Main Menu

آٹھ مارچ ، محنت کش خواتین کا عالمی دن ؛ تحریر: خلیق ارشاد

Spread the love

آٹھ مارچ 1857 کو نیو یارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل 10 گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے ناصرف لاٹھی چارج اور وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر بھی گھسیٹا گیا تھا لیکن خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی تھی۔خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں 17 سے زائد ممالک کی 100 کے قریب خواتین نے شرکت کی تھی جس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم و استحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔پہلی عالمی جنگ میں 20 لاکھ روسی فوجیوں کی ہلاکت پر خواتین نے ہڑتال کی تھی تب سے یہ دن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں عالمی حیثیت اختیار کر گیا لیکن 1956 میں سیاہ فارم مزدوروں پر پابندی کے خلاف نیویارک میں 20 ہزار سے زائد خواتین کے مظاہروں پر 8 مارچ کو اقوام متحدہ نے بھی عورتوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔آج دنیا بھر میں جہاں خواتین سرمایہ دارانہ نظام مذہبی سماجی جنسی اور معاشی استحصال کا شکار ہیں پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں خواتین بدترین جبر کا شکار ہیں
خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا ہے ہر طرف وحشت اور خوف کے سائے چھاے ہوے ہیں خواتین کو صنف نازک اور کمتر سمجھا جاتا ہے کئی جگہوں پہ آج بھی خواتین کی پیدائش کو عیب سمجھا جاتا ہے تعیلمی کے دروازے خواتین پہ بند کیے جاتے ہیں

تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ یہاں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں اور نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔پاکستان میں کسی لڑکی یا عورت کو قتل کرنے کے لیے محض یہ الزام بھی کافی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے خاندان کی عزت میں کمی آئی ہے۔
ایک طرف رجعتی اور مذہبی بنیاد پرستی کے ذریعے مرد کو عورت کا محافظ قرار دیا جاتا ہے اور دوسری جانب انہی مردوں سے عورتوں کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں قبروں میں مدفن لاشیں نکال کر جنسی حوس پوری کی جاتی ہو,ایسے جنسی گھٹن ذدہ ماحول میں عورت کیلئے مرد کا محافظ قرار دینا مضائقہ خیز بات ہے۔ محنت کش خواتین کیساتھ مڈل کلاس اور حکمران طبقے کی خواتین این جی اوز کے ذریعے جبر و استحصال کرتی ہیں اور انہیں حقیقی جدوجہد اور انسانی سماج کی تعمیر میں کردار ادا کرنے سے روکتی ہیں۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سرمایہ داروں کے مفادات کا غلام میڈیا اور حقوق نسواں کا کاروبار کرکے فنڈز بٹورنے والی این جی اوز خواتین کے مسائل کی داستانیں سناتے ہیں،اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ مرد حضرات ہی خواتین پر ہونے والے ظلم کے ذمہ دار ہیں۔جبکہ حقیقت کچھ اور ہے جو کسی میڈیا اور این جی او کی داستان نہیں ہو سکتی جو کہ ان ہی کے نظام کے خلاف جاتی ہے۔انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس دن سے انسان نے ضرورت سے زیادہ اشیاء پیدا کرنا شروع کی اور اس زائد پیداوار کی ملکیت کا تصور پیدا ہوا اس دن سے عورت کے ساتھ مظالم کا ایک طویل تاریخی سفر شروع ہوا اور مختلف طبقاتی سماجوں میں مختلف طریقوں سے عورت کا استحصال ہوتا رہا ہے۔زائد پیداوار اور اسکی ملکیت کی منتقلی کے قوانین جب مردوں سے منسلک کر دئیے گئے اس دن سے عورت کی حیثیت کم سمجھی جانے لگی اور اسے صرف خاندان کی بڑھوتری کی ذمہ داری تک محدود کر دیا گیا ۔اس لیے عورتوں کے تمام مسائل طبقاتی نظام کے تصور کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں نہ کہ مردوں کی ظالمانہ فطرت سے۔
طبقانی نظام ذر کے خاتمے اور ایک سوشلسٹ سماج کے ذریعے ہی عورت کی حقیقی آزادی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *