Main Menu

آٹھ دسمبر یو مِ وفات کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور اُنکی کی جدوجہد ؛ تحرير: سجاد ظہیر سولنگی

Spread the love

سندھ کی سیاسی تبدیلی میں بہت سے ایسے انقلابی راہنماؤں کا عملی کردار ہے ، جن کو فراموش کرنا تاریخ کے ساتھ نانصافی کے زمرے میں آتا ہے ۔ہمارے ہاں مختلف سیاسی جدوجہد کے دور چلتے رہے ہیں۔اس ملک کی تخلیق کو کوئی کچھ بھی نام دے، لیکن یہ اب تاریخ کا حصہ ہے ۔بنیاد پرست رویوں نے ہماری اعتدال پسندی کی تاریخ کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ بر ِ صغیر کی سیاست کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر سیاست کی بنیادیں1917 ءمیں ، روسی سرزمین پر آنے والے بولشویک انقلاب کے بعد نظر آتی ہیں۔ ترقی پسند سیاست کے بانیان سوشلسٹ راہنما تھے،کامریڈ سوبھو گیان چندانی بھی اسی قافلے کے ایک راہنما تھے۔ وہ ایک پختہ ارادہ رکھنے والے انسان تھے، جو زندگی کی آخری گھڑیوں تک عوامی فکر کے ساتھ جُڑے رہے۔
سوبھو گیان چندانی لاڑکانہ ضلع کے چھوٹے سے شہر ڈوکری کے گاﺅں بنڈی میں 3 مئی 1920ءکوپیدا ہوئے۔ یہ سچ ہے کہ ہم ملک کے اس عظیم عوامی انقلابی راہنما کو وہ خراجِ تحسین پیش نہیں کرسکے، جس کے وہ حقدار تھے۔ وہ صرف ہمارے ملک ہی نہیں، بلکہ تمام عالم کے محنت کش راہنما تھے۔ جس نے اپنی تمام زندگی اشتراکیت اور برابری کے نظام کو قائم کرنے کے ل لیئے وقف کردی۔ کبھی بھی جھکے نہیں ، زندگی کی آخری گھڑیوں تک ڈٹے رہے ۔ ہمارے خطے کی تمام وہ جماعتیں جو سرخ سویرے کے لیے کوشاں ہیں ۔ انہوں نے کامریڈ سوبھو کو تاریخی خراج تجسین پیش کیا۔ یہ احترام ان کے اعزاز میں ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ ان کی یاری میں برِ صغیر کے بہت بڑے وطن پرست راہنما جن میں پرکاش نرائن سے لیکر آئی کے گجرال تک اور پی سی جوشی سے لیکر سید سجاد ظہیر تک شامل رہے۔ کامریڈ سوبھو نے رابیندر ناتھ ٹیگور کی شانتی نکیتن میں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جو کہ اس وقت برِ صغیرکے انقلابیوں اور آزادی پسند طلبہ راہنماﺅں کا مرکز تھی، جہاں سے سوبھو ایک مکمل کرانتی کاری بن کر نکلے۔ اس درسگاہ سے حاصل ہونے والے فکری راہنمائی نے آپ کولاڑکانہ میں ٹھہرنے نہیں دیا۔ 1942 ءمیں قانوںکی ڈگری حاصل کرنے کے لیے آپ نے کراچی کو اپنی منزل بنایا۔کراچی عوامی سیاست کے ساتھ طلبہ سیاست کا بھی گڑھ تھا۔ جہاں مٹھا رام ہاسٹل سے لیکر ڈی جے سائینس کالیج تک ” ہم چھین کے لیں گے آزادی“ کے نعروں کی ہر طرف گونج سنائی دے رہی تھی۔رابندرناتھ ٹیگور کی شانتی نکیتن سے حاصل کی جانے والی سیاسی حکمت عملی کا مظاہر ہ کامریڈ سوبھو نے” سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن“ میں شمولیت کے طور پر کیا ۔جہاں کامریڈ سوبھو نے کراچی کی سامراج مخالف طلبہ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک کی کی قیادت کامریڈ حشوکیولرامانی کر رہے تھے۔اس دور کے دوران کالیج میں ایک واقع ہو ا ، قصہ کچھ یوں تھا کہ اس وقت کے حکومتی وزیر اور سابقہ وزیر اعلیٰ الہ بخش سومرو کے بھتیجے نے ایک طالبِ علم کو تھپڑ مارا ۔کامریڈ سوبھو نے اس عمل پر ہڑتال کی کال دیکر کالیج انتظامیہ اور حکومت کو پریشان کردیا۔کامریڈ کو تعلیمی درسگاہ سے بے دخل کردیا گیا۔ تمام طلبہ جمع ہو کر ایک مطالبے پر ڈٹ کر کھڑے ہوگئے، ان کا مطالبہ تھا کہ ملوث اسٹوڈنٹ متاثر طالِب علم سے معافی مانگے اور سوبھو گیان چندانی کو کالیج سے بے دخل کرنے کے احکامات واپس ہونے تک یہ احتجاج احتجاج جاری رہے گا ۔ طلبہ کی جیت ہوئی تھپڑ مارنے والے طالِب علم نے معذرت کی اور انتظامیہ نے طلبہ راہنماﺅں پر لگائے جانے والے الزامات بھی واپس لیے۔ یہ قیادت کامریڈ سوبھو گیان چندانی کی تھی۔
انگریز سامراج کے خلاف کامریڈ سوبھو کی جدوجہد کی اپنی ایک بے مثال جدوجہد ہے، آپ کو سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا۔ یہ تنظیم سندھ میں اس وقت طلبہ کی ایک مضبوط ترقی پسند جماعت تھی۔ آپ کو 1943ءدوران جدوجہد کی پاداش میں ایک سال کے لیئے پابند سلاسل ہونا پڑا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد سوبھو نے سرخ سیاست کو ہی اپنا خواب بنایا۔ اسی محنت کشوں کے مارکسی فکر کے لیے لڑتے رہے ۔ کراچی میں محنت کش تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔مزدوروں کی یونین سازی سے لیکر ان کی سیاسی اور سماجی بیداری میں نظریاتی کردار ادا کیا۔ آپ نے اپنے کامریڈ ساتھیوں نارائن بیچر اور اے کے ہینگل کے ساتھ ٹرام ، بیڑی ورکرز ، شو ورکرز ، پورٹ شپنگ ، ہوٹلز اور دیگر صنعت کے مزدوروںکو نا صرف سیاست کا حصہ بنایا بلکہ ان کی انقلابی بنیادوں پر تربیت بھی کرتے رہے۔ 1946ءکو ہندوستان کی بحری فوج میں ملازمین نے جدوجہد کا اعلان کردیا۔ بھوک ہڑتا کردی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں بھی اسی معیار کا کھانا دیا جائے جو برٹش ملازمین کو دیا جاتا ہے۔کامریڈ سوبھو نے پارٹی کی کال پر اس تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا، وہ گرفتار ہوئے لیکن پیچھے نہیں ہٹے۔ اس تحریک کی قیادت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کر رہی تھی۔ جب کہ باقی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس نے جہازیوں کی اس بغاوت کی کوئی حمایت نہیں کی، بلکہ انہوں نے اپنے اپنے کارکنان سے کہا کہ وہ اس جدوجہد سے دستبردار ہوجائیں۔لیکن اہل سندھ کے باشندے کامریڈ سوبھو کی قیادت میں اس جدوجہد پر ڈٹے رہے۔
کامریڈ سوبھو کی عظمت کی ایک مثال یہ بھی ہے ۔1947 ءمیں برِ صغیر کی تقسیم کے وقت اپنے تمام خاندان اور رشتے داروں کے بار بار کہنے کے باوجود اس نے اپنی جنم بھومی کو نہیں چھوڑا۔ تقسیم کے بعد ریاستی سطح پر بھی کامریڈ سوبھو کو ڈرایا اور دھمکایا گیا، اس حد تک آپ کے تمام غیر مسلم ساتھی بھی یہاں سے جا چکے، لیکن آپ نے ہر مشکل گھڑی میں یہاں رہنا پسند کیا ۔
کامریڈ سوبھو ہمارے ملک کے بہت بڑے دانشور تھے، جن کی فکر ان کی کتابوں اور عملی جدوجہد کی صورت میں ہمارے ساتھ ہے۔ ان کے آدرشوں اور اشتراکی جدوجہد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ آپ کی جدوجہد کو ناکا م سمجھتے ہیں وہ خود جدوجہد کے قابل نہیں رہے۔ سوبھو گیان چندانی ترقی پسند تحریک میں ایک عالم سے لیکر دانشور، اور جفاداری سے لیکر مفکر، اور جدوجہد کے علمبردار سے لیکر قائد جیسے الفاظ کا مرکز بنے رہے۔ جس کا انداز آپ کے ہمراہ جدوجہد کرنے والے ساتھیوں کے فکری تحریروں میں پنہاں یاداشتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔وہ ایک مارکسسٹ تھے اور ان کا بڑا جرم اسی مارکسی افکار کی تبلیغ کرنا تھا ۔ وہ ایک ایسے اشتراکیت پسند تھے ، جس نے اپنا ایمان اسی فکر پر قائم رکھا۔ وہ جہاں ایک سیاسی کارکن تھے، وہاں وہ اپنے طبقے کے بہت بڑے ادیب تھے۔ سماج کی تبدیلی کے لیے آپ کے قلم سے افسانے، مضامیں اور خاکے تحریر ہوتے رہے۔ جن کا مہور ترقی پسند ادب کا فروغ تھا ۔ سوبھو گیان چندانی سندھ کی انقلابی تحریک کے برین تھے، جس نے دنیا کے بڑے بڑے عالمی دانشوروں سے ملاقاتیں کی۔ انہوں نے شانتی نکیتن سے جو فیض حاصل کیا ان کو اپنے حلقے میں منتقل کرتے رہے۔ وہ ہر محاذ پر لڑتے رہے، عوامی فکر اور فلسفے پر کوئی سودا نہیں کیا۔ زندگی کی آخری گھڑیوں تک اس کی تبلیغ کرتے رہے۔ہم سیاست کے طالب علموں پر فرض لاگو ہوتا ہے کہ ہم اپنے کردا کو بہتر بناکر سوبھو گیان چندانی کے نقش ِ قدم پر چلیں ۔ آپ ہمیشہ اپنی علمی اور فکری تحریروں کی صورت عوامی جدوجہد میں ساتھ ساتھ رہیں گے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *