Main Menu

عید کا تحفہ کیا چاہیے؟ تحرير : فرخ سہیل گوئندی

Spread the love


آج سے 39 سال قبل 1979 جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپریل 1979ء میں پھانسی گھاٹ پر قتل کیا، تو سارے ملک میں ایسا سکوت تھا جیسے صحرا میں آندھی کے بعد مکمل خاموشی۔۔۔
ایسے میں ملک بھر میں چند سر پھرے ہی تھے جنہوں نے اس جبر کے خلاف علمِ مزاحمت سر بلند کیا، اکثریت پس زنداں تھی۔
مزاحمت کی سرگوشیاں تھیں، زیر زمین، گھروں کے اندر چند لوگوں کی تقریب برپا کئیۓ جانے سے زیادہ کچھ ممکن نہیں تھا، یعنی مزاحمت کی روائیت برقرار رکھنے کا سلسلہ تھا کہ بوند بوند سے ندی بنے، پھر دریا اور پھر سمندر۔۔۔
ایسے میں ہی ایک تقریب، صدر بازار لاہور میں بھینسوں کا چارہ کاٹنے والے گیراج نما احاطے میں برپا ہوئی
دس یا گیارہ لوگ ہونگے۔۔بس
جہانگیر بدر، ناظم شاہ، عارف اقبال بھٹی ،اسلم گل، ملک ثناء، طارق واسطی، چاچاغلامُ رسول فوٹوگرافر،حسن مہدی، اور ایک انیس سالہ نوجوان سمیت چند اور
کچھ دنوں بعد عید الضحیٰ تھی۔ ہر کسی نے بار ی بار ی تقریر کی، جمہوریت و آئین کی بحالی، اپنے قائڈ ذوالفقار علی بھٹو کا مشن جاری رکھنے کا عہد۔۔۔۔۔
اس انیس سالہ نوجوان نے اپنے ایک ساتھی کو کہا تم نے نعرے کا جواب دینا ہے
اس انئس سالہ نوجوان نے نعرہ لگایا
“عید کا تحفہ کیا چاہئے؟
جنرل ضیاء کا سر چاہئے”
یہ انیس سالہ نوجوان ان دنوں ایک ہفت روزہ رسالے “صداۓ وطن “ میں تسلسل سے چھپتا تھا، صداۓ وطن جب چھپ کر آتا تو اس کی ستر اسی ہزار کاپیاں منٹوں میں بُک سٹالوں پر فروخت ہو جاتیں
یہ نوجوان اپنا ہفت روزہ کالم “صداۓ وطن “ کے دفتر واقع داتا صاحب دینے گیا تو ایڈٹر نے پوچھا اور کوئی خبر؟
جی ہم نے عظیم الشان تقریب برپا کی اور اس میں یہ نعرہ لگا
“عید کا تحفہ کیا چاہیے
جنرل ضیاء کا سر چاہئے”
اور جب ہفت روزہ “صداۓ وطن” چھپ کر آیا تو یہ سرورق تھا
اور اس کے اندر اس انیس سالہ نوجوان کا کالم بھی بعنوان
“ ہم سردار ہیں سرِ دار تو نہیں”
انیس سالہ نوجوان اب ساٹھ سال کا ہے، اس نسل سے جو زخمی زخمی ہو گئی جنرل ضیاء کی قاتل حکمرانی کے سامنے مزاحمت کرتے اور کچھ نہ سیکھ پاۓ سواے، مزاحمت ،اجتماعی جدوجہد ،خلق کے حقوق کی جدوجہد کے
اور ابھی تلک اس تاریکی کے خلاف لڑتے چلے جا رہۓ ہیں جو 5 جولائی 1977ء کو پھیلنا شروع ہوئی، اور پھیلتی چلی جا رہی ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *