Main Menu

کہوٹہ ، 1947 پنڈی میں قتل عام ؛ تحقيق و تحرير فہد رضوان

Spread the love


میرے شہر راولپنڈی کے قریب یہ ایک گاؤں ھے۔ گاؤں کیا ھے اب تو کھنڈروں کا ڈھیر ھے۔ پاس کچھ سکھوں کے لگاۓ تناور گھنے آم کے درخت ھیں اور یہ ایک کنواں۔۔۔ جی یہ وہ کنواں ھے جس میں درجنوں سکھ لڑکیوں نے کود کر اپنی عزتیں مسلمان حملہ آوروں سے بچائیں۔ 6 مارچ 1947, تھوا خالصہ نامی اس گاؤں کو گھیر لیا جاتا ھے۔ حملہ آور کہتے ھیں کہ سکھ اسلام قبول کریں یا پھر اپنا روپیہ پیسہ ان کے حوالے کریں۔سردار گلاب سنگھ گاؤں کا سردار تھا۔ باھمی مشورے کے بعد سکھ اس بات پر رضا مند ھو جاتے ھیں کہ مسلمانوں کو بیس ھزار روپے نقد اور انکے گھر لوٹنے کی اجازت دے دیں۔ سکھ سردار گلاب سنگھ کی حویلی میں اکٹھے ھوتے اور اپنے گھروں سے دھواں اٹھتا دیکھ کر آنسو پی جاتے ھیں کہ صد شکر بلا ٹلی مگر ابھی تو انکے مصائب کا آغاذ ھوا تھا۔ حملہ آور مسلمانوں نے روپیہ اور گھر بار لوٹنے کے بعد سکھ لڑکیوں کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ کردیا۔ اس بات پر بلوہ شروع ھو گیا۔ نہتے سکھ بھلا کہاں حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ جو محافظ مرد مسلح تھے وہ لڑتے ھوۓ گردوارے کے گرد قتل ھونا شروع ھوۓ۔ باقی سکھ خاندانوں نے جب یہ منظر دیکھا تو مردوں نے اپنے ھاتھوں سے اپنی بیٹیوں اور بچوں کی گردنیں اتارنی شروع کر دیں اور جو جوان لڑکیاں تھیں، انہوں نے اس کنویں میں چھلانگیں مارنا شروع کر دیں۔ کنواں لاشوں سے بھر گیا۔

جو لڑکیاں خوش قسمت تھیں، وہ ڈوبنے سے بچ گئیں۔ قتل عام اس قدر بڑے پیمانے پر ھوا کہ واسراۓ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت نہرو خود راولپنڈی اۓ۔۔۔ جو تھوڑے بہت سکھ زندہ بچے، انکو دلی لے جایا گیا۔ پھر راولپنڈی ، لاھور، سیالکوٹ ، لائل پور سے جو سکھوں، ھندوؤں کی لاشیں مشرقی پنجاب پہنچیں تو جوابی وہاں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا ۔
میرا ننہیال مشرقی پنجاب کا ھے، وہ لوگ وہاں سے جانیں بچانے کے لئے دلی کی طرف بھاگے۔ جالندھر ، وہاں سے امرتسر ، اس سے آگے لاھور ، راولپنڈی ، کشمیر تک ۔۔۔ خدا جانے کتنے کنوئیں ایسے ھوں گے جن میں کتنی لڑکیوں نے کود کر مذھب کے ان پیروکاروں سے اپنی عزتیں بچانے کیلیۓ اپنی جانیں بھری جوانی میں بجھا دیں۔ کتنی کنواریوں نے اپنی گردنیں کٹوا دیں۔۔۔ لو ایسے ھی ایک بھائی کی کہانی سن لو جس نے اپنے سامنے اپنی بہنوں کو کٹتے دیکھا۔۔۔میں پانی میں دیر تک دیکھتا رھا۔۔ انسو حلق تک امڈ آتے تھے مگر ساتھ رحمان بھائی تھے، میں نہیں رویا۔۔ برداشت کر گیا۔۔۔ یہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رھا تھا۔ کہتا کہ ایک سکھ سردار کبھی کبھار یہاں آتا ھے اور دیر تک روتا رھتا ھے۔۔۔
آموں کے گھنے پیڑ، یہ کنواں اور پاس کھنڈر بنا گردوارہ۔۔۔۔
واہے گرو جی دا خالصہ
واہے گُرو جی دے فتح
یہ جگہ تحصیل کہوٹہ میں ‘ تٗھوا خالصہ ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہاں کسی زمانے میں سکھوں کا گردوارہ ہوا کرتا تھا جسے مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدقسمت جگہ ہے جہاں تقسیمِ پنجاب کے وقت فسادات کا آغاز ہوا۔ آس پاس کی مسلمان آبادیوں نے گردوارے اور یہاں رہنے والوں پر جب حملہ کیا تو اس چھوٹے سے گاوں کی سکھ خواتین نے اپنی عزتیں بچانے کے لئے تصویر اور ویڈیو میں موجود کنویں میں چھلانگ لگا دیں۔ گہرائی کم ہونے کے باعث ان میں سے بیشتر خواتین ڈوب کر مرنے کی بجائے دم گھٹنے سے ہلاک ہوئیں۔ مقامی شخص کے مطابق آج بھی اس دور افتادہ جگہ پر ایک بوڑھا سکھ آتا ہے اور دھاڑیں مار کر اپنے خاندان کو یاد کرتا ہے۔ ہماری تاریخ کے گمنام صفحوں میں یہ علاقہ بھی اپنی شناخت گم کر بیٹھا ہے۔ اس گردوارے کی رہی سہی عمارت چند سال پہلے سونے کی تلاش میں آنے والوں کے ہاتھوں زمیں بوس ہو چکی ہے۔ تاریخ وہ نہہیں جو مطالعہ پاکستان میں پڑھائی جاتی ہے،تاریخ وہ ہے جو ان جیسی جگہوں پر آج بھی کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *