وادی کشمیر : ایک بھولی ہوئی داستان؛ تحرير: سردار بابر حسين
وادی کشمیر کئی دہائیوں سے بد ترین تشدد اور پر آشوب حالات سے دوچار ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی صریحا نسل کشی کرتے ہوئے ڈیموگرافک تبدیلیاں کرنے کی مسلسل کوششيں جارہی ہیں.کشمیر پر بھارتی فوج کا سالوں سے جاری تسلط یہاں کی ثقافت، زندگی او ر کشمیر کی معیشت کی شکستہ حالی کا باعث بن رہا ہے
سن 1947 میں تقسیم کے بعد ہندوستان کے لئے کشمیر کے نصف حصے پر قبضے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اس طویل ترین قبضہ نے کشمیری عوام کی سماجی اور معاشی زندگی پر بدترین اثرات نتائج مرتب کئے. تاریخی لحاظ سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری اس طویل تنازعہ کے حل کے لئے اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق ، حق بقا اور حق خود ارادیت دینے کے لئے درجنوں قراردادیں پیش کی گئيں۔
مگر 7 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کشمیر پر جاری بھارتی تسلط اس علاقے کے سماجی، ثقافتی اور اقتصادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہا ہے. یہ بھی قابل بحث ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے بڑے پیمانے پرپیش کی گئی متعدد قراردادیں اس خطے کی سیاسی اور اسٹریٹجک جہتوں پر مبنی تھیں جبکہ کشمیری عوام کی سماجی اور اقتصادی پہلوؤں پر اور خود خطے کے استحقاق پر بہت کم زور دیا گیا
تاریخی تناظر میں کہ جس کے تحت ان تنازعات کا حل پیش کیا گیا تھا، پاکستان کے لئے یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو پوری طرح سے سیاسی اور اسٹریٹجک اہمیت سے الگ کر کے کشمیر کے مسائل کوعالمی سطح پر پیش کرنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی تشکیل دے. اس کے علاوہ، پاکستان کو کشمیر کے اس حصے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے یعنی کہ آزاد جموں و کشمیرپر – اس کے لئےاعلی ترقیاتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
تنازعات کی حل کے لئے اس جامع نقطہ نظر میں، پاکستان آزاد جموں اور کشمیرکی تاریخ، محل وقوع، ثقافت، طرز زندگی، معیشت اور ثقافتی ورثے کے مختلف پہلوؤں کو یکجا کرسکتا ہے۔ جو اس کے علاوہ، تنازعے کے حل میں ایک “سماجی اور اقتصادی نمونے کے امکانات ” کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی حوالے سے ثقافتی نسبتیت پر بھی زور دے گا۔
ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر پیرپنجال تک پھیلے ہوئے آزاد کشمیر کے دلکش ارضی خدوخال سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہوسکتے ہیں جو شاندار مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں. کشمیر قدرتی اور ثقافتی مقامات سے نوازا گیا ہے جن پر نہ صرف یہاں کی سیاحت کا دارومدار ہے بلکہ یہ کشمیرکے بیانیہ کو مضبوط کرنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ یہاں اپنے ذیلی ادارے قائم کر کے اگر آزاد جموں و کشمیر کے شاندار ، جنت نظیر مناظر پر کام کریں تو اس وادی کے قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں. مزید برآں، پاکستان کے ٹیلی ویژن پروڈکشن ہاؤس آزاد جموں و کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور یہاں کے لوگوں کی ثقافت کی کھوج کے لئے مختلف پروگراموں کا آغاز کر سکتے ہیں۔
ان اقدامات سے جہاں عالمی برادری کے سامنے اس دلکش وادی کی اچھی منظر کشی ہوگی وہیں کشمیر کے لوگوں کو بھی توجہ ملے گی۔ پروڈکش ہاؤسز میں ڈرامہ اور فلم سازی کے کام میں مقامی آبادی کو مواقع ملنے چاہیئں۔
قدرتی مناظر کے علاوہ آزاد کشمیر 74 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ افرادی قوت سے مالا مال ہے بہترین شرح خواندگی سے لیس اس عظیم افرادی قوت کو کشمیر کا بیانیہ پیش کرنے کے لئے منظم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں یونیورسٹیاں نجی کاروباری شعبے کے اشتراک عمل سے سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام تشکیل دے سکتی ہیں ۔اس سے آزاد کشمیر کے لوگوں میں بین الثقافتی تفہیم کو بڑھانے میں مدد ملے گی اور پاکستان کے دیگر حصوں سے لوگوں کو کشمیر میں زندگی اور یہاں کی ثقافت کو جاننے کا موقع ملے گا۔
آزاد جموں کشمیرکی ثقافت میں دستکاریوں، زبانوں ، پکوانوں ، پہناووں، تہواروں اور رقص کا مسحورکن امتزاج پایا جاتا ہے ، جو اس کی ثقافت اورطرز بودوباش کو مزین کرتے ہیں۔آزاد کشمیر کی دستکاری صنعت کو لوگوں کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر بنانےکے لئے استعمال کی جا سکتا ہے۔ کراچی کی کاروباری تنظیمیں یہاں کی ہینڈی کرافٹ انڈسٹری میں سرمایہ مختص کرکے کشمیر کے لوگوں کی مستحکم معاشی بہبود میں تعاون کر سکتی ہیں۔
آزاد کشمیر معدنیات کی دولت سے نوازا گیا ہے جن میں قیمتی پتھرکا فی اہم ہیں۔ ابھی تک دریافت ہوئے معدنی ذخائر لگ بھگ 157 ملین ٹن (70 ارب روپے) کے ہیں۔ جو ممکنہ طور پر موجود ذخائر کے اضافے سے 264 لاکھ ٹن تک پہنچ سکتے ہیں ۔ ان معدنیات میں یاقوت ،اور دوسرے قیمتی پتھر شامل ہیں۔معدنی وسائل کے یہ غیر معمولی ذخائر زرمبادلہ کی شرح میں اضافہ اور وادی میں ہنر مند افرادی قوت کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر کا 36.9 فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ جوعالمی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہےکہ یہ جنگلاتی وسائل تجارتی مقاصد کے لئے کاربن کریڈٹ کے منبع کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، پاکستان اور بھارت سے اہل علم اور دانشور کشمیر کو اس نازک صورت حال سے نکالنے کی فوری ضرورت کے حوالے سے مشترکہ علمی منصوبے شروع کرکے اوریوٹوپیائی موضوعات پر مبنی مواد مرتب کر کے ، اسے شائع کر کے عوام میں اجتماعی شعور کی بیداری کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بہتر مستقبل اور خوشحالی کے لئے لوگوں میں امید نو کی بیداری سے شائد ان کے جذبے اور خلوص کو عمل کے لئے تحریک دینا ممکن ہوگا . یہ امید ہی ہے جو لوگوں کو روایتی سوچ کی حدوں سے کہیں آگے خیال کی بلندیوں پر لےجاتی ہے۔کشمیر سے متعلق یوٹوپین ادب لوگوں میں ایک امید پیدا کرے گا کہ کس طرح یہ خطہ تنازعہ حل ہوتے ہی ترقی اور خوشحالی حاصل کر سکتا ہے اور یہ دونوں معاشروں اور ریاستوں کواس قدیم ترین تنازعہ کے پائیدار حل تلاش کرنے پر مجبور کے سکتا ہے۔
کشمیر کے لئے سماجی و اقتصادی نمونے کی منصوبہ بندی پر مبنی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے، اگر پاکستان آزاد کشمیر میں ایک پائیدار ترقی کے ماڈل کی تعمیر کرتا ہے تو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے اس کا سے بیانیہ مضبوط ہو گا ۔ جو عوام اور خطے کے بیانیے کو عالمی سطح پر سماجی و اقتصادی تناظر میں پیش کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری کو کشمیر سے متعلق پوشیدہ حقائق باور کرائے. کشمیر ایک تہذیبی ورثہ کا حامل ہے، یہ ثقافتوں اور مذاہب کا مرکز ہے ۔بدھ مت سے لے کے ہندومت اور اسلام ، سرزمین کشمیر میں مخنلف مذاھب کے اختلاط سے ایک دلکش سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے کشمیر کی اہمیت کی نسبت سے کشمیر کے سماجی اقتصادی نمونے کو اجاگر کرتے ہوئے ہماری مکمل توجہ خطے میں پائیدار ترقی اور امن کے لئے تنازعے کے حل پر مرکوز رہنی چاہئے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More