Main Menu

ایک دہشت گرد کی وال سے: شہباز اسلم

Spread the love

پھول، پرندے، کتابیں، شاعری، موسیقی، فلسفہ، محبت اور مزاحمت وہ موضوعات ہیں جو شاری بلوچ عرف برمش کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تجزیہ کرنے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ خودکش حملہ کرنے سے ایک دن پہلے شاری بلوچ نے اپنی ٹویٹر وال پر یہ ٹویٹ شیئر کیا تھا۔
”انقلابی مسلح جدوجہد کو بہترین راستے کے طور پر نہیں چنتے، یہ وہ راستہ ہے جو ظالم مظلوم پر مسلط کرتا ہے“۔ فیڈل کاسترو
اگر ہم شاری بلوچ عرف برمش کی ٹویٹر وال کا جائزہ لیں تو بادی النظر میں ایک ایسی خاتون کا خاکہ نظر آتا جو اپنی زمین اور اپنے لوگوں کے عشق میں مبتلا ہے، جو اپنے لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہے۔ وہ شاعری اور میوزک سے محبت کرتی ہے۔ فیض احمد فیض اور چی گویرا جیسے انقلابیوں کی سوچ سے متاثر ہے۔ کتابیں پڑھنا پسند کرتی ہے۔ جس کی لائبریری میں گبیرئیل گارشیا مارکیز کا شہرہ آفاق ناول One Hundred Years of Solitude بھی ہے جوسٹین گارڈر کا Sophie ’s World بھی۔ وہ ارون دھتی رائے کو بھی پڑھتی ہے اور سگمنڈ فرائیڈ کو بھی۔ فلسفہ، فکشن، شاعری، ادب اور خاص طور پر مزاحمتی ادب اس کو پسند ہے۔ اس کی وال پر پرندے ہیں، شاعری ہے اور احتجاج کرتے ہوئے بلوچ ہیں جو اپنے لاپتہ ہونے والے بچوں اور بیٹوں کی تصویریں تھامے ایک لاحاصل انتظار

میں بیٹھے ہیں۔
شاری بلوچ محبت کے بارے میں پاؤلو کوئلو کا یہ فقرہ بھی ٹویٹ کرتی ہے۔
محبت ایک ایسی ناقابل فہم اور خطرناک شے ہے جو آپ کی ذات سے سب کچھ چھین لیتی ہے اور آپ کے پاس وہی کچھ باقی رہ جاتا ہے جو آپ کے محبوب کو پسند ہو۔
کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش تھی۔ شاری بلوچ کے والد حیات بلوچ تربت یونیورسٹی کے ریٹائرڈ رجسٹرار ہیں اور اس سے قبل پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے محکمے میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ شاری بلوچ کے دوسرے بہن بھائی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ان میں سے اکثر سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ شوہر ہیبتان بشیر ڈاکٹر ہیں جبکہ ایک دیور جج، ایک اسسٹنٹ ٹریزری افسر اور دو یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
شاری بلوچ کی تعلیم اور فیملی بیک گراؤنڈ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسے اس سسٹم پر یقین تھا اور وہ اس سسٹم کا ایک فعال حصہ تھی۔ شاری بلوچ زوالوجی میں ماسٹرز اور بی ایڈ کرنے کے بعد سرکاری سکول میں استاد کے منصب پر فائض تھی۔ استاد جو تعلیم کے ذریعے معاشرے کے بگاڑ کو ٹھیک کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جو معاشرے کو سمجھتا ہے اور معاشرے کی تشکیل نو کرتا ہے۔ وہ کیسے اس عمل کا حصہ بنی؟ وہ کیوں اس قدر مایوس ہو گئی کہ خود کش حملے جیسا انتہائی فیصلہ لے لیا۔ اور کون سی متاثر کن تحریک تھی جس نے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں سلب کر لیں۔ کون سے وہ حالات تھے؟ کون سے وہ نظریات تھے جنہوں نے اس پڑھی لکھی خاتون جو دو بچوں کی ماں بھی تھی کو خودکش حملہ پر مجبور کر دیا؟
اگرچہ بوکو حرام، القاعدہ، تامل ٹائیگرز اور تنظیم دولت اسلامیہ میں پڑھی لکھی خواتین کی شمولیت اور پرتشدد کارروائیوں میں بھرپور حصہ لینا اب بہت واضح ہو چکا ہے تاہم پاکستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے کسی خاتون کو بطور خود کش بمبار کے استعمال کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت کو قابو کرنے کے لئے صرف طاقت کا استعمال اب شاید اتنا موثر نہ ہو گا بلکہ ان نظریات کو بھی ٹارگٹ کرنا ہو گا جوان دہشت گرد تنظیموں کو مسلسل نظریاتی ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے والے خواتین تعلیم یافتہ اور با شعور تھیں۔ جو اپنی مرضی سے ان دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بنی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں بطور فعال رکن کردار ادا کیا۔
بلوچستان میں بھی کہیں کچھ ایسا غلط ہو رہا ہے جو بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ جسے ریاست مخالف جتھوں کو ایسا مواد فراہم کر رہا جس سے شاری بلوچ جیسے تعلیم یافتہ لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اگرچہ شاری بلوچ کے خاندان میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو لاپتہ ہو، کوئی ایسا واقعہ بھی فی الحال سامنے نہیں آیا جو اس شاری بلوچ کے اس عمل کی کسی بھی حوالے سے کوئی جواز کم از کم انفرادی سطح پر ہی فراہم کرے۔ جیسا کی عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ خود کش حملہ کے پیچھے کچھ انفرادی عوامل بھی شامل ہوتے ہیں جن میں ذاتی استحصال یا بدلہ لینا شامل ہوتا ہے۔
لہذا یہی سمجھا جا رہا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کی فکر و نظریہ ہی وہ تحریک تھی جس نے ایک تعلیم یافتہ اور درس و تدریس سے وابستہ خاتون کو خودکش بمبار میں تبدیل کر دیا۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے تجزیہ سے جو وجوہات سامنے آتی ہے ان کے مطابق شاری بلوچ مسلح بلوچ مزاحمت کاروں کے فلسفہ سے متاثر تھی جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
شاری بلوچ جیسی خواتین کا دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بننا اور خود کش حملے کرنا بہت سے سوالات کھڑے کر رہا ہے جن کے جوابات تلاش کرنے میں جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی نقصان زیادہ ہو گا۔ اس نظریہ اور فلسفہ کے بنیادی محرکات کو سمجھنا ہو گا۔ ہر دہشت گردی کے واقعہ کو بیرونی طاقتوں کے کھاتے میں ڈال کر اگلے سانحہ کا انتظار کرنا اب شاید ممکن نہ ہو سکے۔ اور اس سے پہلے کہ کوئی دوسری برمش سامنے آئے بلوچستان سے احساس محرومی ختم کرنا ہو گا۔
بلوچستان کو سننا ہو گا۔ بلوچستان کو سمجھنا ہو گا۔ کیونکہ شاری بلوچ کا خود کش حملہ آغاز ہے ایک نئی جنگ کا۔ اب یہ مقتدر اداروں نے فیصلہ کرنا ہے کہ جنگ کیسے لڑی جائے تاہم ایک بات واضح ہے کہ یہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جائے گی۔ بات کرنی ہوگی۔ نظریہ اور فکر بدلنی ہوگی۔ سمت بدلنی ہوگی۔ زاویہ نظر بدلنا ہو گا۔ اور بہت کم وقت میں۔
(یہ تحریر دیگر ویب سائیٹ پر چھب ہوچکی ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *