Main Menu

؛ 16 نومبر یوم سیاہ کیوں؟ تحرير: لیاقت حیات

Spread the love

سن 1947 میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم اور دو ممالک پاکستان اور انڈیا کے قیام کے وقت ریاست جموں کشمیر میں دو طرح کی شورشیں موجود تھیں۔ ایک مہاراجہ ہری سنگھ کے شخصی راج کے خلاف بغاوت اور دوسری ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے مختلف حیلوں بہانوں سے پیدا کی گئی صورتحال جس کا واحد مقصد ریاست جموں کشمیر کے وسائل پر قبضہ اور یہاں کے لوگوں کا استحصال تھا۔ غاصب قوتوں باالخصوص پاکستان نے ان دونوں باتوں کو مذہبی لبادے کی چادر اوڑھا کر ایک بنانے کی مذموم کوشش کی جو ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کی طوالت اور پیچیدگی کا باعث ہے۔ بحثیت ریاست جموں کشمیر کے باسی ہمیں ان کو الگ الگ اور حقیقی نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ریاست جموں کشمیر کے وسائل اور اس کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی پاکستان اور انڈیا نے اپنی توجہ ریاست جموں کشمیر پر مرکوز کر دی۔ ریاست جموں کشمیر کی موجودہ تقسیم کا آغاز 22اکتوبر 1947 کو ہوا جب پاکستان نے اپنی ریگولر آرمی کی قیادت و زیر نگرانی قبائلیوں کے ساتھ ریاست جموں کشمیر پر حملہ کیا۔ اس حملے سے مجبور مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ عارضی الحاق کیا جس کے نتیجے میں 27 اکتوبر کو انڈین افواج ریاست میں داخل ہوئیں۔ یوں ریاست کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس صورتحال کے دوران ریاست کے تیسرے حصے گلگت بلتستان کے لوگ بھی یکم نومبر تک مہاراجہ کے خلاف بغاوت کر کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ یکم نومبر کو یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کے بعد یہاں مقامی حکومت کا قیام عمل میں آیا جسے پاکستان کی جانب سے 16 نومبر کو گلگت سکاوٹس کے سربراہ میجر براون سے سازباز سے ختم کر کے پاکستان سے آئے پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم کے ہاتھ اس علاقے کی بھاگ ڈور دے دی گئی۔ گویا 16 نومبر بھی بائیس اور ستائیس اکتوبر کی طرح ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے جب پاکستان نے عملی طور پر ریاست کے اس خطے گلگت بلتستان پر اپنے پنجے گاڑے۔ آج 72 سالوں کے بعد پاکستان اس خطے پر مستقل قبضے یعنی اسے اپنا صوبہ بنانے جا رہا ہے۔
لہذا اس سال سے ہم 16نومبر کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا آغاز کر رہے ہیں کیونکہ یہ دن بھی ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں اسی طرح سیاہ ہے جس طرح 22اور27اکتوبر۔
اس دن کی اہمیت کے پیش نظر تمام ہم وطنوں سے گزارش ہے کہ اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے۔ گلگت بلتستان ، بیرونی ممالک میں موجود تمام ہم وطنوں سے میری گزارش ہے کہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اور یقینا مستقبل میں بھی یہ دن مستقل یوم سیاہ کے طور پر ہی منایا جائے گا۔
موجودہ صورتحال میں 16 نومبر کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ پاکستان آج اس قبضے کو داعمی شکل دینے کی طرف یعنی صوبہ بنانے کی طرف بڑھ چکا ہے جو ریاست جموں کشمیر کو اپنے بڑے بھائی ہندوستان کے آشیر باد سے حتمی شکل دینے کا ایک مرحلہ ہے۔
ہم اس ریاست کے باسی جو اس کی بقا اور وحدت کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اس بندر بانٹ کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے چاہے ہمیں اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔
جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان لداخ ایک مستقل اور ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ ان ساری اکاہیوں کی مشترکہ رائے سے ہو گا۔ عوامی رائے کے بغیر خود ساختہ طور پر جو بھی فیصلے ہوں گے وہ نا پائیدار اور نا قابل قبول ہوں گے۔ چاہے انڈیا لداخ کو اپنی یونین ٹیرٹری میں شامل کرے یا پاکستان اس کو اپنا حصہ بنائے قابض کا قبضہ کسی صورت قبول نہیں ان قابض افواج کو ہمافی ریاست سے نکلنا ہی ہو گا اس کے لیے جدوجہد حتمی فتح تک جاری رہے گی۔
جموں سے گلگت تک اور کشمیر سے لداخ تک ہم سب ایک ہیں ہماری خوشیاں ہمارے غم سانجے ہیں اور اس غلامی کے خلاف مشترکہ جنگ لڑیں گے۔۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *