کامريڈ حسن ناصر راہ وفا کا شہید ؛ تحریر : شمیم خان
اس جہاں میں ایسے ارباب اقتدار بھی گزرے ہیں کہ طاقت انکے قدم چومتی تھی انکے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا رتبہ رکھتا تھا مگر ادھر وہ زمین کا رزق بنے ادھر انکے پرستاروں نے کسی دوسری دہلیز کا رخ کیا کسی کو نہ انکا یوم پیدائش یاد رہا نہ یوم مرگ انکی یاد دلوں سے ایسی محو ہوئی جیسے پانی پہ لکھی ہوئی تحریر ۔
مگر اسی جہاں میں کچھ ایسے دیوانے بھی گزرے ہیں جو کبھی ارباب اقتدار نہیں بنے جنھوں نے دولت و ثروت اور نام و نمود کی کبھی آرزو نہیں کی نہ کبھی جلسوں میں انھیں ہار پہنائے گئے ۔ انھوں نے محنت کشوں کی محبت میں اپنا وطن، گھر بار عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑا اور نہایت خاموشی اور فروتن سے عوام کی انقلابی جدوجہد میں شامل ہو گئے اور جب جلادوں نے انکی جان لی تو انکے عزیز و اقربا کو انکا دیدار بھی نصیب نہ ہوا نہ احباب نے انکا جنازہ اٹھایا نہ کسی کو انکی قبر کا نشان ملا ۔
کتنے عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو زندگی میں آسائشوں پر دسترس کے باوجود انھیں ٹھکرا کر پرخار زندگی کا انتخاب کرتے ہیں ۔ جو اپنے مستقبل قربان کر کے دوسروں کی زندگیاں بدلنے کے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان خوابوں کی تعبیر میں حقیقت کا رنگ اپنے لہو سے بھرتے ہیں ایسے لوگ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں اور جب ان کا ذکر آتا ہے تو آنکھیں بے ساختہ پرنم ہو جاتی ہیں اور سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں ۔
کل تیرہ نومبر ایک ایسے ہی لازوال کردار کی یاد کا دن تھا جس نے محض بتیس سال کی عمر میں اپنی بھر پور جوانی اپنا سہانا مستقبل پاکستان کے کروڑوں لاچار اور بے کس لوگوں کے انے والے کل پر قربان کیا ۔
تاریخ کے اوراق اسے حسن ناصر کے نام سےپہچانتے ہیں ۔
حسن ناصر نے انیس سو انتیس میں حیدرآباد دکن(بھارت) کے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپکے والد اسوقت کی ریاست حیدرآباد کی حکومت میں جوائنٹ سیکریٹری تھے ۔انکی والدہ برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار نواب محسن الملک کی نواسی تھیں یوں حسن ناصر کا بچپن ناز ونعم میں گزرا لیکن جوانی میں قدم رکھتے ہی حسن ناصر نے انقلاب کی پر خار راہوں کا انتخاب کیا ۔محض سترہ برس کی عمر میں تلنگانہ کسان کمیونیسٹ تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا ۔سارے والدین کی طرح اپکے والدین کی بھی خواہش تھی کہ اپ اعلی تعلیم حاصل کرکے کسی بڑے عہدے پہ فائز ہوں اور انھوں نے حسن ناصر کا داخلہ برطانیہ میں کروایا ۔ لیکن حسن ناصر نے انقلاب کی پر خار راہوں کا انتخاب کرلیا تھا۔ برصغیر تقسیم ہوا حسن ناصر نے پاکستان کا رخ کیا کراچی کی ایک مزدور بستی انکا مسکن بنی ۔
پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کوئی آسان کام نہ تھا ۔ابتدا ہی میں ریاستی جبر نے اس جدوجہد کو اپنے ستم کا نشانہ بنا شروع کیا تھا ۔انیس سو اکیاون میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسکے راہنماوں پر مقدمات درج کر لیے گئے ۔بہت ساروں نے سیاست ترک کر دی بہت سارے سرکار کے مرید بن گئے پر حسن ناصر کے ارادے متزلزل نہ ہوئے۔ مزدوروں میں انکا کام جاری رہا لیکن کب تک ،حسن ناصر گرفتار ہوئے اور جلاوطن کر کے بھارت بھیج دیے گئے لیکن ایک سال بعد حسن ناصر پھر لوٹ آئے ۔والدہ اور گھر والوں نے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن طبقات کی محبت ممتا کی محبت پر غالب آگئی اور حسن ناصر کراچی لوٹ آئے۔ پھر وہی شب و روز ،وہی مزدور بستیاں ،وہی کسانوں کے اجڑے ہوئے گھر اور حسن ناصر ۔
اور پھر انیس سو اٹھاون میں پاکستان آمریت کے گہرے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ساری قوم ایوبی امریت کے بوٹوں تلے کراہنے لگی ۔لیکن یہ نوجوان روپوش رہ کر بھی مزدوروں سے رابطے میں رہا اور انکی آنکھوں میں نئی دنیا کے خواب سجاتا رہا اور پھر ایک مزدور بستی سے گرفتار ہوا جو اسکا مسکن تھی اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آسکا ۔
لاہور کے شاہی قلعے میں لا کر فسطائیت کے سارے ہتھکنڈے استعمال کر کے بھی ریاستی جبر اسکی زبان نہ کھلوا سکا ۔اپنے نظریے اور اپنے ساتھیوں سے وفا نبھائی اور بدترین تشدد کی تاب نہ لاکر زندگی کی بازی ہار گیا اور رات کی تاریکی میں کسی گمنام مقام پر دفن کر دیا گیا۔
والدہ بھارت سے لاش لینے آئیں تو تشدد چپھانے کے لیے کسی اور کی قبر کشائی کر کے انھیں کسی اور کی لاش دکھائی بھلا ایک ماں کیسے اپنے بیٹے کو نہ پہچانے انھوں اس لاش کو حسن ناصر کی لاش ماننے سے انکار کردیا اور یوں بیٹے کی لاش لیے بغیر واپس بھارت چلی گئیں ۔
یوں تو حسن ناصر بے شمار لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اورلوگ انکی یاد کسی نہ کسی صورت بناتے ہیں ۔لیکن مقام حیرت تب ہوا کہ جس ریاست نے اسے دشمن مان کر شہید کیا دو ہزار نو میں اس ریاست کے سرکاری ٹیلیویژن نے جناب حسن ناصر کی یاد میں پروگرام منعقد کیا جس میں گفتگو کرتے ہوئے جناب جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے کہا کہ اج تبدیلی محسوس ہوئی ہے پاکستان ٹیلیویژن حسن ناصر پر پروگرام کر رہا ہے ۔
عظیم انسانی ادرشوں کے لیے زندگی وار دینے کا سلسلہ اج بھی جاری ہے دارورسن کی آزمائش سے گزرنے والوں کی ایک کہکشاں ہے جس میں بھگت سنگھ ، انتونیو گرامچی اور حسن ناصر جیسے درخشندہ ستارے ہیں ۔
سلام ان سب پر اور ان ہزاروں لاکھوں شہیدوں پر جو دوسروں کے لیے اپنی خوشیاں اور زندگی قربان کر گئے ۔
جب بھی تنہائی میں کھل اٹھے ہیں یادوں کے کنول
جگمگایا ہے تیرا پھول سا چہرہ کیا کیا
جب بھی ٹوٹی ہے کوئی شاخ چمن اے ناصر
گھاو پھر دل کا ہوا اور بھی گہرا کیا کیا
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More