محسن داوڑ ، عرفان حیدر جون ، ٹیکسی ڈرائیور اور اے سی جگلوٹ۔۔چار کی کہانی ؛ تحرير: شبير مايار
سر اٹھانے کی نہ جرآت کرے کوئی بھی یہاں
وقت کا آج بھی فرمان ہے پہلے کی طرح
محسن داوڑ پختون قوم سے تعلق رکھنے والے تمام باشعور اور محب وطن لوگوں کی ووٹ سے پاکستان کے قومی اسمبلی کا ممبر بنا ہے وہ دنیا کے آخری کالونی گلگت بلتستان میں بابا جان کی شادی میں شرکت کے لئے 25 دسمبر کو گلگت ائرپورٹ پہنچے تو گلگت ائرپورٹ پر نوجوان شاعر قوم پرست طالب علم رہنماء عرفان حیدر جون اپنے ساتھیوں سمیت مہمان کو خوش آمدید کہنے پھولوں کا ہار لے کر پہلے سے موجود تھےمہمان ائرپورٹ سے جیسے ہی راجہ میر نواز کے ساتھ باہر نکلے استقبال کے لئے موجود عرفان حیدر جون نے گرم جوشی سے گلے ملتے ہوئے پھولوں کا ہار پہنایا اور ساتھ لے کر ہنزہ کی طرف نکلے ہنزہ میں بابا جان نے سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ استقبال کیا۔ محسن داوڑ نے اپنے مخصوص انداز میں پختون رقص پیش کیا وہاں ہزاروں مہمانوں کا ہجوم تھا گلگت بلتستان سمیت پاکستان بھر سے لوگ بابا جان کی شادی میں شرکت آئے ہوئے تھے. عرفان حیدر جون محسن داوڑ کو لے کر عطا آباد جھیل دیکھنے جاتے ہیں جس کے خلاف احتجاج کرنے پر بابا جان اور افتخار کربلائی سمیت 14 لوگوں کو دس سال قیدخانے میں گزارنے پڑے جھیل دیکھنے کے بعد واپس گلگت شہر کی طرف آتے ہوئے راستے میں کسی ہوٹل میں چائے پینے روکتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں سے ملتے ہیں پھر گلگت پہنچتے ہیں تو گلگت بلتستان کے بزرگ قوم پرست رہنماء انجینئر شجاعت صاحب کی طرف سے محسن داوڑ اور کشمیر سے آنے والے مہمانوں کے لئے دے گئے اعشائے میں شرکت کرتے ہیں پھر وہاں سے فارغ ہو کر رات گلگت میں روکنے کے بعد اگلے دن صبح جہاز کے ذریعے واپس پاکستان چلے گئے. اب سوال یہ ہے اس دوران عرفان جون نے کونسا غلط اور غیر قانونی کام دہشت پھیلایا جس سے خوف زدہ ہو کر سرکار نے شیڈول فور لگایا عرفان جون سمیت تمام ساتھیوں پر …….؟؟؟؟؟
کیا ایک محکوم قوم کے رہنما کے استقبال کرنا جرم ہے………؟؟؟؟
کیا ایک محکوم کے لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا جرم ہے…….؟؟؟؟
دوسری جانب نگر سے ہی تعلق رکھنے والے ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کو سوال کرنے پر بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر لہو لہان کر کے بے یارومدد گار چھوڑ کر بھاگ گئے وہ تو بھلا ہو صحافی حضرات کا بروقت اپنے پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کرتے ہوئے عوام تک خبر پہنچایا جس کی وجہ سے ایف آئی آر درج ہوا عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والے عوام کے نوکر کو بادشاہ کس نے بنایا……..؟؟؟؟؟
قراقرم یونیورسٹی میں نومبر کے مہینے میں ہونے والے ہراسمنٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ رہنماؤں کو گرفتار کیا اور سزا کے مستحق لوگوں کو چھوڑ دینا یہ سب گلگت بلتستان کو ایک مخصوص یونٹ کی جاگیر اور چراہ گاہ بنانے کی کوشش ہے جس کے لیے تمام باشعور لوگوں کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے فیصلے غیروں کے ہاتھ میں نہ ہوں۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More