Main Menu

شخصی راج سے خاندانی راج تک ، کیا کھویا کیا پایا ؟ تحرير: عابد مجيد

Spread the love

ریاست جموں کشمیر میں شخصی راج قائم تھا اور اس زمانے کی منارکی دنیا میں جہاں کہیں بھی تھی اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہو تا تھا ۔ بادشاہت زیادہ تر مذاہب کو استعمال کر کے اپنا اقتدار قائم رکھتی تھیں اور مذہبی پیشواوں اور بادشاہوں کا گھٹ جوڑ عوام دشمن قوانین بناتے اور مذہبی پیشوا عوام کو قبول کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے لیکن یورپ میں اس گٹھ جوڑ کا توڑ نکالا گیا اور عوام سمیت دانشوروں فلاسفروں ادیبوں کی بے شمار قربانیوں نے بادشاہت اور چرچ کو جھنجھوڑ کر اور توڑ کر رکھ دیا اور اس طرح یورپ میں ترقی کی راہیں کھولیں جہموری حکومتوں کا قیام عمل میں آیا اور صنعتی انقلاب اور جہموریت نے انسانوں کی زندگیاں بدل دیں ۔اسکا اثر باقی دنیا پر بھی پڑا لیکن برصغیر میں انگریز جاتے جاتے بھی مذہب کو استعمال کر گیا جس کے نتیجے میں برصغیر کو تقسیم ہونا پڑا۔ روسی انقلاب اور چین میں ماؤ کی قیادت میں انقلابی قوتوں کی جدوجہد اور اس جدجہد کے ثمرات کو اس حطے کو دیور رکھنے کی ایک کامیاب کوشش ہوئی۔ اس سب کا عصر ریاست جموں کشمیر پر بھی پڑا اور بلا آخر حکمرانوں کے اسبداد جبر اور مقامی مسلم قیادت کی غلط حکمت عملی لالچ اور زاتی مفادات نے ریاست کو تقسیم کر وانے اور عوام کو غلامی میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔جسکے نتیجے میں ریاست کے پاس دنیا کے بہترین وسائل ہونے کے باوجود عوام پندرہویں صدی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور نوجوان اپنے وطن سے دور خاندانوں سے دور روزگار کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور۔ شخصی جبر کی حمایت ہو ہی نہیں سکتی اسکی اپنی برائیاں اپنی جگہ لیکن اس زمانے میں نوجوانوں کو لازمی تعلیم اور تعلیمی معیار کیساتھ روزگار میں میرٹ کا بہترین معیار تھا عدالتوں کا نظام اور جرگہ میں انصاف کا معیار آج سے بہت بہتر تھا آج میرٹ کا معیار حکمرانوں کی چاپلوسی اقربا پروی قبیلہ پرستی ہے۔ انکے اپنے لگائے ہو ججز اپنی عدالت نا اہل کرار دیتی ہے۔ شخصی راج ختم کرنے کی اتنی بھاری قیمت تقسیم غلامی ثقافتی تباہی مختلف مذاہب کا آپسی پیار محبت اس ریاست کا حسن تھا جو تباہ و برباد کیا گیا انسانوں کا قتل عام ہواس اور بدلے میں کیا ملا ۔ نا انصافی بے روزگاری غلامی بے عزتی مفلسی جہالت مذہبی منافرت قبلائی لعنت علاقائی نفرت۔ اور ان چند خاندانوں کی حکمرانی جو ۴۷ کی تقسیم میں شامل تھے۔ سردار ابراہیم کے پوتے تک سردار عبدلقیوم کے پوتے تک فتح محمد کریلوی کے پوتے تک راجہ حیدر کا پوتا تیاری میں نور حسین کا بیٹا الہائی بخش کا پتربہاتر سالوں سے حکمران کیا اس لیے قربانیاں دی تھیں اپ نے ۔ جو یہ داعوی کرتے ہیں کہ ڈوگرہ کے شخصی راج سے آزادی حاصل کی تھی۔ یہ جو حکمران طبقہ ہے ان سب کے مقابلے میں انہی کے قبیلوں میں ان سے زیادہ ایماندار با صلاحیت تعلیم یافتہ لوگ موجود مگر حکمرانی صرف چند گھرانوں کی جنکے کردار مورخ طے کر چکا حساب لینا عوام کا کام ہے۔ عوام کو جاگنا ہوگا اور قبیلائی عصبیت سے باہر ا کر عوامی طبقے کو مٹھی بھر خاندانی طبقے کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔اور ساتھ میں اپنے وسائل لوٹنے والوں کا مقابلہ بھی۔ آخری فتح عوام کی ہوگی!






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *