Main Menu

قومی اور طبقاتی آزادی کی جدوجہد میں بنیادی فرق کيا ہے؟ تحرير: کبير خان

Spread the love


قومی آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آزادی، دراصل اس قوم کے بالا دست طبقہ کی آزادی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی ہی قوم کے مزید کھل کر استحصال کرنے کا اختیار اور آزادی حاصل کرتا ہے۔
کشمیر کے میرے قوم پرست دوست اکثر بضد رہتے ہیں کہ جی ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن ساتھ ہی وہ سردار قیوم (مرحوم)، سردار ابراہیم (مرحوم)، سردار سکندر حیات، سردار یعقوب، چودھری مجید، سلطان محمد چودھری، راجہ فاروق حیدر اور دیگر کشمیری حکمرانوں کے خلاف شکوے شکایات، تنقید اور ان کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف ایک پنڈورا باکس بھی کھولے رکھتے ہیں۔ کم وبیش یہی صورتحال ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی بھی ہے جہاں شیخ عبداللہ، فاروق عبداللہ، مفتی سعید، محبوبہ مفتی اور دیگر حکمران طبقات کو ایسے ہی القابات کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب یہ سارے لوگ کون ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی غیر کشمیری ہے؟ اور اگر ان کا منقسم کشمیر میں ایسا استحصالی کردار ہے تو پھر متحدہ کشمیر میں ان کا یہ کردار کیوں کر بدل جائے گا؟ اب دوست کہیں گے کہ ہم ان کو حکمرانی ہی نہیں ملنے دیں گے تو اگر آپ ان کو حکمرانی سے روک سکتے ہیں تو پھر آج کیوں نہیں روکتے؟ سادہ سا جواب ہے بھائی 🙏۔ ان کے پاس دولت ہے، جس کی طاقت کے زور پر یہ حکومت حاصل کرلیتے ہیں اور دولت ان کو سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی کردار کی وجہ سے ملتی ہے۔اگر یہ نظام یونہی برقرار رہا، اور اسی نظام کے تحت اگر ہم اس منقسم خطہ کشمیر کو متحد کر بھی پائے، تو یہ بات تو پھر طے شدہ حقیقت ہے کہ آئندہ بھی حکمرانی انھی امیر زادوں کی ہی ہوگی۔
گلگت بلتستان کا معاملہ تمام حکمران طبقات کی مختلف اوقات میں مختلف حرکات و سکنات کی وجہ سے اور زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک طرف تو خود کشمیری حکمران سردار ابراہیم مرحوم نے کراچی معائدے کے تحت اس کا کنٹرول پاکستان کے حوالے کر دیا اور تاریخ سے یہی معلوم پڑتا ہے کہ اس معاہدے میں کسی گلگت بلتستان کے نمائندے کو شریک نہیں کیا گیا اور اس معاہدے کے بعد جب اس خطے کا کنٹرول پاکستان کے حوالے کر دیا گیا، تو مختلف پاکستانی حکمرانوں نے کبھی ایک تجربے اور کبھی دوسرے تجربے کے ذریعے اس خطے اور اس کے باسیوں کے حقوق کا کھلواڑ ہی کیا۔ مثلاً نوے کی دہائی تک گلگت بلتستان پر ایف سی آر مسلط رہا اور اسی کے تحت ہی اس خطے کو مختلف ایجنسیوں کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔ دو ہزار دس میں شمع خالد کو پہلا گورنر بنایا گیا، پھر انھیں تبدیل کر کے وزیر بیگ کو گورنر بنایا گیا اور اس کے بعد پیر کرم علی شاہ اور پھر برجیس طاہر کو گورنر بنایا گیا۔ اس کے بعد پھر مہندی شاہ کو وزیر اعلیٰ اور میر غضنفر کو گورنر بنایا گیا، یوں پاکستانی حکمران اشرافیہ یہاں نت نئے تجربات کرتی رہی لیکن اس خطے کے باسیوں کے مقدر نہ بدل سکے اور نہ ہی اس نوآبادیاتی اور استحصالی نظام زر کے تحت بدل سکتے تھے۔ اس تمام پیچیدہ صورتحال میں گلگت بلتستان میں مختلف جذبات پائے جاتے ہیں۔ میری اس خطے کےکچھ دوستوں سے گفتگو اور یہاں کے لکھاریوں کی کچھ تحریروں کے مطالعے سے مجھے جو ابھی تک معلوم پڑ سکا اس کے مطابق یہاں کے کچھ لوگ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں اور باضابطہ قانون سازی کے ذریعے پاکستان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ کچھ قوم پرست اس خطے کی آزاد حیثیت کے حصول کی بات کر رہے ہیں، لیکن گلگت بلتستان کے قوم پرست، کشمیری قوم پرستوں کے گلگت بلتستان پر دعویٰ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنی الگ قومی آزادی کی بات کرتے ہیں، یوں کشمیری قوم پرستوں کا گلگت بلتستان پر دعویٰ نہ صرف گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کی ضد ہے بلکہ یہاں کشمیری قوم پرستوں کا گلگت بلتستان پر دعویٰ عین ویسے ہی سامراجی اور نوآبادیاتی تسلط کے دعوے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جیسا ہندوستانی اور پاکستانی حکمرانوں کا کشمیر پر اور پھر گلگت بلتستان، جموں، لداخ اور لیہ پر ہے۔اسی طرح گلگت بلتستان کے باسیوں کو گلگت بلتستان پر براجمان حکمران طبقات اور ایجنسیوں سے بھی ویسے ہی شکوے شکایات ہیں اور تنقید کا ویسا ہی ایک سلسلہ ہے، جیسا ہمیں کشمیر کے دونوں اطراف نظر آتا ہے۔
یہ تضادات صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی ایک خطے کے دوسرے خطے اور دوسرے کے تیسرے خطے سے تضادات موجود ہیں جس کا واضح اظہار ہمیں ہندوستانی آئین سے کشمیر سے متعلق شقوں کے مودی حکومت کے ہاتھوں خاتمے اور جموں و کشمیر کو ہندوستان کا مستقل حصہ بنانے کی کوشش کے دوران نظر آیا۔ جموں کے باسی، وادی کشمیر کے دونوں حکمران خاندانوں کے تسلط سے خائف دکھائی دیئے جبکہ بدھ مت آبادی کے اندر مودی کے اس بہیمانہ اقدام کو سراہا تک گیا، جو ان کی دونوں حکمران کشمیری خاندانوں سے بیزاری کی واضح عکاسی ہے۔ اب یہ تضادات کیوں ہیں؟ کیونکہ ان خطوں کو جس نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے، اس کا کردار استحصالی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو مساوی حقوق میسر نہیں ہیں۔
اس سب کے باوجود یقیناً یہ بات ہم سب کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ اس وقت کشمیر، گلگت بلتستان، جموں، لداخ، لیہ، اقصائے چین وغیرہ منقسم ہیں اور ان کی یہی منقسم شکل ہمیں اکثر جذباتی بھی کر دیتی ہے۔ اور اپنے انھی جذبات میں ہم اکثر حقائق سے روگردانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن انتہائی کڑوی حقیقت یہی ہے کہ ان منقسم حصوں کو اگر محض اسی سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی بنیادوں پر جوڑنے کی کوشش کی جائے تو پہلے پہل تو ان مختلف خطوں کے باسیوں کے مفادات اور جذبات کا ٹکراؤ سامنے آئے گا کیونکہ ہر خطے کے باسیوں کا آزادی کا اپنا ایک تصور اور خاکہ ہے جو ایک خطے کا دوسرے خطے سے متصادم ہے جس کی وجہ سے اس اتحاد پر سوالیہ نشان پیدا ہو جاتا ہے اور اگر اس سب کے باوجود بھی ہم اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے کسی طرح سے ان منقسم حصوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم پر حکمرانی کون کرے گا اور کن بنیادوں پر کرے گا؟ میرے خیال میں تو یہی حکمران خاندان اور ان میں شاید چند اور شامل ہو جائیں گے، جن کے پاس وافر مقدار میں دولت ہو گی اور پھر ہمارا ایسا ہی استحصال جو اس وقت کے حکمران ایک طرف یا دوسری طرف یا تیسری طرف کر ریے ہیں، یہی تینوں چاروں اطراف کے حکمران ہمارا اس سے بھی زیادہ شدید استحصال مل کر کریں گے، کیونکہ انھیں مزید استحصال کرنے کی آزادی جو حاصل ہو جائے گی۔ پھر ہم سسکتے، کوستے اور روتے ہوئے بس یہی فریاد کر رہے ہوں گے، جیسے ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی بھائی کر رہے ہیں کہ ہم نے اس لئے تو قربانیاں نہیں دی تھیں کہ ہم اسی بیروزگاری، غربت، لاعلاجی، ان پڑھتے اور ذلت کا شکار ہی رہیں۔
طبقاتی جدوجہد کی بنیادوں پر آزادی حاصل کرنے کے خواہشمند کچھ زیادہ نہیں کہتے، بس اتنا کہتے ہیں کہ جب قربانی دینی ہی ہے تو پھر بھگت سنگھ کا یہ نعرہ ضرور اپنے سامنے رکھو جب وہ کہتا تھا کہ ہمیں صرف انگریز سامراج سے آزادی حاصل نہیں کرنی بلکہ ہمیں انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اشرافیہ سے بھی آزادی درکار ہے، لیکن اس کے لئے ہمیں اس استحصالی نظام زر یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا جو نظامِ زر ان حکمرانوں کو عام غریب محنت کش عوام کا استحصال کرنے کا اختیار اور حق دیتا ہے۔ اور یہ سب صرف طبقاتی جدوجہد کی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔ کیونکہ ہر قوم میں دو متضاد مفادات کے حامل طبقات وجود رکھتے ہیں جن کے مفادات نہ صرف الگ الگ ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
اب فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے کہ آیا آپ اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کے مزید گہرے تسلط کے لئے درکار آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا عام کشمیری، گلگتی، بلتی، لداخی، جموں اور لیہ کے محنت کش عوام کے لئے آزادی کے خواہشمند ہیں۔ جہاں ہر عام کشمیری، گلگتی، بلتی، لداخی، جموں اور لیہ کے محنت کش کو باعزت روزگار کا حق حاصل ہو۔ اسے مفت علاج کی سہولت میسر ہو، اسے مفت معیاری رہائش اور بچوں کے لئے مفت معیاری تعلیم کی سہولیات میسر ہوں۔ اسے معیاری اور مفت سفری سہولیات میسر ہوں اور ان تمام خطوں میں ایک معیاری انفراسٹرکچر کی سہولیات میسر ہوں۔ مختصراً ہر شخص سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا جائے اور اس کی ضرورتوں کے مطابق اسے دیا جائے۔ یہ سب کسی طور بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تو ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے ہم ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک کے محنت کشوں سے طبقاتی اتحاد پر زور دیتے ہیں کیونکہ ہماری طرح ان کا بھی استحصال ہو رہا ہے۔ وہ بھی بیروزگاری، غربت، لاعلاجی، پسماندگی، مہنگائی، بےگھری اور ایسی ہی دیگر اذیتوں کا شکار ہیں اور اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کے استحصال، جبر اور تشدد سے تنگ ہیں۔ یہی وہ مادی بنیادیں ہیں جو اس خطے کے محنت کش غریب عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ بطور ایک طبقہ اس نظام اور اس پر براجمان حکمران اشرافیہ کے خلاف متحد کر سکتی ہیں کیونکہ یہ نظام ہی استحصال کی ہر شکل چاہے وہ قومی استحصال ہے یا طبقاتی، کے پیچھے اصل وجہ ہے۔ اس لئے قوم پرست دوستوں کے منقسم حصوں کو متحد کرنے کا تصور بھی محدود ہے۔ آپ اتحاد بھی تقسیم کی بنیاد پر چاہتے ہیں جبکہ ہم تو اس ساری دھرتی پر کھڑی انسانوں کو تقسیم کرنے والی ہر باڑ کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں اور انسانوں کو تقسیم کرنے والی ہر دیوار کو گرا دینا چاہتے ہیں اور یہ محض کسی دیوانے کا خواب نہیں بلکہ اس کی مادی بنیادیں، ان کروڑوں،اربوں محنت کش عوام کی شکل میں موجود ہیں جنہیں صرف اپنے طبقے کی طاقت کے ادراک کی دیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پھر عظیم شاعر فیض احمد فیض کے یہ الفاظ عملی شکل اختیار کرتے نظر آئیں گے کہ:
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔

(يہ تحرير خصوصی طور پر جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے تناظر میں لکھی گئ ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *