Main Menu

فسطائيت ، فرقہ واريت ، دہشتگردی اور ترقی پسند پارٹیاں، تحرير انور زيب

Spread the love


آج جو ہم فرقہ واریت .فسطائیت ، دہشت گردی ، مذھبی انتہا پسندی اظہار راۓ پر پابندی اور عسکری بالا دستی کا فصل کاٹ رہے ہیں اس کا بیج 1970 کی دہایء کے اوائل میں کسی اور کے ہاتھوں نہیں بلکہ خود ہم ترقی پسند سیکولر جمہوری پارٹیوں نے ہی بویا تھا۔
ابھی نیا نیا سقوط ڈھاکہ ہوا تھا فوج نے بہ امر مجبوری نہ چاہتے ہوےء بھی اقتدار سیویلین کے حوالے کیا تھا۔
سہہ فریقی مزاکرات کے تحت 1973 کے آئین پر اتفاق ہو چکا تھا .باو جود شکست خوردہ اسٹبلشمنٹ کی پسپائ اور پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی عددی کمزور حیثیت کے قرار داد مقاصد کو آئین میں شامل کرا لیا گیا . کچھ ہی عرصے بعد نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو لڑوانے کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہیں سے آج کا منظر نامہ بننا شروع ہو جاتا ہے .یہی سے اسٹبلشمنٹ کا پلڑا بھاری ہونا شروع ہو جاتا ہے .یہی سے ایک بار پھر رجعت پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور یہی سے افغانستان کے ساتھ مخاصمت اور محاذ آرائ کا آغاز ہو جاتا ہے ۔
اس وقت کی سیاست میں ” میر غوث بخش بزنجو ,”کے نام سے ایک سیاست دان تھے ، جنھوں نے 73 کے آواخر میں نیشنل عوامی پارٹی کی کونسل کے ایک ایم اجلاس منعقدہ گرین ہوٹل پشاور میں آج کے حالات کا پیغمبرانہ منظر نامہ کھینچا تھا۔
پی پی پی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تعلق پر نیپ دو حصوں میں تقسیم تھی .ایک دھڑے کی نمایندگی جو پی پی پی کے ساتھ محاذ آراٸ پر تلی ہوئ تھی ولی خان کر رہے تھے۔
اور دوسری طرف میر غوث بخش بزنجو اور ان کے دوست تھے, جو محاذ آراٸ کو مستقبل کی جمہوری سیاست کے لیےء زہر قاتل سمجھتے تھے .ولی خان صاحب آنکھوں کے علاج کے بہانے لندن چلے جاتے ہیں اور بطور جنرل سیکرٹری اجمل خٹک صاحب ایک منصوبے کے ساتھ اس اجلاس کی صدارت کرتے ہیں۔
میر غوث بخش بزنجو صاحب اس وقت نہ صرف بلو چستان کے گورنر تھے بلکہ پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی تھے۔
.پہلے سے تیار منصوبے کے تحت ان کو پارٹی نوجوانوں کے زریعے طرح طرح کے طعنے دیۓ جاتے ہیں .کہ آپ بک گیۓ ہیں .آپ بوڑھے ہو کر مزید جدوجہد کے قابل نہیں رہے .
حالات اور واقعات کی ستم ظریفی کو دیکھیۓ کہ اس وقت کے کمیونسٹ پارٹی کے دوست بھی دانستہ یا غیر دانستہ اس سازش کا حصہ بنے .نیپ کی طرف سے سہہ فریقی مزاکرات میں میر غوث بخش بزنجو صاحب پارٹی کی نمائندگی کر رہے تھے, اپنے ہی دوستوں کی طرف سے ان کو طعنے کے طور پر باباۓ مزاکرات کا خطاب دیا جاتا ہے ,.اس دور اندیش اور برد بار انسان نے اس دن جو تاریخی خطاب کیا ان کی سیاسی پیشن گوئیاں وقت حالات اور واقعات نے سچ ثابت کیں .انھوں نے اپنی تقریر میں فرما یا تھا کہ “بھٹو شخصی طور پر جو بھی اور جیسے بھی ہیں ان کی حکومت کے ساتھ محاذ آراٸ میں جانے سے نہ صرف وہ بلکہ ہم سب خصوصآ اس ملک کے عوام متاثر ہونگے .انھوں نے کہا پی پی پی اور نیپ کی مخاصمت سے بھٹو کمزور ہوکر ان کا انحصار ریاست اور ریاستی اداروں پر بڑھ جائیگا .جس کے نتیجے میں وہ دائیں بازو کی رجعتی ہالیسیاں اختیار کریگا ۔ ولی خان بھی دائیں بازو کی طرف مڑ کر اس جنگ میں فوج کا سہارا لیگا اور ہم بلو چ پہاڑوں پر چڑھ کر اپنی بقا کا جنگ لڑ نے پر مجبور ہوجاٸنگے اور ہماری آپس کی لڑاٸ سے ایکبار پھر فوج کی واپسی کے لیۓ راستہ ہموار ہوگا .جو کہ 5 جوکاٸ 1977 ضیاء مارشل لآ کی عفریت میں سچ ثابت ہوا ۔
1974 میں حیات خان شیر پاٶ کی شہادت اور بلوچستان میں نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد واقعات اور حالات نے اس دور اندیش انسان کے تجزیۓ اور تناظر کو صحیح ثابت کیا کاش ہم ترقی پسند سیاست دانوں میں خود تنقیدی کی اتنی جرآت ہوتی کہ اپنے نوجوان نسل کو اپنی ماضی کی سیاست کا یہ تاریک باب بھی دکھاتے .تاکہ وہ بار بار تاریک راہوں میں نہ مارے جاتے .
کاش ایسے واقعات اور بزنجو حیسے سچے اکابرین ہماری سیاسی نصاب کا تمہید ہوتے ….تو پھر ھم آج مکمل فوجی بالادستی و آرمی چیف ایکسٹینشن اور فیڈریشن کو لاحق خطرات ( اٹھارویں ترمیم ) اور این ایف سی ایوارڈ پر حملے جیسے مسائل اور سانحہ اے پی ایس. بلوچستان میں جاری بغاوت .سابقہ فاٹا حالات ۔مسنگ پرسنز افغانستان میں چالیس سال سے جاری جنگ میں ریاستی کردار سے مجرمانہ لا علمی اور لا تعلقی کا شکار نہ ہوتے .جس کا آئے روز ہم عوام ہی کیجولٹی ہوتے ییں ۔أج 5 جولاٸ کو جب ھم فوجی أمریت ۔فسطاٸیت ظلم جبر و بربریت کی یاد میں سوگ مناتے ہیں ھمیں اس سوگ کے پیچھے چھپے ہوۓ محرکات کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔ان عوامل پر بھی سوچنا ھوگا جس کی وجہ سے أج ھم اس گھمبیر صورتحال کا شکار ہیں ۔أج کے حالات کے پیچھے اس ملک کے اسٹبلشمنٹ کی مسلسل بالادستی و قبضے کی کوشش اور سیاستدانوں کی باربار انکے لیے خود کو پیش کرنے اور استعمال کا زریعہ بننے کی مجرمانہ عادت بھی ہے ۔ جسے ھمیشہ کے لیے ترک کرنا پڑے گا ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *