Main Menu

بلوچوں کے کرب و مزاحمت کی تاريخ پرانی ، نواب نوروز خان کی قربانی مشعلِ راہ ہے؛ انوار زيب

Spread the love

نواب نوروز خان کی فائل فوٹو

بلوچوں کے کرب و غم اور مزاحمت کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ریاست قلات پر غاصبانہ فوج کشی کے بعد سے لے کر أج تک بلوچ اپنے وسائل اور ساحل پر حاکمیت اور اختیار کی لڑائ لڑ رہے ہیں ۔1948 میں پہلی بار شھزادہ عبدالکریم نے اپنے لشکر کے ساتھ افغانستان میں جلا وطنی اختیار کی۔کچھ عرصہ بعد جب وہ واپس أۓ تو انکو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے ھری پور جیل میں ڈال دیا گیا ۔حریت پسند بلوچ بزرگ رھنما نواب نوروز خان مجبور ھوکر اپنے بیٹوں اور قبیلے کے ساتھ بندوق اٹھا کرپہاڑوں پرچلے گۓ۔ایوب حکومت نے قرأن پر ھاتھ رکھ کر انکو مذاکرات کے زریعے مساٸل حل کرنے کی یقین دھانی کراٸ ۔لیکن پہاڑ سے نیچے اتر کر انکس بیٹوں اور ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا انکے بیٹوں کو پھانسی کی سزا دی گٸ۔نوروز خان نے 80 سال کی عمر میں جیل میں وفات پاٸ۔
ان کے لاشوں کو حیدراباد قلعے سے نیچے گرایاگیا اور میر رسول بخش تالپور کے خاندان کے خواتین نے بلوچی غیرت کا مظاھرہ کرکے ان کے لاشوں پر چادریں ڈالیں اور انکے جنازوں کو اپنے گھر لےگئے.
۔بلوچوں یعنی أدھے پاکستان کی محرومیوں اور بد بختیوں اور لازوال مزاحمت اور جدوجھد کا نہ ختم ھونے والا تسلسل أج بھی جاری ہے ۔ شھید کی طلسماتی شخصیت اور قربانی أج بھی بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔نوروز خان اور انکی طرح تمام وہ شھید جو اس دوران قتل کیے گۓ انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *