Main Menu

اُنيس(19) جولائی یومِ سازش ؛ تحرير: ثمینہ راجہ

Spread the love


قارئینِ کرام !
آج 19 جولائی ہے ۔
ریاست جموں و کشمیر کی قومی تاریخ میں یہ ایک سیاہ دن ہے اور اسے بجا طور پر یومِ سازش قرار دیا جاتا ہے ۔
19 جولائی 1947 کو سرینگر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے ایک معتمد ملازم اور مہاراجہ ہری سنگھ کے معتمد سردار ابراہیم خان (کہ جن کو مہاراجہ ہری سنگھ نے وظیفہ دے کر تعلیم دلوائی، وظیفہ دے کر برطانیہ سے اعلی’ تعلیم دلوائی اور پھر اپنی حکومت میں اہم ذمہ داریاں سونپیں) نے اپنے فرائضِ منصبی اور اپنے اوپر کئیے گئے احسانات کو فراموش کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ غداری کرتے ہوئے اپنے گھر میں چند لوگوں کو بٹھا کر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی قرارداد پاس کی ۔
سردار ابراہیم صاحب نے یہ کام مسلم لیگ کی ایماء پر کیا ۔
1947 میں جب انگریزوں نے ہندوستان کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو آزاد و خودمختار بنانے کا فیصلہ کیا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ کا یہ فیصلہ کانگریس، مسلم لیگ اور انگریزوں کو قبول نہیں تھا ۔ چنانچہ ان تینوں قوتوں نے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے پر باہم اتحاد کرتے ہوئے ریاست کے کچھ سیاستدانوں اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز لوگوں (خصوصاً مسلمانوں) کو مختلف دام لگا کر اور لالچ دے کر خریدا اور ان کو مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف غداری کرنے پر آمادہ کیا ۔
سردار ابراہیم کے علاوہ راجہ افضل خان، راجہ حیدر خان، سردار فتح محمد کریلوی اور راجہ اکبر خان وغیرہ وہ قابل زکر لوگ ہیں جنہوں نے 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ غداری کی اور چند ٹکوں کے عوض اپنی حکومت، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کے ساتھ غداری کی ۔
مطالعہ پاکستان کے قارئین 19 جولائی 1947 کی جعلی قرارداد الحاق پاکستان کو اکتوبر 1947 کے واقعات کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ” 19 جولائی کو غلام عباس نے جیل سے رہا ہوتے ہی خودمختار ریاست کی مسلم کانفرنس کی پہلی قرارداد کو کالعدم قرار دے دیا اور الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کر لی گئی” –
اس بات کی تصدیق کسی مستند ذریعے سے نہیں ہوتی اور یہ بات واقعاتی حقائق کے بالکل خلاف ہے –
19 جولائی کو سرینگر میں مسلم کانفرنس کا کوئی باضابطہ کنونشن منعقد نہیں ہوا تھا – تمام قیادت بدستور جیل میں تھی اور کنونشن کے لئیے جگہ کا انتظام ہی نہ ھو سکا تھا – ان حالات میں سردار ابراھیم نے اپنے گھر میں چند دوستوں کو بلا کر ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کی – سردار ابراہیم نے یہ کام مسلم لیگ اور انگریزوں کی ایماء پر کیا اور ان کے اس عمل کی نہ تو کوئی سیاسی اہمیت ہے اور نہ ہی قومی امور میں ایسے انفرادی واقعات کا تذکرہ ہوتا ہے –
19 جولائی کی اس محفل کے ساتھ چوھدری غلام عباس کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی یہ مسلم کانفرنس کا کوئی کام تھا ۔
ہماری قومی ریاستی تاریخ کو مسخ کرنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ سردار ابراہیم نے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے لئیے یہ سارا کچھ کیا اور بعد میں انہوں نے 4 اکتوبر 1947 کو راولپنڈی میں جمہوریہ کشمیر کے نام سے جس حکومت کا اعلان کیا اس کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
قارئین کرام ۔
اس طرح کا دعوی’ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئیے کیا جاتا ہے اور یہ تاریخ کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑ ہے ۔
درحقیقت 19 جولائی 1947 کی سردار ابراہیم کی سازش کی ناکامی اور 15 اگست 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ریاست کو آزاد و خودمختار رکھنے کے فیصلے کے بعد انگریزوں، پاکستان اور بھارت سبھی کے پاس ریاست پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی نہیں بچا تھا ۔
چنانچہ انگریزوں نے پاکستان سے آپریشن گلمرگ تیار کروایا جس کے پہلے مرحلے کے طور پر سردار ابراہیم سے 4 اکتوبر 1947 کو ریاست کی باغی (غدار) انقلابی حکومت کے قیام کا اعلان کروایا گیا ۔
مگر جب 4 اکتوبر 1947 کی یہ سازش بھی ناکام ہو گئی تو پھر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان نے براہ راست ریاست پر حملہ کر دیا اور اس حملے کے دوران سردار ابراہیم اور اوپر ذکر کئیے دیگر مسلم اکابرین نے پاکستان کے سہولتکاری اور ریاست و عوام سے غداری کا کام کیا ۔
قارئین کرام ذرا غور کیجئیے –
19 جولائی کو ایک شخص الحاق پاکستان کا داعی ہے – وہ اپنی بساط سے بڑھ کر ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئیے تگ و دو کرتا ہے –
پھر 3 ماہ اور 5 دن کے بعد وہ شخص ایک حکومت بناتا ھے، یہ حکومت پاکستان کی فوجی مداخلت کے ذریعے قائم کی جاتی ہے اور وہی شخص ریاست جموں و کشمیر کے اندر اس حکومت کے ذریعے پاکستان کے مفادات کا سب سے بڑا محافظ بن جاتا ہے – اگلے 56 سال تک یہ شخص زندە رہتا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک 19 جولائی 1947 کی قرارداد کی روح کے مطابق پاکستان کے مفادات کے لئیے کام کرتا رہتا ہے – اس دوران وہ چار بار ایوان اقتدار میں براجمان ہوتا ہے اور زندگی بھر کبھی بھی ریاست کی کامل آزادی اور خود مختاری کے لئیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا – یہ شخص زندگی بھر پاکستان کے اشاروں پر ناچتا ھے ………..
اس شخص کو جہاں بھی موقع ملتا ہے ریاست جموں و کشمیر کی شناخت کو ختم کرتا ہے، ریاستی عوام کے مفادات کو پاکستان کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے اور ریاست کے آٹھ حصوں میں سے سات حصے پاکستان کو فروخت کر کے خود صرف ایک حصے کا چوکیدار بن جاتا ہے – یہ شخص ریاست کی آزاد سیاست کو بھی پاکستان کے ہاتھوں فروخت کرنے سے باز نہیں آتا –
مگر بیچ میں صرف ایک اخباری بیان کے لئیے، صرف ایک دن کے لئیے یہ شخص ہمارے نام نہاد قوم پرستوں کی توقعات کے عین مطابق ایک عوامی، جمہوری، انقلابی، قوم پرست اور آزاد و خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا نقیب بن جاتا ہے –
قارئین کرام ۔
19 جولائی 1947 سے لے کر 31 جولائی 2003 تک کے 56 سال اور 12 دن یہ غدارِ ملت جسے دنیا سردار ابراھیم کے نام سے جانتی ہے، ان میں سے 56 سال اور 11 دن تک تو ریاست جموں و کشمیر کی قومی آزادی، خودمختاری اور مفادات کے خلاف کام کرتا رہتا ہے مگر بیچ میں صرف 1 دن کے لئیے 4 اکتوبر 1947 کو بہت بڑا محب وطن، انقلابی اور قومی آزادی اور خودمختاری کا چیمپئن بن جاتا ہے – اور وہ 1 دن بھی ایسا جب وہ پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں بیٹھا ہے اور اپنے ساتھ صدرِ ریاست کے طور پر ایک پاکستانی فوجی افسر میجر خورشید انور کو رکھتا ہے –
قارئین کرام کیا یہ ممکن ہے؟
ایک شخص 56 سال اور 11 دن تو ایک نظریے پر کاربند رہتا ہے اور بیچ کا ایک دن بہت بڑا محب وطن، آزادی پسند، جمہوری اور انقلابی رہنما بن جاتا ہے ۔
اس 1 دن کے دوران ہی یہ شخص ریاست کی آزادی اور خود مختاری کا پلان بناتا ہے ۔۔۔۔
اور بعد میں عملاً چار بار موقع ملنے کے باوجود یہ شخص اپنے اس 1 دن کے منصوبے کی تکمیل کے لئیے 1 بھی قدم نہیں اٹھاتا –
کیا کوئی عقلمند اور ذی شعور شخص اس 1 دن کے فلسفے کو تسلیم کرے گا –
56 سال اور 11 دن ایک طرف اور زندگی کا یہ ایک دن ایک طرف –
یە ہے پاکستان کا ہماری قومی تاریخ کو مسخ کرنے کا ایک ثبوت –
اس ایک دن کے قصے کو کون مانے گا؟
مگر ہمارے نام نہاد قوم پرست رہنما اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار روائیتی سیاستدان ہیں کہ اس ایک دن کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں – ایسا ایک دن جو کبھی ظہور پزیر ہی نہیں ہوا –

رياست جموں کشمير کے آخری ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی فائل فوٹو

قارئین کرام ۔
اس ساری گفتگو کے بعد بھی کوئی شخص یہ تسلیم کرے گا کہ 4 اکتوبر 1947 کو عوامی جمہوریہ کشمیر کے نام سے سردار ابراھیم نے ایک انقلابی اور جمہوری حکومت بنائی تھی؟
کیا اپنی ساری زندگی کی نفی کرتے ہوئے صرف ایک دن کے لئیے سردار ابراھیم عوامی، انقلابی، جمہوری اور آزاد و خودمختار خوشحال ریاست جموں و کشمیر کا علمبردار بن گیا تھا؟
قارئین کرام سچ یہ ہے کہ سردار ابراہیم صاحب 1947 میں پاکستان کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف غداری کے مرتکب ہوئے ۔ پہلے انہوں نے 19 جولائی کا الحاق پاکستان کی قرارداد کا ڈرامہ رچایا، پھر 4 اکتوبر 1947 کو انقلابی، عوامی اور جمہوری حکومت کے نام پر ڈرامہ کیا –
اور جب یہ دونوں ڈرامے ناکام ہو گئے تو 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کی عملی سہولتکاری کر کے ریاست کو تقسیم کروا دیا ۔
میں نے دلائل دے دیئے ہیں – فیصلہ قارئین کرام پہ چھوڑتی ہوں –
خود تحقیق کریں اور سوچ لیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *