Main Menu

دہلی بیٹھک تحریر خان شمیم

Spread the love


جموں کشمیر کے تنازعے سے جڑے اور اس سے دلچسپی رکھنے والے سبھی لوگوں کی نظریں آج بھارتی دارالحکومت دہلی پر لگی ہوئی تھیں جہاں بھارتی حکومت اور جموں کشمیر کی بھارت نواز روایتی قیادت کے درمیان ایک میٹنگ منعقد ہو رہی تھی پانچ اگست دوہزار انیس کو بھارت کی جانب سے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے اور اسے ریاست کی بجائے یونین ٹیریٹری قرار دینے کے اقدامات کے بعد یہ اسطرح کی پہلی ملاقات تھی جو تقریبا” بائیس ماہ کے بعد منعقد ہوئی
اس ملاقات میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے چار سابق وزرائے اعلی’ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور غلام نبی آزاد کے علاوہ جموں اور کشمیر کی ساری روایتی قیادت موجود تھی
اس میٹنگ سے پہلے افواہوں کا بازار گرم رہا طرح طرح کی خبریں اور اندازے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر زیر بحث رہے
آج کی اس ملاقات کے کیا نتائج نکلنے ہیں اس پہ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا
ملاقات میں جہاں بھارتی حکومت کا رویہ کچھ بہت زیادہ نرم نہیں رہا وہاں دوسری طرف ریاست جموں کشمیر کی دونوں اکائیوں یعنی اور جموں اور کشمیر کی قیادت کے درمیان بھی ایک واضع لکیر کھینچی نظر آئی
وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہنماوں پر مشتمل گپکار اتحاد نے ریاست کی مکمل بحالی بشمول آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے پر بھرپور زور رکھا لیکن حکومت نے ان پر کوئی موثر جواب نہیں دیا اور زیادہ تر زور جمہوری پراسیس کو مضبوط کرنے پر رکھا اسکے علاوہ گپکار الائنس نے جیلوں میں بند علحیدگی پسند قیادت کی رہائی کا مطالبہ بھی رکھا جسے حکومت نے فی الحال نہیں مانا
وہیں دوسری طرف جموں کی قیادت نے ریاست کی بحالی کا مطالبہ تو ضرور کیا لیکن آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کی بحالی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا کانگریس نے ریاستی حثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ ریاستی باشندوں کے لیے زمین اور ملازمتوں کے تحفظ کا مطالبہ بھی رکھا
جموں سے تعلق رکھنے والے سنئیر سیاستدان اور پینتھر پارٹی کے صدر پروفیسر بھیم سنگھ نے کہا کہ چھبیس اکتوبر انیس سو سیبتالیس کے مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کی اج تک بھارتی پارلیمنٹ نے توثیق نہیں کی اب وقت ہیکہ پارلیمنٹ اسکی توثیق کرے تاکہ جموں کشمیر کا بھارت میں انضمام ہو سکے
الگ الگ مطالبات ، خدشات اور افواہوں کے بیچ میں سبھی لوگ اس بات پہ متفق نظر آئے کہ جمہوری عمل کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے حکومت ہند نے واضع کیا کہ حلقہ بندیوں کے مکمل ہوتے ہی جموں کشمیر میں انتخابات کروائے جائینگے جبکہ گپکار الائنس اور کانگریس نے انتخابات سے پہلے ریاستی حثیت کی بحالی کا مطالبہ حکومت کے سامنے رکھا ہے
اب دیکھنا یہ ہیکہ اسطرح کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ریاست کی بحالی کن شرائط پر ہوگی کیا لداخ کے بغیر ریاست کو بحال کیا جائیگا ؟
کیا ارٹیکل تین سو ستر کی بجائے ارٹیکل تین سو اکہتر جموں کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا ہے ؟
یہ سب سوالات ایسے ہیں جنکے جوابات مستقبل قریب میں ملنے کے قوی آثار ہیں دو سال کے شدید اندرونی اور عالمی دباو کے باعث بھارت نے بات چیت کا راستہ اختیار کیا ہے اگر چہ اس میں سے ابھی کچھ برامد نہیں ہوا لیکن وقت کے ساتھ شاہد بہت کچھ تبدیل ہونے کے امکانات ہیں
اسوقت ریاست جموں کشمیر میں ہر دو طرف تشخص اور بقا کی جنگ جاری ہے اگر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی ریاستی حثیت بحال ہو جاتی ہے اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی موجودہ حثیت برقرار رہتی ہے تو پھر ایک امید ضرور موجود رئیگی کہ یہ سابقہ شاہی ریاست متحد ہو سکتی ہے اسلیے اج سیز فائر کے دونوں طرف تشخص اور بقا کی جنگ بہتر طریقے سے لڑنے کی ضرورت ہے اسی میں ہم سب کی بقا کا راز مضمر ہے ورنہ بکھر کر ہمارا وجود اور تشخص زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا






Related News

یا سین ملک کا مقدمہ اورعالمی عدالت انصاف ۔ بیرسٹر حمید باشانی

Spread the loveآج کل یاسین ملک کا مقدمہ عدالت انصاف میں لے جانے کے باتیںRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *