Main Menu

کشمیر کی غلامی اور پاکستان کا بحران(مسئلے دو ،وجہ ایک)دوم،آخری حصّہ -نذر حافی

Spread the love

مرزا کے قتل کے بعد چک خاندان دوبارہ برسرِ اقتدار آگیا، لیکن اب فرقہ واریّت ایک تناور درخت بن چکی تھی۔ مولوی حضرات، مُغل بادشاہ کو ظلِ الٰہی اور خلیفۃ اللہ کہہ رہے تھے اور کشمیر کے چک بادشاہ کو کافر اور شیعہ کہہ کر انہوں نے ایک ہمہ گیر بغاوت کا آغاز کر رکھا تھا۔ دوسری طرف چک خاندان بنیادی طور پر سیاسی جوڑ توڑ کے بجائے علم و ہُنر کا رسیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان زین العابدین بڈشاہ کے بعد چک خاندان کے دورِ حکومت کو تاریخِ کشمیر کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں موسیقی، طبابت، شعر و شاعری، فنِ خطاطی خصوصاً خط نستعلیق، سکولوں کی تعلیم بالاخص بچیوں کی تعلیم، عوام کیلئے سفری سہولتوں، لنگر خانوں اور رفاہی و عمومی خدمات کا جال بچھایا گیا۔ ایک طرف علم و ہنر کی شمعیں روشن ہو رہی تھیں اور دوسری طرف میر جعفر و میر صادق کشمیر کی کشتی میں سوراخ کرنے میں مصروف تھے۔ جب سارا انتظام ہوگیا تو اکبر بادشاہ نے کشمیری حکمران یوسف شاہ چک کو دھوکے سے “بہار” بلا کر قید کر لیا۔
ایسے ہوتے ہیں مذہبی جنونیوں کے ظِلِّ الہیٰ۔ یہ ہے وہ مکارانہ ذہنیت، جو بھائی کو بھائی سے لڑواتی ہے۔ یوسف شاہ کی گرفتاری کے بعد کشمیری ملّاوں نے مغل فوجیوں کیلئے راستہ پہلے ہی ہموار کیا ہوا تھا۔ وہ کشمیر جسے محمود غزنوی بھی فتح نہیں کرسکا تھا، اُسے اِن غدّار جنونیوں نے دوسری مرتبہ پھر مُغلوں کی غلامی میں دے دیا۔ یہ کشمیریوں کا دوسرا دورِ غلامی تھا۔ وہی یوسف شاہ چک جسے مذہبی جنونی انتہائی تنگ نظر اور متعصّب کہتے ہیں، وہ اتنا روشن فکر اور وسیع القلب تھا کہ اُس کے عہد کو کشمیری تہذیب و ثقافت کا زرّین عہد کہا جاتا ہے اور اُس کی بیوی حبّہ خاتون کو کشمیر کی سب سے مقبول شاعرہ اور ایک ثقافتی شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُس کی عظمت کے اعتراف میں مغلپورہ، لاہور (پاکستان) میں ایک انڈر پاس کا نام اسی طرح کشمیر میں گوریز میں واقع اہرام کی شکل والے ایک پہاڑ کا نام، نیز انڈین کوسٹ گارڈ نے بھی اپنے ایک جہاز کا نام حبہ خاتون کے نام پر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اس خاتون کی شخصیت پر کئی دانشوروں نے قلم فرسائی کی ہے۔ ہندوستان کی طرف سے اس پر ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں اور کشمیری زبان و اداب میں اسے فصاحت و بلاغت کی ایک میزان اور کسوٹی کا درجہ حاصل ہے۔
بہرحال ہم چونکہ کسی کو یہ بتانا نہیں چاہتے کہ کشمیر کی غلامی کا اصلی ذمہ دار کون ہے، لہذا ہم چک حکمرانوں کو گالیاں دے کر بات کو چھپا دیتے ہیں۔ مذہبی جنونیوں نے سب سے پہلے کشمیر کا سودا کیا اور ان کی وجہ سے دو مرتبہ کشمیر مغلوں کی غلامی میں گیا۔ اس دو مرتبہ کی غلامی کی مجموعی مدت ایک سو ساٹھ سال بنتی ہے۔ ایک سو ساٹھ سال کی غُلامی کا مزہ چکھنے کے بعد تیسری مرتبہ ان جنونیوں کو ایک مرتبہ پھر آقا بدلنے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ ۱۷۵۳ء کے لگ بھگ احمد شاہ درانی نے انہی جنونیوں کو اعتماد میں لے کر کشمیر پر قبضہ کیا اور پھر اگلے چھیاسٹھ برس تک کشمیریوں کو افغانیوں کی غُلامی میں دے دیا گیا۔ مغلوں کے بعد افغانیوں نے کشمیر کے حُسن کو خاک میں ملایا۔ یہ کشمیریوں کا تیسرا دورِ غُلامی تھا۔ ظاہر ہے کہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو کشمیری تہذیب و تمدّن اور کشمیری عوام سے کیا ہمدردی ہوسکتی تھی۔ چنانچہ کشمیر کو جی بھر کر غارت کیا گیا۔
کشمیر کے درّو دیوار یہ گواہی دیتے ہیں کہ ریاستِ کشمیر کے ساتھ غدّاری کا راستہ خود مسلمان جنونیوں نے کھولا اور کشمیر کو دوسروں کی غلامی میں دینے کا سودا بھی خود انہی جنونیوں نے کیا۔ جب کشمیر کے باشندوں نے دیکھا کہ اب نسل درنسل غلامی کا طوق ہماری گردن میں رہے گا تو جس طرح کشمیر کے مسلمانوں نے مغل بادشاہوں کو حملے کی دعوت دی تھی، اُنہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کشمیر کے ہندووں و سکھّوں نے پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ سے ساز باز کی اور ۱۸۱۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانیوں کو شکست دے کر کشمیر کو بزورِ شمشیر اپنا غلام بنا لیا۔ چنانچہ غلام ذہنیت نے جس طرح چک خاندان اور اہل تشیع کو کشمیر میں کچلا تھا، اب سکھوں کو موقع ملا تو انہوں نے بھی چونکہ نام نہاد مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی، چنانچہ اب انہوں نے مسلمانوں پر ایسا شب خون مارا کہ مغلوں اور افغانوں کے مظالم بھی پیچھے رہ گئے۔ کشمیر کی تاریخ میں ایسی سفّاکیت اور درندگی کے بانی چونکہ خود مسلمان تھے، لہذا ہم مسلمانوں کے بجائے سکھوں کو بُرا بھلا کہہ کر آگے بڑھ جانا ضروری سمجھتے ہیں۔
وہ حال جو مغلوں کے زمانے میں کشمیر کے شیعوں کا تھا، اب سارے کشمیریوں کا وہی تھا۔ اس زمانے کے ایک مغربی سیّاح اور تاریخ نویس مور کرافٹ کا کہنا ہے کہ “ان دنوں کشمیر میں بیگار عام ہے، لوگوں کو جانوروں کی طرح باندھ کر اُن سے کام لیا جاتا ہے اور کسی کو پائی پیسہ ادا نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور رسیوں سے باندھ کر ہانکا جاتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے جانوروں کو ہانکا جاتا ہے۔ گاؤں کے گاؤں خالی پڑے اور سنسان ہیں۔ بہت سارے لوگ خوف کے مارے بھاگ گئے ہیں، فصل پکنے پر دس میں سے نو حصے حکومت لے جاتی ہے اور کسان کے پاس صرف ایک حصہ رہ جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
مذہبی جنونیوں نے ریاست کشمیر کا جو بیڑہ غرق کیا تھا، اب سب مل کر اُس کی سزا بھگت رہے تھے۔ آپ پنجابیوں کیلئے رنجیت سنگھ کو سیکولر کہنا چاہتے ہیں تو کہہ لیں، لیکن کشمیریوں کیلئے وہ ہرگز سیکولر نہیں تھا۔ اُس کیلئے کشمیر میں غیر مُسلم ہی قابلِ اعتماد تھے۔ چنانچہ اُس نے مسلمانوں کو نکیل ڈالنے کیلئے جموں کے تین ہندو ڈوگرہ بھائیوں گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ کے درمیان ریاست جمّوں و کشمیر کو تقسیم کر دیا۔ اُس نے بہت سوچ سمجھ کر گلاب سنگھ کو جموں، سچیت سنگھ کو رام نگر اور دھیان سنگھ کو بھمبر و پونچھ دے دیا۔ اب یہ کشمیریوں کی غلامی کا تیسرا دور تھا۔ یہ تیسرا دور ستائیس برس پر چھایا ہوا ہے۔شاباش دینی چاہیئے اُن مسلمان جنونیوں کو کہ جنہوں نے ریاستِ کشمیر میں فرقہ واریت کا آغاز کیا اور ان کی کارستانیوں کی وجہ سے مغلوں اور افغانیوں کی غلامی کرنے کے بعد اب مسلمان نسل در نسل غلام ابنِ غلام پیدا ہوتے رہے اور رفتہ رفتہ سکھوں و ہندووں کے غُلام بنتے گئے۔
دوسری طرف پنجاب میں رنجیت سنگھ کی مضبوط حکومت انگریزوں کو بھی کھٹک رہی تھی۔ انہوں نے پٹھان اور بلوچ سرداروں کو رنجیت سنگھ کے مقابلے میں لائے۔ سردار میر بلوچ نے رنجیت سنگھ کو ایک جرگے میں بلایا اور وہیں اُسے قتل کروا دیا۔ رنجیت سنگھ ایسی صورتحال کیلئے تیار نہیں تھا۔ اس کے بدلے میں انگریزوں نے ساہی وال سے سندھ کی حدود تک کے علاقے بطورِ انعام بلوچ قوم کی ملکیت قرار دے دیئے۔ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کی ریاست کسی پکے ہوئے پھل کی مانند انگریزوں کی گود میں گرنے لگی۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اس صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ ۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کے قتل نے گلاب سنگھ کو چوکنّا کر دیا۔ اُس نے بروقت انگریزوں سے مراسم بڑھائے اور ۱۸۴۶ء؁ میں جب دوسری اینگلو سکھ جنگ کے نتیجے میں سکھ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور پنجاب و موجودہ پختونخوا برطانوی ہند میں شامل ہوگیا تو فروری۱۸۴۶ء میں معاہدہ امرتسر کے تحت سات لاکھ کے آبادی والے کشمیر کو ۷۵ لاکھ نانک شاہی کے عوض گلاب سنگھ کی غلامی میں دے دیا گیا۔ یوں کشمیر میں نومبر ۱۸۴۶ء میں ڈوگرہ راج کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیریوں کے چوتھے دورِ غلامی کی ابتدا ہوئی۔ یہ چوتھا دورِ غُلامی اگست ۱۹۴۷ء تک یعنی ایک سو سال پر محیط ہے۔
اس چوتھے دور میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہُوا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بھمبر، پونچھ، میرپور، راجوری اور کشتواڑ وغیرہ میں مسلمان حکمرانوں کو گرفتار کرکے کسی کو کنویں میں ڈالا گیا، کسی کی آنکھیں نکلوائی گئیں اور کسی کو سامنے کھڑا کر کے اُس کی کھال اتروائی گئی۔ کسی مسلمان کی جان سے زیادہ بھیڑ بکری کی قیمت تھی۔ باقی عزّت و ناموس کی بات تو پوچھیں ہی نہیں۔ یہ چوتھا دور جسے ہم سے گذشتہ ایک دو نسل نے دیکھا ہے، ۱۹۴۷ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ یہاں پر ۱۹۴۷ء کے بعد کشمیریوں کے پانچویں دورِ غلامی کی ابتدا ہوئی۔ جب تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت نیم خود مختار ریاستوں کو پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے وہی کیا، جس کی بنیاد کشمیر کے نام نہاد مسلمان مذہبی جنونیوں نے رکھی تھی۔ اُنہوں نے چک حکمرانوں کے مذہبی عناد کی وجہ سے مغلوں کو کشمیر پر قبضے کی دعوت دی تھی اور مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے مذہبی عناد کی وجہ سے ہندوستان کو کشمیر پر قبضے کی دعوت دی۔
مہاراجہ نے کوئی نیا کام نہیں کیا تھا۔ یہی کشمیر کے غداروں کی پرانی رسم تھی، جو مہاراجہ نے بھی نبھائی۔ اس وقت کشمیر پچہتر سال سے غلامی کا پانچواں دور کاٹ رہا ہے۔ ان گذشتہ پچہتر سالوں میں وہ کون سا ظلم ہے، جو کشمیریوں پر نہیں ہوا؟ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف دکھ اور غم کی اندوہناک داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ بارڈر کے دونوں طرف منقسم خاندانوں کے لوگ پچہتر سالوں سے دوبارہ اپنے عزیزوں سے نہیں مل سکے۔ ان پچہتر سالوں میں مسلے ہوئے جذبات اور کچلی ہوئی انسانیت کا نوحہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں، جن پر بیت رہی ہے، جو نسل درنسل محاصرے میں ہیں، جو ہر لقمہ اپنے اشکوں سے تر کرکے کھاتے ہیں اور صبح و شام اپنا خونِ جگر پیتے ہیں۔
آج ۷ فروری ۲۰۲۳ء کو کشمیر کی نئی نسل کیلئے مسئلہ کشمیر پر یہ تجزیہ ایک خاص مقصد کے تحت مرتّب کر رہا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ اب شاید کچھ عرصے میں کشمیر کی غُلامی کی تاریخ کا تجزیہ و تحلیل کرنے کو جُرم قرار دے دیا جائے۔ چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ بعید نہیں کہ آنے والے وقت میں ہولوکاسٹ کی مانند کشمیر کی غلامی کی تاریخ پر تحقیق کرنے پر بھی پابندی لگ جائے۔ اس وقت پاکستان جو کہ کشمیر کا وکیل ہے، جو کشمیر کو اپنی شہ رگ مانتا ہے، اسی کی صورتحال دیکھ لیجئے۔ اس میں مذہبی جنونی دوسروں کے بچوں کا نصابِ تعلیم بھی اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں، ان کیلئے نیا نویلا درود شریف بھی خود سے گھڑ کر لاتے ہیں۔ ان کے عقائد کے خلاف اُن سے اقرار لیتے ہیں کہ جو لوگ آلِ رسولؐ کے دشمن اور قاتل ہیں، انہیں بھی رضی اللہ کہو۔۔۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے کشمیر کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور ہم ماضی کی طرح آج بھی مذہبی جنونیت کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ پاکستان کیوں مسلسل بحران میں ہے!؟ جی ہاں جس مذہبی جنونی پن کی سزا گذشتہ ساڑھے تین سو برس سے کشمیریوں کو مل رہی ہے، وہی جنونی پن ضیاء الحق سے لے کر آج تک پاکستان پر سوار ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر ایسا تو ہوگا۔۔۔۔ بحران در بحران۔۔۔ غلامی در غلامی۔۔۔

Thanks with Daily Mukalama.com






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *