Main Menu

منظم و بیدار عوام اپنے حق کیلئے کہاں تک جا سکتے ہیں؟ تحرير: مظہر اسحق

Spread the love

تيرہ جنوری 2021 پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے پونچھ ڈویژن ،ضلع پونچھ،ضلع سدھنوتی اور ضلع باغ میں آٹے کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف شٹرڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال مجموعی طور پر کامیاب رہی نام نہاد آذاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے والی تمام سڑکیں مکمل طور پر سدھنوتی ،باغ اور پونچھ کے باشعور عوام نے بند کر کے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ عوام اگر منظم ہو جائے تو وہ ایسا کچھ کر سکتے ہیں جو آپ کہ وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔
عوام کی طرف سے پرامن احتجاج پر کٹھ پتلی حکمرانوں نے طاقت کے ذریعے اس ہڑتال کو نا کام بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی جس میں انتظامیہ نا کامیاب رہی اور عوام کے سامنے انتظامیہ بے بس نظر آئی اور یوں آذاد پتن پر پولیس کی طرف سے نہتے عوام پر تشدد کے نتیجے میں منظم عوام نے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کیا اور پولیس کو مجبورا پل پار کر کے پاکستان کی حدود تک محدود کر دیا۔
اس ہڑتال کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ آٹے جیسی بنیادی اور ناگزیر ضرورت کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف کی گئی یوں آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے ہر انسان متاثر ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو۔
ہڑتالیں لوگوں میں شعوری بیداری کا سبب بنتی ہیں ہڑتال، احتجاج لوگوں میں یہ فکر پیدا کرتی ہیں کہ وہ اگر ایکا کر کے، سب ایک ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں تو ان کی بات کو رد کرنا حکمرانوں کے بس میں نہیں رہتا انسانی تاریخ ہمیں سیکھاتی ہے کہ انسان آج تک مسلسل قابض و ظالم قوتوں کے ساتھ نبردآزما رہا اور آج بھی ہے جس کا ثبوت دنیا میں چلنے والی مختلف تحریکیں ہیں۔

نام نہاد آذاد کشمیر میں 13 جنوری کو ہونے والی ہڑتال بھی،مہنگائی کے خلاف، انسان کے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے،منظم ہونے کا ہی تسلسل ہے۔

نام نہاد آذاد کشمیر میں 73 سالوں سے اقتداری ٹولے نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوئے اپنی جیبیں بھری ہیں اپنی اولادوں کو بیرونی ممالک سے مہنگے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی اپنی جائیدادوں میں اضافے کیے آزاد کشمیر میں جو کچھ سرکاری و نیم سرکاری ادارے ہیں ان میں اپنے رشتہ داروں اور تعلق داروں کو خلاف قانون و خلاف ضابطہ میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بھرتی کروایا۔

سڑکوں،پلوں،سکولوں ،کالجوں و دیگر کاموں میں اپنے من پسند لوگوں کو ٹھیکے دے کر کمیشن کھاتے رہے ہر طرح کی بد عنوانی اس اقتداری ٹولے نے روا رکھی ہر وہ کام کیا جس سے ان کو ذاتی فائدہ پہنچا۔

اور ہاں اس اقتداری ٹولے نے اگر کچھ نہیں کیا تو وہ یہ کہ عوام الناس کے لیے روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے۔
صنعتیں ،فیکٹریاں،کارخانے کبھی نہیں لگائے تم عوام کو روزگار دو اندرون ملک مزدور کی انکم اگر ایک لاکھ روپے ہے تو پھر آٹا تین ہزار فی من کر دو کوئی ہڑتال نہیں کرے گا(بقول وزیراعظم فاروق حیدر کوئی آپ کی حکومت کے خلاف انتشار نہیں پیدا کرے گا) جب لوگوں کی انکم مجموعی طور پر پہلے سے بھی ہم ہو گئی پھر آٹا مہنگا کرنا لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔

جس پر عوام کے پاس سوائے ہڑتال ،ریاستی مشینری کو جام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں لہذا عوام آٹے کی قیمت میں اضافے کی واپسی کے لیے سڑکوں پر پھر آئے گی لیکن اب کی بار پہلے سے زیادہ منظم ہو کر، پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ اس وقت شاید آپ کو بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملے گا یاد رہے جب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہو جب اشیائے خوردونوش عوام کی پہنچ سے دور ہو جائیں اس وقت لوگوں کے پاس سوائے ہڑتال کے،سوائے احتجاج کے،سوائے مذمت کے،سوائے لڑائی کے کوئی دوسرا راستہ بچتا ہی نہیں اس وقت عوام ملوں ،فیکٹریوں ،کارخانوں سرکاری املاک کو اپنے کنٹرول میں لینا باعث اعزاز سمجھتے ہیں پونچھ میں جس کا اظہار اس دفعہ کچھ جگہوں پر کیا بھی گیا۔
اقتدار پر براجمان ٹولے کے پاس دو ہی آپشنز ہیں یا تو ریاستی عوام کو اندرون ملک روزگار فراہم کرے یا آٹے کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے اور گندم پر سبسڈی بحال کرے وگرنہ یاد رہے تحریک ابھی جاری ہے ختم نہیں ہوئی۔
اور اب لوگ بیدار ہیں ،بیدار ہو رہے ہیں اور بیدار اور منظم عوام اپنا حق لینا بخوبی جانتے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *