آہ ! پروفیسر رشید مصباح صاحب؛ تحرير: ممتاز احمد آرزو
فانی بدایونی نے کہا تھا کہ
اک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے اک خواب ہے دیوانے کا
یوں تو رشید مصباح صاحب کا نام برسوں پہلے سن رکھا تھا لیکن ان سے ہماری ملاقات آج سے چار ساڈھے چار سال پہلے انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد کے ایک ادبی پروگرام میں ہوئی جب انھوں نے آرٹ اور سماجی زندگی کے متعلق ایک بہت ہی بہترین لیکچر دیا انکی گفتگو کرنے اور بات سمجھانے کا انداز بہت ہی اچھوتا تھا باتوں میں ایک تسلسل تھا اور بہت بہترین انداز بیاں تھا چونکہ یہ موضوع ہمارا پسندیدہ موضوع تھا اور رشید مصباح صاحب نے اس پے بہت اچھے سے بات کی اسکے بعد ہماری دوستی کا آغاز ہوا اور ہم برابر ایک دوسرے کے مسلسل رابطے میں رہیے اسلام آباد انجمن ترقی پسند مصنفین کی باڈی بنانے میں رشید مصباح صاحب کا بہت ہاتھ تھا بہت ساتھ تھا وہ لاہور سے پروگرام ایٹنڈ کرنے آتے تھے اور رات کو پروگرام ایٹنڈ کر کہ واپس لاہور چلے جاتے تھے میں نے اتنی لگن اور اتنا خلوص بہت کم لوگوں میں دیکھا انھیں اسطرح کے ادبی کام کرنے کا ایک جنون تھا عام حالات میں شاعر ادیب ایسے نہیں ہوتے وہ چاہیے ترقی پسند ہوں یا روایات پسند ہوں لیکن مصباح صاحب کی یہ عادت انکے انقلابی ہونے کی دلیل تھی وہ عام شاعروں وادیبوں کی طرح بالکل بھی نازک مزاج نا تھے ہر طرح کے حالات میں ڈھل جانے والے انسان تھے ۔اسکے ساتھ ساتھ وہ بہت کھرے اور ایک بے رحیم تنقید نگار تھے وہ کبھی بھی کسی غلط بات کا لحاظ نہیں رکھتے تھے اور انکی اسی سچائی کی وجہ سے اکثر ادیب ان سے نالاں رہتے تھے یہ عادت انکی شاہد اس لیے تھی کہ وہ بالکل بھی لالچی انسان نہیں تھے جسطرح کے بے شمار شاعر و ادیب ہوتے ہیں اور کسی نا کسی طرح کسی نا کسی خوش آمیدی سے وہ اپنی روٹیاں سیکتے رہتے ہیں ایک ایسا شخص جو سچا ہو وہ ہمیشہ سیدھی بات کرتا ہو سیدھی کھری سچائی سے ہمشہ اکثر لوگ خائف رہتے ہیں اور رشید مصباح صاحب ساری زندگی اسی اصول پے رہیے حالانکہ اس سچائی کی بہت بڑی قیمت بھی دینا پڑھی۔
میں انکی سیاسی و ادبی خدمات پے بات نہیں کرونگا کیونکہ انکی سیاسی و ادبی خدمات بہت زیادہ ہیں انکی تحریریں آرٹیکل افسانے نظمیں انکی سیاسی جدوجہد اس پے پھر کبھی بات ہو گی اور کوشش ہو گی کہ تفصیل سے بات ہو خصوسی طور پر انکی انقلابی ادبی زندگی پر بہر حال میں اس وقت فقط ان کی ان باتوں کا زکر کرنا چاہوں گا جنکو ہم نے انکے آخیری دو تین سال قبل کے ایام میں دیکھا سنا اور محسوس کیا کیونکہ تقریباً تین چار ماہ وہ اسلام آباد رہیے اور خصوصاً ہمارے ساتھ رہیے پاس رہیے تو ہمیں بہت ساری باتوں کا اندازہ ہوا کہ مصباح صاحب کسقدر قرب کسقدر درد سے گزر رہیے ہیں۔
وہ دوستوں کے رویوں سے بہت دلبرداشتہ تھے اور ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر کے افرا کو بہت یاد کرتے تھے اس مقام تک پہنچنے میں انکے ساتھ کیا ہوا کیا نہیں ہوا ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے لیکن وہ ایک بہترین تخلیق کار تھے۔ ایک بڑے انسان تھے انکے ساتھ ایسا نہیں ہونا چائیے تھا ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کے لیے جہاں ریاست کے روئیے سخت گیر ہیں وئیں ایسے لوگ جو ان ساری حقیقتوں سے واقف تھے ۔انھوں نے بھی بے حسی کا ثبوت دیا اور ترقی پسندی کا دعوا کرنے والے بھی ایسی حرکتوں پے اترے جس سے ترقی پسندی بھی شرمنده ہو رشید مصباح صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں اپنی بیٹی اور شریک حیات کو بہت یاد کیا انھوں نے اپنی آخیری عمر اپنے گھر پریوار اور انکی یاد اور ایک مسلسل کسک میں گزاری اس کرب اور درد کو وہ اکثر تصویروں کی صورت میں فیس بک پے شعیر کیا کرتے تھے۔
رشید مصباح جہاں ایک افسانہ نگار شاعر و ادیب اور بہتریں مقرر تھے وئیں وہ ایک سچے انقلابی بھی تھے۔ انکا ماننا تھا کہ ایک مکمل انقلابی تحریک کے سوا تبدیلی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے وہ نکسل باڈی انقلابیوں سے بہت مثاثر تھے اور انکی جدوجہد کے بارے میں پوری طرح واقف بھی تھے ۔اس پے پہروں بات کرتے تھے اور ہند پاک کے سماج کا بہت گہرائی سے تجزیہ کرتے تھے اس سماج کے عروج زوال کے متعلق درست معلومات اور ایسے سماجوں کے بدلنے اور انقلابی جدوجہد کے درست راستوں کا پورا سائنسی اور سیاسی تجزیہ و نظریہ رکھتے تھے ۔ ہماری اس بابت بہت بحثیں ہوتی تھی اور پہروں ان سارے امور پر باتیں ہوئی لیکن انکی اس سوچ و فکر کی کوئی پارٹی یا نظریاتی ساتھی نہیں مل پا رہیے تھے ۔ وہ کمیونسٹ پارٹی میں بھی رہیے اور ادبی محاز پے بھی کام کرتے رہیے تائم چند دوستوں کے نظریات و افکار کے بارے میں وہ اکثر زکر کیا کرتے تھے ۔جن میں کامریڈ چوہدری مشتاق کا نام سرے فہرست ہوتا تھا۔ صابر علی حیدر کا اکثر آنا جانا رہتا تھا بالآخر ہم نے کہا کہ جب آپ انکو درست مانتے ہیں تو ملکر جدوجہد کیجیے۔ اختلافات تو ہوتے ہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ نوے فیصد نظریات ملتے جلتے ہوں بہر حال رشید مصباح صاحب نے اپنی عمر کے آخیری ایام ایک انقلابی کی طرح پاکستان انقلابی پارٹی میں گزارے اور وہ کافی حد تک مطمعن اور خوش بھی تھے ۔پاکستان انقلابی پارٹی کے بنیادی نظریاتی منشور میں انھوں نے دوستوں سے ملکر کافی کام بھی کیا اور وہ ایک نئے ولولے نئے جوش اور جزبے کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے جسکا ہمیں فخر ہے کہ وہ آخیری سانس تک جدوجہد کے اس عمل میں سرگرم رہیے ۔ایک انتہائی حساس جزبوں کا مالک انسان تاریخ اور ادب پے گہری نظر رکھنے والا انسان ایک سچا انقلابی ایک کھرا انسان جس نے سچ بولنے کی بہت طویل سزا پائی لیکن ہمشہ ثابت قدم رہا کبھی جھکا نہیں ہر زخم سہے درد کرب سے گزرا لیکن پائے استقامت میں آنچ نا آنے دی ہم اس عظیم انقلابی کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں ۔
انکی جدوجہد انکے افکار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More