میں دستیاب نہیں اب اس معدوم ہوتے مذہب کے بہت کم پیروکار اس دنیا میں باقی ہیں اس عید پر عرب ٹیلیوژن الجزیرہ نے اس مذہب پر قیمتی معلومات فراہم کیں
۔
آج اہل کتاب میں سے صابئین کی عید ہے اور پہلی بار ان کے بارے میں کافی معلومات ملی ہیں۔ قرآن میں صابئین کا ذکر ہے۔ مگر تفاسیر میں ان کے بارے میں مختلف اقوال مذکور ہیں۔ بعض مفسرین نے انہیں ستارے پرست کہا ہے۔ شاید یہ سب سنے سنائے اقوال ہیں۔ صابئین کی عید کے موقع پر الجزیرہ نے ان پر ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے۔
صابی دنیا کے سب سے قدیم ترین مذہب کو فالو کرتے ہیں۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بیٹے شیث علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔ اس وقت آسمانی مذاہب میں صابی سب سے چھوٹا گروہ رہ گیا ہے۔ یہودیوں کی طرح اور ان کے مذہب میں بھی کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ عراق میں دریائے دجلہ کے کنارے آباد ہیں۔ اپنے رسوم و رواج اور عقائد و عبادات میں یہ سب سے الگ تھلک ہیں، بلکہ کسی حد تک چھپاتے بھی ہیں۔ اس مذہب میں پانی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ عید الکرصہ کے روز سارے صابی دجلہ کنارے جمع اور جاری پانی میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اس عید کو “دهوا ربا” بھی کہا جاتا ہے۔ صابیوں کے بقول اس روز خالق نے آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل زمین کو انسانی آبادی کے قابل بنایا تھا اور خیر شر پر غالب ہوگئی تھی۔ پھر اسی روز آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی تھی۔ یہ عید چھتیس گھنٹوں تک جاری رہتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق اتنا ہی وقت خلق کی تخلیق میں لگا تھا۔ اس دوران کوئی صابی کسی درخت اور ذی روح کو ہاتھ نہیں لگاسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں ڈیڑھ دن کی ضرورت کے بقدر پانی ذخیرہ نہ کرلے۔ یہ پانی بھی دجلہ سے لایا جاتا ہے۔ اس مذہب کا لٹریچر آرامی زبان میں ہے۔ کتب دینی کا دوسری زبانوں میں ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ تر حصہ ضائع ہو چکا ہے۔ کیونکہ مذکورہ زبان کے جاننے والے صرف دس مذہبی شخصیات رہ گئی ہیں۔ اس بار کورونا کی وجہ سے صابیوں کی عید بھی پھیکی پڑ گئی۔ ان کے مذہبی رہنما شیخ ستار الحلو کا کہنا تھا اس مرتبہ عبادت گاہوں کے اندر ہی ساری رسومات ادا کی جا رہی ہیں۔ اس عید کے علاوہ صابی سال میں تین اور عید بھی مناتے ہیں۔ شیخ ستار کا کہنا تھا کہ صابی دنیا کا سب سے قدیم مذہب ہوتے بھی اس کے پیروکار بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ وہ بھی کتب کا دوسری زبانوں میں ترجمہ نہ ہونا بتاتے ہیں۔ ان کے بقول ہم پکے موحد ہیں۔ لیکن کتب صرف آرامی زبان میں ہونے کی وجہ سے لوگ ہمارے عقائد کے بارے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
صابی عراق میں دوہزار برس سے موجود ہیں۔ ان کے سربراہ اکرم سلمان کا کہنا تھا کہ ہمارے آباواجداد فلسطین سے آئے تھے اور یہاں دجلہ وفرات کے کنارے آباد ہوگئے تھے۔ تاہم کتب ضائع ہونے کی وجہ سے ہماری تاریخ مرتب نہ ہوسکی۔ ہم روئے زمین کے اولین موحدین میں سے ہیں۔ جس آخری نبی کو ہم مانتے ہیں، وہ یحییٰ بن زکریا علیہما السلام ہیں۔
مکمل سفید لباس صابیوں کی پہچان ہے۔ ان کی مذہبی کتاب کا نام كنزا ربا یا الكنز الكبير (بڑا خزانہ) ہے۔ جو آرامی زبان میں ہے اور سیدنا آدم علیہ السلام پر نازل شدہ صحائف کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے پہلا حصہ دنیوی امور اور دوسرا حصہ اخروی امور سے متعلق ہے۔ صابیوں کے امور کی نگران کمیٹی کی سربراہ نادیہ مغامس کے مطابق ہم لوگ دو ہزار برس سے آج تک اپنی رسوم اور رواج میں بہت سختی سے عمل کرتے ہیں۔ صابیوں میں مذہبی عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون نادیہ کا کہنا تھا کہ ہمارے بارے میں لوگ عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں کہ یہ ستاروں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے، ہمارا قبلہ چونکہ قطب شمالی میں ہے، اس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہیں، اس لئے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ ستاروں کی عبادت کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صابی مردار جانور کھاتے ہیں۔ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ صابی مذہب کے بھی اسلام کی طرح پانچ بنیادی ارکان ہیں: توحید، پنج وقتہ نماز، صدقہ، روزہ جس کے دو حصے ہیں، ایک بڑا جو پورا سال چلتا ہے کہ اس دوران گناہ سے کنارہ کشی کرنا ہے، دوسرا چھوٹا روزہ جو چھتیس دن کا ہے۔ اس دوران گوشت کھانے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ پانچواں رکن رب کا تقرب حاصل کرنا ہے، جو جسم اور روح کے تعلق کو مضبوط کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کیلئے جاری پانی میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ جاری پانی بھی زندگی کے مشابہ ہے۔
نادیہ کے بقول عراقی حکومت کی جانب سے ہمیں بالکل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہمارے لوگ یہاں سے دوسرے ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سلسلہ عراق ایران جنگ میں شروع ہوا تھا۔ اب بھی جاری ہے۔ اب ہمارے مذہب کے اتنے لوگ رہ گئے ہیں کہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو صابیوں کی حکایت بس کتابوں میں ملے گی۔

بشکریہ الجزیرہ






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *