Main Menu

قومی ریاستوں کے حصول کیلئے ساز گار حالات-ڈاکٹرجلال بلوچ

Spread the love

یک زمانہ وہ تھا جب یورپ تاریک راہوں کا مسافر تھا، مذہبی اور سماجی منافرت اور بیرونی یلغار نے اس کا ڈھانچہ پوری طرح مسخ کرکے رکھ دیاتھا ، اس زمانے میں کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آرہاتھا جو اس براعظم کے کسی محدود خطے کو جدید خطوط پہ استوار کرسکے۔ صد سالہ خانہ جنگی نے رہی سہی کسر پوری کردی اور ہر گروہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کبھی یورپ تو کبھی امریکہ میں ایک دوسرے کو نیست ونابود کرنے کے درپر تھے۔ وہ چاہے فرانس اور انگلینڈ کی آپسی کشمکش ہو یا سپین ، پرتگال، آسٹریا ، انگلینڈاور دیگریورپی ملکوں کانئی دنیا(امریکہ) میں اقتدار اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے خون کی ہولی کھیلنا۔ جب ہم آج کے یورپ اور امریکہ پہ نظر ڈالتے ہیں تو یہ گمان کرنا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ عہدِ جہالت کے ایسے بدترین دور سے گزر چکے ہیں جہاں انسان ، انسانیت کے تمام اصولوں سے بے بہرہ ہوتا ہے۔
مغرب جب اپنے زوال کے قریب پہنچ چکا تو اسے زندہ رہنے کی تمناء نے جھنجوڑ دیا اور انہوں نے سوچنے اور غور وفکر کی راہ اپنائی ،جس کی وجہ سے انہیں اپنی کمزوریوں کا ادراک ہوا ، جنہیں انہوں نے من و عن قبول کیا ، ایسا بھی نہیں کہ اس کے بعد وہ آپس میں برسرِ پیکار نہیں رہیں ، ان کی آپسی جنگوں کے واقعات پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں شدت کے ساتھ سامنے آتی ہیں، لیکن انہوں نے اس سے قبل ہی اس کا ازالہ کیا تھا، اسی لیے ان دو عظیم جنگوں میں جہاں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے اور معاشی حوالے سے مغرب بڑی حد تک کمزور بھی ہوا، اس کے باوجود بھی آج اگر مغرب دنیا میں سب سے نمایاں مقام کا حامل ہے تو اس کی وجہ وہ اپنے سماج میں قومی ریاست اور حب الوطنی کے جذبے کو لے کر آگے بڑھے اور یوں آج کا مغرب تعمیر و ترقی کا مینار بنا ہوا ہے ۔ قومی خوشحالی کے لیے انہوں نے روشن خیالی کے نظریے کو فروغ دیا جہاں مذہب کو سیاست سے الگ رکھا گیا اور ساتھ میں تمام ممالک کی خوشحالی ، امن اور آشا کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جس نے آگے چل کر ان کے ’’سکے‘‘ تک کو یکسانیت بخشی اور آج براعظم کے ممالک کی اکثریت کا باہمی مشاورت سے فیصلہ سازی اور پالیسیاں مرتب کرنا اور ان کے نفاذ تک، وہ ایک ہی پیج پہ نظرآتے ہیں۔ یہ خوشحالی، ترقی اور تسخیر کائنات یورپی قومی ریاستوں کے قیام کی وجہ سے ممکن ہوا۔
حالیہ دور میں اگر محکوم اقوام بالخصوص اس خطے میں بسنے والے بلوچ، سندھی اور کشمیریوں کو دیکھیں تو وہ اپنے اقتدار اعلیٰ کے حصول کے لیے قابض کے خلاف برسرپیکار ہیں ان کے ساتھ ساتھ پشتون قوم کو بھی آج اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ اقتدار اعلیٰ کے حصول سے ہی تعمیر و ترقی وابستہ ہے لہٰذا اسی نظریے کا پرچار کرنا چاہیے۔ حالانکہ آج کے یہ اقوام سیاسی بالیدگی اور روشن خیالی میں ماضی کے یورپ سے کافی ترقی یافتہ ہیں لہذا ان کے لیے مقصد کا حصول اس قدر مشکل نہیں جس قدر مغرب کے مشکل تھا۔
ان تمام اقوام میں بلوچوں کی آواز سب سے توانا ہے اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی جبری قبضے کے خلاف بلوچوں نے روزِ اول سے مزاحمت کا راستہ اختیارکیا، دوم بلوچوں کی ریاستی تاریخ ہے جہاں پاکستانی قبضے سے قبل انہوں نے لگ بھگ 538سال تک اس خطے پہ تسلسل کے ساتھ حکمرانی کی اور برطانوی سرکار سے بھی انہوں نے حکومتی سطح پہ ہردور میں معاہدات کیے ، گوکہ ان معاہدات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ان میں بھی برطانوی سرکار جو کہ طاقت کے لحاظ سے سبقت رکھتی تھی ، طاقت کی اسی برتری نے اپنی من پسند معاہدات کے لیے بلوچوں کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کیا لیکن پھر بھی معاہدات ریاستوں کے مابین ہی ہوئیں۔ اسی لیے ان ریاستی معاہدات کا بھی بلوچوں کے ذہن پہ گہرا اثر ہے کہ برطانوی سرکار تک نے ہمیں ریاست کے طور پہ قبول کیا تو ہم کیسے پاکستان جیسی غیر فطری ریاست کی عملداری کو قبول کرسکتے ہیں۔ ؟انہی اسباب کی وجہ سے بلوچوں میں اغیار کے خلاف مزاحمت کا جذبہ ہم شدت کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔
اگر پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھیں تو سیاسی، سماجی اور معاشی حوالے سے یہ غیر فطری ریاست زبوحالی کا شکار ہے ، بینکوں میں پیسہ نہیں، سماج میں افراتفری، مذہبی انتہاء پسندی عرو ج پہ، سیاسی جماعتوں کی آپسی رسہ کشی کی دوڑ ، فوج ایک کاروباری کمپنی ، جس کے ہاتھ جتنا لگے وہ اسے کینڈا، امریکہ ، آسٹریلیا اور یورپ منتقل کرنے میں مگن۔ ایسے میں پِس رہا ہے عوام جنہیں حقیقت سے لا علم رکھا گیا گیا ہے جو خوف اور ذہنی الجھائو کا شکار ہے ۔
حالیہ دنوں معاشی ابتری کے شکار ملکوں کی اعداد و شمار پہ نظر پڑی تو دیکھا کہ پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہیں جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہے جن میں فقط سری لنکا اور لائوس ہی پاکستان سے اس دوڑ میں سبقت لے جاچکے ہیں ۔ ڈالر کی اونچی اُڑان ، بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی، آئی ایم ایف کی من مانیاں یہ سب اس جانب واضح اشارے ہیں کہ پاکستان آج نہیں تو کل زمین بوس ہو ہی جائے گا کیوں کہ اب مغرب کے لیے کوئی سویت یونین باقی نہیں بچا جسے روکنے کے لیے پاکستان کو معرض وجود میں لایا گیا تھا۔ لہٰذا انہیں بھی اب اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ اب ہمیں ہماری بنائی گئی اس کمپنی کی ضرورت نہیں اسی لیے انہیں بھی ہم منہ موڑتے دیکھ رہے ہیں۔
ایسے میں جب پاکستان کی زمین بوس ہونے کی نشانیہ پوری ہوچکی ہیں لہٰذاخطے میں بسنے والے تمام اقوام کو اپنی جدوجہد میں مزید تیزی لانی ہوگی ۔ اس ضمن میں اگر ہم بلوچ تحریک آزادی پہ نظر ڈالیں تو اس نے پاکستان کا بوری بستر گول کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ بلوچ قوم کی حالیہ تحریک جو ایک جانب بلوچستان میں بہترین جنگی حکمت عملی کی وجہ سے منفرد مقام حاصل کرچکا ہے دوسری جانب سیاسی کارکنان انتہائی متحرک کردار ادا کررہے ہیں وہ چاہے اندرون بلوچستان ہو یا عالمی سطح پہ۔ بلوچوں کی حالیہ تحریک کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ جو میں سمجھتا ہوں وہ ہے ان کا پرامن سیاسی اور مسلح جدوجہد جسے مزید توانا کرنے کے لیے انہوں نے اس صدی کے اوئل میں’’ ادارتی‘‘ طرز کوپروان چڑھا یا وہ چاہے پرامن سیاسی میدان ہو یا مسلح تنظیمیں ، جن کے کارہائے نمایاں سے ادارتی طرز جھلکتی نظر آتی ہے۔ بلوچ رہنمائوں کو اس بات کا ادراک تھا کہ منظم ہوئے بغیر کامیابی کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن تعبیر ممکن نہیں اسی لیے انہوں نے اداروں کے مربوط نظام کی جانب پیش رفت شروع کی جس کے ثمرات ہم آج تحریک کی کامیابی اور پاکستان کی زبوحالی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس تحریک کے بیس سالہ دورانیے کا سائنسی بنیادوں پہ تجزیہ کیا جائے تو ، اگرچہ ہمیں نئی تنظیموں کا وجود نظرآئے گا جسے علاقائی یا شخصی رنگ بھی دیا جاتا ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسا علاقہ جس نے ایک طویل عرصہ غلامی اور محکومی میں گزارا ہو وہاں بسنے والوں پہ نوآبادیاتی اثرات کا پڑنا کچھ بعید نہیں اور بلوچ بھی اس سے مبرا نہیں۔ ویسے بھی رہی سہی کسر فارورڈ پالیسی نے پوری کردی ہے ۔ اس جال سے نکلنا ازخود ایک مشکل امر ہوتا ہے اور اگر سماج میں ایسی بدیسی روایات سے نکلنے کی منظم کوشش نظرآجائے تو سمجھ لینا کہ سماج اب نت نئی راہوں کا انتخاب کرچکی ہے ، اور سماج کو یکمشت ہوتے دیر نہیں لگے گی اور جو منظم انداز میں تحریک کو آگے لے جانے والوں کی پیروی نہیں کریں گے وہ تحریک کا’’سائیکل‘‘ مکمل ہوتے ہی مٹتے چلے جائیں گے ۔ بلوچ قومی تحریک میں شامل قوتوں نے دنیا پہ یہ ثابت کردیا کہ یہ تحریک بلوغیت کی سیڑھی پارکرچکی ہے اور ایسی تحریک کو ختم کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ ایک اور بات بلوچ تحریک نے نہ صرف دنیا میں خود کو منوایا بلکہ ہمسایہ اقوام پہ بھی اس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے، جیسے پشتون، مہاجر اور سندھی۔گو کہ پشتون تحریک اب تک مسلح میدان میں نظروں سے غائب ہونے کے ساتھ پاکستانی اداروں اور ان کی بحالی اور چند ایک قومی حقوق یا محکوم اقوام کے حقوق اور ان پہ انہیں والے مظالم کے خلاف آواز بلند کررہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی پشتونوں میں ایک مضبوط سوچ اس نظریے کا بھی حامی ہے کہ خطے میں بسنےوالے پشتونوں کو پشتونستان کے نام سے الگ ریاست بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے اضلاع کو ایک ہی کڑی میں پیوست کرکے ایک قومی ریاست بنائی جائے۔ جبکہ سندھی قوم پرست تحریک جو کہ انتہائی مربوط خطوط پہ استوار نہیں لیکن انہوں نے اپنی کارروائیوں اور سیاسی طرز جدوجہد سے اپنا الگ مقام بنانے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔
ایسے حالات میں جہاں پاکستان سیاسی اور سماجی بے راہ روی کا شکار ہے ، اس کی معیشت ڈگھمگارہی ہے ساتھ میں ہمسایہ اقوام جیسے ہندوستان، ایران اور افغانستان سے اس کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہیں اور ایک ایسی ریاست جس کے دشمن اس کے ہمسائے ہوں، جس کی معیشت کے لیے کچکول کا سہارا لیا جائے، جو مذہبی منافرت کی آماجگاہ ہو اور سیاسی اور سماجی افراتفری کا شکار ہو وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ لہذا ایسے حالات یہاں پہ بسنے والے اقوام کے لیے انتہائی سازگار بن چکے ہیں کہ وہ ان سے مستفید ہوکر اس ناسُور سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑائیں ۔ اس حوالے بلوچ ، سندھی ، پشتون، کشمیری اور مہاجروں کو عالمی اور علاقائی سطح پہ متحد ہونے کی اشدضرورت ہے اور اگر وہ کوئی متحدہ محاذ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا بھی ان کی جدوجہد کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پہ مجبور ہوگی ۔ لہذا وقت کا ادراک کرتے ہوئے تمام اقوام کے رہنمائوں کو ایک پیج پہ آنا چاہیے ۔ یورپ نے جو تاریخ رقم کی ، اِس وقت یہاں کے محکوم اقوام اس تاریخ کو دہرانے کے قابل ہوچکے ہیں بلکہ پاکستان کے حالات نے ان کے لیے ماحول اس قدر سازگار بنادیا کہ متحدہ محاذ کی صورت میں انتہائی قلیل مدت میں یہاں قومی ریاستوں کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔ اور اگر ان حالات سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کی گئی تو ماضی ہمارے سامنے’’ مثلِ آئینہ‘‘ ہے۔ فیصلہ محکوم اقوام کے رہنمائوں کے ہاتھ ہے کہ وہ تعمیر و ترقی اور تسخیر کائنات کی جانب پیش قدمی کریں گے یا تاریک راہوں میں بھٹکتے رہیں گے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *