آزاد جموں و کشمیرمیں انسانی زندگی کی قیمت پر بجلی کی پیدوار، تحریر:شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ
پاکستان میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران بھی شدید نوعیت اختیار کر چکا۔ گیس و دیگر اہم توانائی کے ذرائع سے توانائی کے حصول میں حکومتیں ناکام ہو چکیں۔توانائی کی اس کمی کو پورا، سی پیک کی تکمیل کے لیے ہائیڈرل پرجیکٹ کی جانب حکومتیں خصوصی اقدام کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستانی حکومتیں غیر آئینی وملکی متنازعہ علاقہ جات آزاد جموں وکشمیر و گلگت بلتستان سے درجنوں ہائیڈرل منصوبوں سے پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد عوام کی ضروریات پوری کرنے کے خواہشمندہیں کیونکہ مذکورہ بالا خطے متنازعہ حثیت سے سیاسی،معاشی،انتظامی لحاظ سے مکمل طور پر پاکستان کے زیر اثرنو آبادیاتی کالونیاں بن چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ سرزمین بے آئین و اختیارکے وسائل کا استحصال عروج پر ہے۔ریاست جموں وکشمیر میں چھوٹے بڑے کل 44دریا بہتے ہیں ہمیالہ ریجن جو برف و پانی کا ذخیرہ اور ریاست جموں و کشمیر اس کی واٹر باڈی سمجھی جاتی ہے۔جس سے چین،پاکستان و بھارت کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسان استفائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ہمالیہ کے اس ریجن میں بڑے اور معروف گلیشرز کی بدولت ریاست جموں وکشمیر کو منفرد اہمیت حاصل ہے۔جس کے دریاوں میں بے بہا بہتا پانی بے پناہ طاقت و قوت کا حامل ہے جسے دیدہ وروں نے Floating Goldقرار دیا۔موجودہ دور میں پانی اہم موضوع بن چکا جس میں کوئی مبالغہ نہیں۔2008میں کیمیکلز کی ملٹی نیشنل امریکی کمپنی DOWکے سی ای اواینڈ ہاریولیورس نے کہا تھا کہ”ایکسویں صدی“کا”تیل“پانی ہو گا“۔یہی وجہ ہے کہ عالمی ماحولیاتی ادارے،ورلڈ بنک سمیت ارب پتی افراد اربوں ڈالر خرچ کر کے آبی ذخائر خرید رہے ہیں۔عالمی مبصرین بھی رائے دے چکے کہ آئندہ عالمی جنگیں پانی کے حصول و قبضہ کے لئے ہوں گی اور بڑی تعداد میں انسان حصول پانی و ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کریں گے۔چند برس قبل واشنگٹن میں ورلڈ بنک کا چار روزہ اجلاس ہوا جس میں دنیا بھر سے سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اس اجلاس کے ایجنڈے میں ”پانی“ سرفہرست تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے بڑھ کر کوئی اہم موضوع ہو بھی نہیں سکتا تھا۔موسمی و ماحولیاتی گرماو، آلودگی کی وجہ سے پوری دنیا پانی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اس سے زیادہ اعدادو شمار سے آلودہ پانی پینے کی بدولت ڈائیریا،ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق غیر محفوظ پانی کے استعمال سے ہر گھنٹہ 240 بچے دم توڑ جاتے ہیں۔ایسے تبصروں کے تناظر میں پاکستان و بھارت جن حالات میں ایک طرف پانی کی عدم دستیابی،آلودہ پانی اور توانائی کے بحران کا شکار ہیں تو اس کے برعکس استعماری،سامراجی،سرمایہ داری کا عفیریت آبی وسائل پر قبضہ و اجارہ داری اور وسائل کا کھلے عام استعمال کی بھرپور جدوجہد میں ہے۔قومی آزادی و بنیادی سیاسی،معاشی و انسانی حقوق سے محروم ریاستوں و اقوام کے تصفیہ کا حل کیے بغیر اس سے قبل وسائل کا خاتمہ اور لوٹ کھسوٹ انتہائی تشویشناک ہے۔ہندوستان و پاکستان کا پانی و توانائی کے اس بحران سے نمٹنے کے لئے ریاست جموں و کشمیر کے دریاوں ندی نالوں پر ہائیڈرل پروجیکٹ اور ڈیمز کی صورت میں متنازعہ علاقہ،خطہ میں پونے دوکروڑ انسانوں کی زندگی کی قیمت پر بجلی کی پیدوار،پانی کا حصول برائے آبپاشی و زراعت ریاستی عوام کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد جموں وکشمیر کے پنتالیس لاکھ سے زائد انسانوں کی زندگی کا انحصار پہاڑوں میں موجود قدرتی چشموں،جھلیوں،جنگلات،ندی نالوں،معدنیات اور بہنے والے دریاوں پر ہے۔پانی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے کسی بھی علاقے میں زندگی ممکن ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دور میں تہذیب اور زندگی کے تمام آثارپانی کے نزدیک پائے جاتے ہیں۔گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان و ہندوستان جہاں ریاست جموں وکشمیر کے وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں وہیں پاکستانی ریاست کی پالیسوں کی وجہ سے نام نہاد آزاد جموں وکشمیر مستقبل میں بڑے ماحولیاتی المیے و خطرے سے دوچار ہونے والا ہے؟حکمران اپنی نااہلیت،عدم دلچسپی اور ناقص حکمت عملی و سوچ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے توانائی کے بحران دور کرنے کے لئے یہاں کے دریاوں پر ہائیڈرل پرجیکٹ لگا کر براہ راست اثرات پیدا کر رہے ہیں۔دریاوں پر ہائیڈرل پروجیکٹس بنانا اور بجلی کا بحران حل کرنا تو ایک مسلہ ہے لیکن ان سارے منصوبوں کے پس منظر میں موجودہ نوآبادیاتی (کالونیل) استحصال کی سوچ اور ایک متنازعہ علاقے کے وسائل پر براہ راست اجارہداری انتہائی گھمبیر مسلہ ہے۔ان وسائل پر تسلیم شدہ بین الاقوامی مقامی، عوامی حق اختیارکو بھی سلب کر دیا ہے۔توانائی کے پروجیکٹ شروع کرنے سے قبل آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان حکومت سے کوئی معائدہ و منظوری تک نہیں لی جاتی۔روز اول سے ہی سیاسی و سماجی اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے جب آزاد جموں وکشمیر و پاکستان کے حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تو اسے سنجیدہ لینے کے بجائے ایسی رائے و تحفظات کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے بھارتی جاسوس اور ملکی مفاد دشمن ظاہر کرکے انھیں راستے سے ہٹانے کی حکمت عملی اختیار کی۔ان منصوبوں میں سے نیلم جہلم ہائیڈرل پرجیکٹ بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس نے چار ہزار مربع میل پر مبنی آزاد جموں وکشمیر کے دالحکومت مٖظفر آباد اور گرد و نواع کو اپنے اثرات کی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔جس پر عوام کی بڑی تعداد بے چینی سے سراپا احتجاج ہے اس صورتحال بارے اس تحریر کے آخری حصہ میں مرقوم کیا جائے گااس سے قبل نیلم جہلم ہائیڈرل پرجیکٹ اس کی تباہ کاری اور دیگر منصوبہ جات کا ایک مختصر ساجائزہ لینا مقصود ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈرل منصوبہ کے آغاز کے وقت سے ہی اس منصوبہ کے دور رس اثرات کے حوالہ سے عوام کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور اس منصوبے سمیت دیگر کی تعمیر سے قبل ماحولیاتی موازنے،منفی اثرات کے تدارک اور مقامی عوامی و حکومتی حق اختیار و حقوق و تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ تمام منصوبہ جات، خدشات و تحفظات کو نظر انداز کر کے اپنے ہی فیصلوں کے تحت بنائے جا رہے ہیں متنازعہ ریاست کے پانیوں سے ہزاروں میگا واٹ کی پیداور کے باجودپنتالیس لاکھ سے زائد انسان بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں جن کی ساری ضرورت 350میگا واٹ ہے۔نیلم جہلم پروجیکٹ کا ڈیزائن 1989میں منظور ہوا۔جسئے 2002 سے 2008تک مکمل کرنا تھا جو مالی فنڈز اور بعدازاں زلزلہ آنے کی وجہ سے التواء کا شکار رہا۔7جولائی 2007 کو چائینا کی ایک کنسٹریکشن کمپنی نے حکومت پاکستان کو ڈیم و پاور اسٹیشن کی تعمیر کی پیشکش کی جو اس سال کے آخر پر شرائط کے ساتھ قبول کر لی گئی اور یوں 8فروری 2008کو پاکستانی آمر صدر پرویز مشرف نے یہ منصوبہ لانچ کرنے کا اعلان کر دیا جو رواں سال،مارچ میں 5.1بلین ڈالرسے مکمل ہوا۔14اگست 2018میں پیدوار شروع ہو گئی60میٹر بلند 125میٹر لمبا 156000m3والیول پر مبنی،دریائے نیلم پر مظفرآباد سے 41کلو میٹرشمال مشرق میں نوسیری کے مقام پر بند بنایا گیا اس بند سے دریا کو 28کلومیٹر لمبی دو سرنگوں کے ذریعے دریائے جہلم کے نیچے سے گزار کر مظفرا ٓباد سے 22کلو میٹر جنوب میں کوہالہ روڈ اور دریائے جہلم کے مشرق میں چھتر اکلاس کے مقام پر تعمیر کیے گے پاور اسٹیشن میں لے جایا گیا۔جس کی کل پیدوار 969میگا واٹ ہے۔جس سے پاکستان کو سالانہ 55ارب حاصل ہوں گے۔ قارئین! نیلم جہلم پرجیکٹ کو واپڈا نے شروع کرنے سے قبل آزاد جموں و کشمیر کی ایجنسی برائے ماحولیاتی تحفظ (AJKEPA)سے ماحولیاتی اجازت لینے کے لئے 28مارچ 2009کو تحریری اجازت نامہ مانگا جس پر2011میں ای پی اے نے واپڈا کو نیشنل انوائرمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈ پر عمل درآمدکو یقنی بنانے پر مشروط اجازت دی تھی شرائط کے مطابق موسم سرما میں نیلم نوسیری کے مقام سے 15کیومک(450کیوبک)پانی دیا جانا تھا (کیوسک پانی کے بہاو کا یونٹ ہے جبکہ کیومک ٹھہرے ہوئے پانی کے یونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک کیوسک میں 30کیوبک پانی ہوتا ہے شرائط کے مطابق واپڈا نے مظفرآباد میں پانی کی مقدار پیمائش کرنے کے لئے ایک پیمائش بیس بھی قائم کرنا تھاجسے سٹی میونسپل کارپوریشن کے سولہ مقامات پر سیوریج ٹریمنٹ پلانٹس کے طور پر نصب کیا جاناتھا جس میں واپڈا نے وعدہ کیا تھا کہ ماکڑی واٹر پلانٹ سے آبادی کے پانی کی فراہمی میں تعطل پیدا نہ کیا جائے گا۔رپورٹ عملی اقدام کے لئے تین اقدام پری کنسٹریکشن،ڈیورنگ کنسٹریکشن اور پوسٹ کنسٹریکشن میں تقسیم کی گی جو ادھوری رہی۔ بمطابق رپورٹ صحت و صفائی،پانی کی فراہمی،تعمیر و تحفظ بارے واپڈا خطیر رقم سے آزاد جموں وکشمیر کے توسط سے عمل میں لائے گا جس پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں عوام کے احتجاج و تحفظات کو مشروط حق ٹھہرایا گیا۔اب عوامی احتجاج کو واپڈا،وفاق و دیگر کی جانب سے کچھ اور قرار دینا کیا بدنیتی پر مبنی نہ ہے؟ای پی اے کی یہ سنگین غفلت ہے کہ اپنی شرائط میں یہ طے نہ کرایا جا سکا کہ روزانہ کتنا پانی دیا جائے گا؟اور اس کی مانیٹرینگ کیسے ممکن ہو گئی؟ کیوں کہ بھارت کے ساتھ پاکستان ابھی مانیٹرینگ نہیں کرسکا تو یہاں،ایسا کیسے ممکن ہے؟عوامی احتجاج پر ایک مرتبہ پھر واپڈا نے گولی دیتے ہوئے ایسا کچھ بھی نہ ہونے کا کہا کہ دریا کا پانی مکمل طور پر بند نہیں کیا جائے گا۔واپڈا،ارسا کا آزاد جموں وکشمیر کے دریاوں ندی نالوں پر مکمل قبضہ ہے جنہیں کسی قسم کا اس حکومت سے معائدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔واپڈا اور ان کی آلہ کار حکومتیں عوام کو دریا کا رخ موڑنے پر جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے کچھ نہ ہونے کا کہتی رہیں۔جس کا سلسلہ حسب رویت جاری ہے۔ستر سالوں کے تاریخ حقائق کے نچوڑ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے و اپڈا نے آزاد جموں وکشمیر حکومت کی تمام سفارشات پر نہ صرف عمل کیا بلکہ انھیں تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی مسلط کی۔موسمی تبدیلیوں،دریاوں کے فطری رخ تبدیل کرنے اور جنگلات کے کٹاو کی بدولت موسمیاتی بگاڑ نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے جس کا وادی نیلم بری طرح شکار ہے پہلے کی نسبت یہاں برف باری کم ہو رہی ہیں صدیوں پرانے گلیشیرز تیزی سے پگل رہے ہیں دریا نیلم کے بہاو میں بہت کمی آچکی ہے۔تاو بٹ سے پیچھے بھارت نے دریا نیلم پر کشن گنگا ڈیم و ٹنل سے دریا کا رخ موڑ دیا ہے۔ جس سے منگلا ڈیم میں پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے پانی کی کمی سے ماحولیاتی تبدیلی سمیت نہ صرف وادی نیلم و مظفرآباد متاثر ہو گا بلکہ پاکستان کی زمینیں بنجر اور زراعت و غلہ شدید متاثر ہو گا۔نیلم جہلم ہائیڈرل پرجیکٹ کی وجہ سے نوسیری سے مظفر آباد تک تقریبا 400 اور بور خشک ہو گے ہیں۔
نیلم جہلم منصوبہ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مظفرا ٓباد، جہاں شدید گرمی سے متاثر ہو گا اس کے ساتھ دو،ڈگری تک پارہ بڑھ جائے گا بھارتی کشن گنگا ڈیم کی ٹنل کی وجہ سے پانی کی مقدار پہلے سے کم ہے جس سے وادی نیلم سے مظفر آباد تک نوسیری سے دریا کا رخ موڑ کر ساری کسر نکال دی۔واٹر لیول اس وقت 150فٹ تک چلا گیا ہے۔نیلم جہلم پر گنجان آباد شہر میں سیورج کا نظام تباہی کے دہانے پہنچ گیا۔گندگی،اور سارے شہر کے کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کی بدولت مشہور دریا بدقسمتی سے نالہ لئی کا منظر پیش کررہے ہیں۔اسی فیصد دریا خشک ہونے کی وجہ سے دریائی حدود میں تجاوز کی کثرت مزید مسائل پیدا کررہی ہے۔جو شہر بھر کے گندگی کے ڈھیر کے باعث تعفن و بدبو سے موذی امراض کا ذریعہ ثابت ہو ا۔حالیہ تشویشناک صورتحال سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہزاروں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو گے۔مچھلی خاص کر ٹراوٹ کی نایاب اعلی نسل و آبی حیات ناپید ہو کر ختم ہو رہی ہیں بڑی سطح پر سرسبز درختوں کا جو یہاں کے پہاڑوں کا حسن ہیں کا کٹاو و نشوونما کے فقدان کی وجہ سے آکسیجن و دیگر ماحول و حیات دوست گیسز کا کم و تبدیل ہونے کی وجہ سے فضائی آلودگی میں دوگنااضافہ ہو گیا ہے۔دریا کارخ تبدیل کیے بغیر حکمت عملی سے ٹربائین چلائی جا سکتی تھیں ٹربائین چلانے کے لئے 20فیصدکافی ہوتا ہے۔ہینڈ میڈ ماحولیاتی تبدیلی و پانی کے بحران کے باعث پچاس ہزار سے زائد شہری و عوام قدرتی پانی کی سہولت سے محروم ہو گے ہیں۔درجنوں ارد گرد کے دیہات و آبادیاں صحرا میں تبدیلی ہو رہی ہیں۔دارلحکومت کونسے مزید نامساعد حالات سے دوچار ہوتا جائے گا اس کا اندازہ بخوبی آنے والے سنگین اثرات سے لگانا،ناممکن نہ گا۔غرض یہ کہ قدرتی حیات،جانوروں اور انسانوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اس منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی انسانی جانوں کے خاتمے اور ایک قدیم و تاریخی ثقافتی شہر مظفر آباد کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی قیمت پر بنائی جا رہی ہے۔تقریبا یہی صورتحال بجلی کے دوسرے منصوبوں کے نیتجے میں پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔آمدہ وقت میں ہم آنے والی نسل کو بتایاکریں گے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مظفر آباد سے بھرپور بے پناہ بہاو و قوت کے حامل دو دریا نیلم و جہلم پوری شدت کے ساتھ بہا کرتے تھے۔موجودہ و سابقہ نااہل حکومتیں دریا تو کھو چکیں۔قارئین! صرف اگر اس خطہ میں جموں و کشمیر کے باشندوں کی زندگی کی قیمت پر پیدا ہونی والی بجلی کے بارے مرقوم کیا جائے اس کے لئے سینکڑوں صحفات درکار ہیں۔مندرج ذیل سرسری سا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔اس منصوبہ کے علاوہ دریائے نیلم جہلم پر تین بڑے منصوبے زیر تعمیر ہیں۔نیلم جہلم پاور پلانٹ سے 9کلو میٹر کے فاصلے پر کوہالہ پاور پروجیکٹ کا پاکستانی وزیر اعظم عرمان خان نے افتتاح کر دیا ہے جس کی ممکنہ پیدوار1124میگا واٹ ہے۔یہاں ہی سے تقریبا ایک سو کلو میٹر دور آزاد پتن کے مقام پر 700میگا واٹ کے حامل ایک اور منصوبے پر کام شروع ہونا ہے جہاں سے تقریبا 30کلو میٹر دور ہولاڑ کے مقام پر 720میگا واٹ کے ایک منصوبے پر بہت تیزی کے ساتھ کام جاری ہے۔یہ منصوبہ جات منگلا ڈیم کے علاوہ ہیں۔منگلا ڈیم جس کی پیدوار 1000میگاواٹ جو بعد ازاں 2004میں 30فٹ جبرا بلند کیا گیا جس سے 1140میگا واٹ اس وقت پیدوار ہو رہی ہے۔منگلا ڈیم ضلع میرپور میں منگلا کے مقام پر دریائے جہلم پر بند باندھ کر بنایا گیا ہے جو 380فٹ بلند 10300فٹ لمبا ہے ایوب خان کے دورحکومت میں 5ارب کی لاگت سے مکمل ہوا۔منگلا دیم 5.88ملین ایکٹر پانی جمع کرنے کی گنجائش رکھتا ہے بجلی پیدا کرنے کے لئے جو سرنگیں 1996میں بنائی گئیں ان کی لمبائی 1650فٹ ہے۔جھیل کا رقبہ ایک سو مربع میل ہے 1962میں اس ڈیم کی تعمیر کے وقت 17358کنبہ جات متاثر ہوئے جن میں اکثریت کے مسائل جوں کے توں ہیں اور آئے روز ہزاروں عوام،حق مالکیت،مفت بجلی و رائلٹی اور متاثرین کے مطالبات کے بارے سراپااحتجاج رہتے ہیں۔ منگلا ڈیم اس وقت پاکستان کی 35فیصد ضرورت پوری کرتا ہے جس سے پاکستان کو صرف بجلی کی مد میں سالانہ 35ارب روپے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔جبکہ پانی،زراعت اور مچھلی و مرغابی کی سالانہ آمدن بھی اربوں میں، جس کا اعداد میں باقاعدہ شمار نہیں۔ڈیم بناتے وقت وفاق نے مفت بجلی و رائلٹی کا وعدہ کیا۔شدید عوامی احتجاج و تحریک کی وجہ سے 2004سے سالانہ تقریبا 95کروڑ دیئے جاتے ہیں جس پر کشمیر کونسل و دیگر وفاقی مسلط کردہ ادروں کی اجارہ داری و مداخلت کا عنصر شامل ہے۔1967سے 2004 تک ایک پھوٹی کوڑی تک ادا نہیں کی گئی اس ڈیم کی رائلٹی کے تناظر میں 2011تک ایک مستند رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ذمہ واجب الاا رائلٹی کے 600ارب روپے بنتے ہیں جبکہ سالانہ چودہ ارب۔منگلا سے خالص 50ارب آمدنی حاصل ہوتی ہے۔تعجب کی بات ہے محکمہ برقیات آزاد جموں وکشمیر واپڈا کی کچھ ارب کی مقروض ہے!!!منگلا ڈیم کی بجلی،آبپاشی،آبنوشی،مچھلی اور جملہ پیدوار کا مکمل کنٹرول واپڈا کے پاس ہے۔یہی وجہ ہے آج تک منگلا ڈیم پر اس خطہ کے عوام و حکومت کا حق تسلیم نہ کیا گیا جب بھی رائلٹی پر آواز بلند ہوتی ہے تو پنجاب اور سندھ سے سخت ردعمل آتا ہے۔1967سے عوامی،ترقی پسندوقوم پرست جماعتوں کے احتجاج پر 36سالوں بعد نیٹ ہائیڈرل پرافٹ بطور1.5پیسے فی یونٹ دیا جاتا ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کو 42پیسے فی یونٹ کے علاوہ رائلٹی بھی دی جاتی ہے۔وفاق آزاد جموں وکشمیر کے پانیوں پر کس قدر یہاں کے عوام سے سنجیدہ ہے اس کی بدنیتی اس بات سے بخوبی لگائی جا سکتی ہیکہ بگلہیاڑ ڈیم کے حوالہ سے پاکستان کا بھارت کے خلاف عالمی عدالت میں جو مقدمہ تھا اس سلسلہ میں آزاد جموں وکشمیر کے اندر آزاد جموں وکشمیر کے لوگوں کے لئے پانی کے استعمال و ضرورت کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب ہوئی تھی پاکستان نے بھارت سے مقدمہ ہارنا قبول کیا مگر اس رپورٹ کو عالمی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔آزاد جموں و کشمیر کے معروف کالم نگار صحافی اور تنازعہ کشمیر کے مصنف ملک عبدالحکیم کشمیری کی حقائق سے بھرپور ایک دلچسپ رپورٹ پیش خدمت ہے۔16روپے فی یونٹ کے حساب سے اگر روزانہ 1000میگا واٹ پیدا ہوں تو 2 کروڑ 40لاکھ یونٹ بنتے ہیں جو 30کروڑ 40لاکھ روزانہ،جس کی ماہانہ آمدن 11ارب 52کروڑ جبکہ سالانہ 1کھرب 4ارب 16کروڑ بنتی ہے۔ایک میگا واٹ میں 1000کلو واٹ بجلی ہوتی ہے ایک میگا واٹ سے ایک ہزار کلو واٹ ہاور،کلو واٹ ہاور سے ایک یونٹ،24گھنٹے میں ایک ہزار میگا واٹ 24ہزار یونٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔آزاد جموں وکشمیر میں اس وقت کیل ہائیڈرل اسٹیشن سے 00.4میگا واٹ،کھٹائی سے 3.2کنڈل شاہی سے2،جاگراں سے 30.4،لیپہ سے1.6،چانگاہ سے 0.5،پٹہیکہ سے 0.10شاریاں سے 3.2،پلاں سے0.600،ہلمت سے 0.320،رنگڑ ٹو سے 0.450،شاردہ سے 3،قادر آباد سے 3،ریڑہ سے 3.20،مٹیاڑ سے 4.8،دھنہ سے 1.7،نیو بانگ سے 84،پترنڈ سے 147،کھڑی ٹو سے 2.5،جاگراں سے 48،ریال ٹو سے 4.8،ریالی سے 1.6،ہوسینٹری سے 5.4،نگرر 35،دوریاں سے 40،لوات سے 49،شونٹر سے 48، تاوبٹ سے 10،جاگراں ون 20،جھینگ سے 14.4،چھم فال سے 6.4،ضامن آباد سے 14،جانگن سے 91،ہولا لمڑا سے 72،راجھدانی سے 132گلپور سے 100،سہڑا سے 130،دودھنیال سے 960،محل سے 550،چکوٹجی ہٹیاں سے 500 میگا واٹ ہیں۔ریاست کو منقسم کرنے والی منحوس سیز فائر لائن کے اس طرف بھارت سلال پرجیکٹ سے 690،بگلہیاڑ 450،چنک44،اوڑی480سوا ٹو شیولی 120،پرسار 1020،بگلہیاڑ ٹو 450سوالہ ون اینڈ ٹو 1200لوئے کنائی 50،کرتھائی ون 240کیرو600،کواد 600پکال دل 330نیمو بزکو 45،اوڑی ٹو 240،رٹل 690،کشن گنگا330میگا واٹ جبکہ درجنوں زیر تعمیر ہیں۔اسی طرح گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے جس کا ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ تصیفہ ہونا باقی ہے وہاں بونجی پرجیکٹ سے 7100میگا واٹ کے حامل 190میٹر اونچا ڈیم 39365ملین ڈالر اخراجات کر حامل ہے دیا مر بھاشا ڈیم جسے گلگت بلتستان سے 40کلو میٹر دور بھاشا سرحدی علاقہ کے ساتھ جوڑ کر بڑی بدنیتی کی گئی ہے تاکہ رائلٹی کا معاملہ دبایا جا سکے۔اس ڈیم سے 4500میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گئی جو پاکستان کی زراعت کو 150ارب روپے سالانہ فائدہ پہنچائے گئی جو زیر تعمیرہیں۔یہ انکشاف آپ کے کے لیے حیرت کا باعث ہو گا کہ اگر منگلا جھیل سے معمولی مقدار میں پانی لینے سے آزاد جموں وکشمیر کے ضلع بھمبر کی زرخیز زمین سے سالانہ تین لاکھ ٹن گندم پیدا کی جا سکتی ہے منگلا جھیل کے نشیبی علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے منگلا سے 614کیوسک پانی کی ضرورت ہے لیکن اگر اس مقدار سے آدھا پانی بھی پاکستانی واپڈا استعمال کرنے کی اجازت دے تو پاسکو سے تین لاکھ ٹن گندم خریدنے کے بجائے صرف ضلع بھمبر کیک زمین سے تین لاکھ ٹن گندم پیدا کی جا سکتی ہے۔جس سے نہ صرف آزاد جموں وکشمیر حکومت کو غلے کی خرید میں بڑے پیمانے پر بچت ہو گئی بلکہ آٹا سستا،معیاری کیا جا سکتا ہے۔پانی ہماری ریاست کا لیکن اسے ہمیں استعمال کرنے کا حق بھی نہیں دیا ہوا۔نہریں موجود ہیں جہاں نہریں نہ ہوں وہاں ٹیوب ویل لگا کر ضرورت پوری کی جا سکتی ہے ایک ٹیوب ویل ڈیڑھ سو ایکڑ زمین کو سیراب کر سکتا ہے۔آزاد کشمیر حکومت مہنگے داموں پاسکو سے گندم خریدنے پر مجبور ہے جب کہ خیبر پختونخواہ حکومت براہ راست کسانوں زمینداروں سے خریدنے کی سہولت سے مستفید ہو رہی ہے
بائیس کروڑزائد آبادی کے حامل پاکستان جس کو 22 ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے وہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے 65لاکھ سے زائد انسانوں کا استحصال کر کے اپنی ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جبکہ پوری منقسم ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی تقریبا اڑھائی ہزار میگا واٹ ضرورت ہے۔جبکہ بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے دریاوں کی بناوٹ، ساخت اور بے پناہ قوت سے سوئیٹرزلینڈ سے دو گنا زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ریاست بھر کے پانیوں سے روزانہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔آزاد جموں وکشمیر کے شہریوں کو پہلے 100یونٹ پر 9 روپے 17پیسے،101یونٹ سے 200یونٹ تک کے 10روپے 97پیسے،300سے 700یونٹ تک 13روپے 74پیسے فی یونٹ فروخت کی جا رہی ہے۔جبکہ 700سے زائد یونٹ پر فی کس 15روپے زائد لگائے جاتے ہیں۔اس استحصال میں آزاد جموں و کشمیر کی نااہل،کرپٹ بیورکریسی کا اہم کردار ہے۔اس استحصال کی درد بھری کہانی صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ بجلی کے نام پر بھاری بھتہ وصول کیا جاتا ہے فی یونٹ مہنگے داموں فروخت کرنے کے ساتھ ٹیکسیز کے نام پر 400 روپے تک بھتہ وصول کیا جاتا ہے بقایا جات کے نام پر اضافی رقم الگ سے ہوتی ہے۔نیلم جہلم ڈی ایس،ای کیو 291روپے چارج،جی ایس ٹی 62.39چارج جو دیہی صارفین پر بھی لاگو ہے کرایہ میٹر،رینٹ چارجز 18روپے فکسڈ فیول پرائس اینڈ ایڈجسمنٹ 19.39 چارج جبکہ ایجوکیشن چارج پانچ روپے لگائے جاتے ہیں۔مہینوں سالوں کی ذلت رشوت سفارش کے بعد 3600سے 5000روپے تک کا میٹر جاری کیا جاتا ہے۔خراب ہونے کی صورت میں دوگنی رقم بٹوری جاتی ہے۔وفاق کی طرف سے آزاد جموں کشمیرپر مسلط کردہ واپڈا کا محکمہ برقیات بغل بچہ ہے جو بجلی تاروں،کنکشنز،چوری بجلی،کھمبوں،ٹرانسفارمر،لوڈ شیڈنگ،بلوں کی تصحیح،اضافی چارج،آئل،گرڈ اسٹیشن کی صورت میں سالانہ کروڑوں کی کرپشن و استحصال کا کھلا اڈا ہے۔آزاد جموں وکشمیر میں بجلی کا معیاری سسٹم یہ ہے کہ جنرل حیات خان کے دور حکومت میں جو ٹرانسمیشن لائن،تاریں اور پول لگائے گے وہ بوسیدہ اور تاریں ٹوٹ چکیں۔
بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بجلی کی تاریں درختوں پر لٹکاکرباندھی ہیں۔اگر معمولی سے ہوای چلے یا بارش ہو تو کئی کئی دن تک بجلی غائب رہتی ہے۔آزاد جموں و کشمیر میں جتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے وہ ساری یہاں سے نیشنل گرڈاسلام آباد اسٹشین لے لی جاتی ہے جسے این ٹی ڈی سی، آزاد کشمیر کے دشوار گزار اور مشکل پہاڑ، مکانات، آبادی، جنگل، دریا سے ٹرانسمیشن لائن کے لاٹس میں تقسیم کر کے لئے جاتے ہیں۔نیلم جہلم لائن کے متاثرین کو اس وقت تک معاوضے ادا نہیں کیے گے۔واپڈا اس استحصال کے علاوہ ان دریاوں پر جاری منصوبوں کے نام بھی تبدیل کر رہا مثلا منگلا،بھاشا،ہولاڑ وغیرہ۔جن کی 90فیصد تعمیر متنازعہ علاقہ اور پاور اسٹیشن اپنی سرحدی حدود میں نصب کیے جاتے ہیں۔
19ستمبر1960کو پاکستان بھارت کے سندھ طاس معائدہ پر اتفاق اس بات کی کھلی دلیل ہیکہ دونوں ممالک متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ و ملکیت میں بھرپور طاقت کے ساتھ تمام توانیوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔جنہیں متنازعہ ریاست کے پونے دو کروڑ انسانوں کے حق آزادی و یو این اوچارٹرمیں تسلیم شدہ بنیادی، انسانی، سیاسی و معاشی حقوق سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ریاست کے وسائل اور پانیوں سے دل چسپی ہے یہی وجہ ہے گزشتہ سالوں سے پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں مسلہ جموں وکشمیر کو پس پشت ڈال کر پانی کے مسلے کو سرفہرست رکھا۔سندھ طاس معائدہ کی شکل میں پاک بھارت ملکیت کا دعوی مسلہ جموں وکشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں مسلہ جموں و کشمیر پر پاکستانی موقف کے درمیان بڑے تضاد کا راستہ کھولتا ہے۔منگلا ڈیم کی تحریک و احتجاج کے بعد ایک مرتبہ پھر نیلم جہلم ہائیڈرل پاور پرجیکٹ کے ایشو نے دارلحکومت مظفر آباد،وادی نیلم سمیت پورے آزاد جموں وکشمیر میں اس انتہائی اہم مسلے پر عوامی شعور اجاگر کرنے اور پاکستان کے ارباب اختیار کو ان منصوبوں کے منفی اثرات کا تدارک کرنے کی طرف مائل کرنے لئے سیاسی سماجی،ماحولیاتی،عدالتی،صحافتی و دیگر تنظیموں کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔جس کی وجہ سے مظفر آباد حکومت وفاق اور واپڈا کی من مانیوں،دھوکہ دہی اور استحصال پر مبنی پالیسوں کے خلاف احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے۔عوامی سطح پر وفاق اور آزاد جموں و کشمیر اس وقت آمنے سامنے ہیں۔آزاد جموں وکشمیر اسمبلی کے ممبران نے گذشہ برس،ماحولیاتی آلودگی بارے منعقدہ اجلاس میں اپنے انتہائی محدود اختیار،بے توقیری بارے شکوہ کرتے کہا کہ آزاد کشمیر متنازعہ علاقہ ہے بدوں معاہدہ اور اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر کام شروع کر دیا جاتا ہے تو یہ ہماری نا اہلی ہے اگر اسطرح کا کام ہندوستان کرتا تو ہم اس بات کو لے کر بہت بڑا پروپیگنڈہ کرتے؟جس پر اسلام آباد کی طرف سے انھیں شٹ اپ کی ایسی کال ملی کہ کہیں بھی کوئی شکوہ لبوں پر نہیں لایا گیا؟؟؟نیلم جہلم بجلی کے اس منصوبہ پر دریا بچاو کمیٹی کے بانی قائدین و ممبران امجد علی خان راجا ایڈووکیٹ،افضال سلہریا،مبارک اعوان،فیصل جمیل کشمیری،عمران میر،راشد شیخ،شاہد اعوان،راجہ عمر و دیگردرجنوں کی کاوشیں جدوجہد قابل ستائش ہیں۔دریا کا رخ موڑنے پر انہوں نے عالمگیر تحریک چلائی جائے گئی۔اسلام آباد،مظفرآباد نے دریا بچاو کمیٹی کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتے ہوئے انھیں بھارتی یجنٹ قرار دیا لیکن عوامی مقبولیت کو کم کرنے میں مقتدر طاقتیں کامیاب نہ ہو سکیں،اب دوبارہ کوہالہ پروجیکٹ پر تحفظات بارے دریا بچاو کمیٹی منظم ہو کر احتجاجی تحریک چلانے کے لیے متحرک ہے۔آزاد جموں کشمیر میں بجلی کے ان منصوبوں کے خلاف جموں وکشمیر عوامی ورکر پارٹی کے چیرمین،انسانی حقوق کے راہنماء نثار شاہ ایڈووکیٹ نے تحریک برائے تحفظ ماحولیات کے نام سے اسلام آباد پریس کلب کے باہر زبردست احتجاجی تحریک چلائی اور ترقی پسندوں کے الائنس پی این اے چیرمین راجہ ذولفقار ایڈووکیٹ نے بھی اسے اپنے منشور و احتجاج کا خصوصی حصہ بنایا۔ پاکستان بجلی کے حصول کے لئے آزاد کشمیر کے ماحول،ثقافت،زمینی کٹاو،اور دریاوں کے فطری رخ تبدیل تبدیل کر رہا ہے تمام منصوبے واپڈاکے اختیار میں ہیں۔ متنازعہ خطہ پر نوآبادیاتی استحصال اور وسائل پر براہ راست کنٹرول کیا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے مقامی عوام و حکومت کے حق اختیار کو سلب کر دیا گیا۔بجلی سے حاصل ہونے والی اربوں کی آمدنی میں آزاد کشمیر حکومت کا کوئی دخل و اختیار نہیں۔تمام معائدوں کی بابت آزاد کشمیر سے معائدے کیے جائیں اجازت لی جائے اور ان کا اختیار آزاد کشمیر کے مقامی ادروں کو دیا جائے عوامی سطح پر ماحولیات بارے احتجاج سر اٹھا رہے ہیں جس سے دن بدن عوامی سطح پر واپڈا،و فاق کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔اب یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ نیلم جہلم بارے وفاق عوامی تحفظات کو کس طرح دور کرتا ہے اور مقتدر آوازوں کو کن اوچھے ہتکھنڈوں سے دبایا جاتا ہے؟اور انسانی جانوں کی قیمت پر جو بجلی پیدا کی جا رہی ہے کیااس کا متبادل ممکن ہے؟ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے لاکھوں عوام کے دکھوں کا مداوا کیسے ممکن ہے؟آزاد جموں و کشمیر کے اندر جاری عوامی تحریک و بے چینی کامیاب ہوتی ہے یا استعماری طاقتوں کی انسانی زندگی کی قیمت پر بجلی کے منصوبہ جات کی پالیسی؟؟؟لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ سامراجی طاقتیں زایدہ دیر تک اپنے استعماری عزائم میں کامیاب نہیں رہ سکیں گی۔
(کالم نگار جموں کشمیر عوامی ورکر زپارٹی کے مرکزی چیف آرگنائزر ہيں )۔
Related News
.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے
Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More
پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت
Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More