Main Menu

ریاست جموں کشمیر کی تقسیم اور ہماری تحریک آزادی؛ تحرير: ممتاز یعقوب خان

Spread the love

بچپن میں ہم آزاد کشمیر کی کچی سڑکوں کے کنارے بڑے بڑے پتھروں پر آئل پینٹ اور چونے کی مدد سے سرخ اور سفید حروف میں “بچہ بچہ کٹ مرے گا ، گلگت صوبہ نہیں بنے گا” پڑھا کرتے تھے۔ زمانے نے ترقی کی تو یہی نعرہ سوشل میڈیا پر آ گیا۔

آزادی قربانیاں مانگتی ہے۔ ہمیں آزادی سونے کی طشتری میں فرشی سلام کے ساتھ چاہئیے جو کہ ممکن نہیں تو کٹنا کس نے ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں آزادی کس سے چاہئیے؟ پورا آزاد کشمیر ن لیگ کے شیروں ، پی پی کے جیالوں اور پی ٹی آئی کے ٹائیگرز سے بھرا پڑا ہے جبکہ دوسری طرف جموں اور لداخ میں بی جے پی اور کانگرس کے قائدین اور جوشیلے کارکنان ہی ملیں گے۔ کیا ان تمام جماعتوں کے منشور میں کہیں آزادی نام کا لفظ لکھا ہوا ہے؟ اگر نہیں تو پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام متنازعہ یونٹس کی عوام ان جماعتوں میں شامل ہو کر الحاق کے نعرے کے ساتھ الیکشنز میں حصہ لیتی اور محبوب قائدین کو ووٹ کیوں ڈالتی ہے؟

متنازعہ ریاست جموں کشمیر کا مسلہ کسی ایک یونٹ کا نہیں۔جموں ، لداخ اور وادی انڈین یونین ٹیریٹری کا حصہ بنے تو وادی کی عوام کے علاوہ دونوں یونٹس نے چوں چراں تک نہیں کی۔ وادی کے مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا ، لاک ڈاؤن کرکے قید کر دیا گیا ، باقی یونٹس والے روایتی بیانات یا خاموشی سے زیادہ رد عمل نہ دے سکے۔ آج گلگت بلتستان اگر پاکستان کا صوبہ بننے جا رہا ہے یا بنایا جا رہا ہے تو اس میں گلگت والوں کی مرضی شامل ہے۔

ٹرمپ ، مودی اور عمران خان کی میٹنگ کے فورا بعد مودی نے اپنے زیر انتظام یونٹس کو اپنا حصہ بنا دیا۔ لداخ اور جموں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ گلگتی پاکستان کا صوبہ بننے کے لیے مرے جا رہے ہیں اور وادی والے بے چارے دہائیوں سے الحاق پاکستان کے نعرے لگا لگا کر بھارتی فورسز کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹتے چلے آ رہے ہیں۔

جس طرح دین اسلام ایک ہونے کے باوجود آج امت مسلمہ بریلوی ، دیوبندی اور اہلحدیث کے نام پر تقسیم ہے اسی طرح آزاد کشمیر میں آزادی کا نعرہ لگانے والوں کی قیادت پر نظر دوڑائیں تو ایک ہی نظریے اور نعرے کے باوجود اڑتیس دھڑے بنے ہوۓ ہیں۔ ایک نظریے اور نعرے کے باوجود جو چار آدمی ساتھ نہیں چل سکتے وہ پوری ریاست کو ساتھ لے کر کیسے چلیں گے؟

الحاق پاکستان کے حامی مفادات اور طاقت کے ساتھ ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستانی حکمرانوں کا ہر غلط/صحیح فیصلہ (معاذ اللہ) کسی آیت سے کم نہیں۔ انڈیا کے اعلان کے بعد پاکستانی حکام بیک فٹ پر آتے گئے ، کسی کو جرات نہ ہو سکی کہ ان سے سوال کرے کہ عالی جاہ! گستاخی معاف ، کیا دشمن کے چنگل میں پھنسے مظلوم مسلمانوں کو آزادی مل چکی ہے جو جہاد روک دیا گیا ہے؟ حضور والا! آپ کا اقبال بلند ہو ، کیا وادی والوں نے الحاق پاکستان کا نعرہ لگانا چھوڑ دیا ہے یا پھر وہ اب مسلمان نہیں رہے؟ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ٹرمپ اور مودی نے آپکو ایسا کیا پلا دیا جو آپ نے آن واحد میں ان سوا لاکھ شہداء کی قربانیاں دینے والے ان بے چاروں کو بے یارو مددگار کرکے دشمن کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا؟ آپ تو انکے وکیل تھے ، ننانوے فیصد آبادی پر مشتمل مظلوم مسلمانوں کو مودی جیسے انتہا پسند بھیڑئیے کو سونپ کر یہ کس قسم کی وکالت کر دی؟ یہ ہمارے پکے ٹھکے مسلمانوں کا حال ہے۔

گلاب سنگھیوں کے نزدیک ہندو دنیا جہان کی مظلوم ترین قوم ہے۔ دنیا بھر کے کفار ایک ہی دن میں مسلمانوں کا صفایا کر دیں ، ان کے مطابق غلطی مسلمانوں کی ہی ہوتی ہے۔ نظریاتی نہ سہی انسانی ہمدردی کے ناطے بھی ان کے خلاف انکے لب (بطور دکھاوا بھی) نہیں ہلتے۔ وہ آزاد ریاست کے نعرے کو سامنے رکھ کر علاقائی اور قبیلائی تعصبات کو ہوا دے کر ریاست جموں کشمیر کی عوام کو تقسیم کرنے والے (انڈین ایجنڈے) پر قائم ہیں اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ دنیا کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔

معذرت کے ساتھ جس ریاست کی عوام کے اندر اس قدر لاشعوری ، غداری اور انتشار پایا جاتا ہو ، وہاں سہولت کاری تھوک ریٹس پر ملا کرتی ہے اور جہاں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداریاں پائی جاتی ہوں وہاں آزادی خواب ہی ہوا کرتا ہے۔

لداخ اور جموں کو انڈین یونین ٹیریٹری کا جبری حصہ بنے سوا سال ہونے کو ہے ، وادی کے علاوہ متنازعہ یونٹس سے بچہ تو کیا کسی بڑے کو بھی بولت یا کٹتے نہیں دیکھا۔ روایتی بیانات اور کھوکھلی دھمکیاں کہ جی اب اگر انڈیا انڈیا نے کوئی حرکت کی تو ہم اسے یہ وہ کر لیں گے۔ البتہ اپنے سے کمزور کے ہمارے سامنے لب بھی ہلے تو دس آدمی کے پکڑنے کے باوجود بھی ہم تھمنے والے نہیں۔ (منافقت کی حد)

گلگت بلتستانیوں کی اکثریت خود کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہی نہیں سمجھتی۔ گلگت کو صوبہ بنانے کی بات آۓ تو آزادکشمیری (یشنلسٹ الحاقی تقریبا دونوں ہی)
بچہ بچہ کٹوانے لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف آمنے سامنے/ در پردہ ذاتی مفادات کے لیے الحاقی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے محبوب قائدین کی ووٹ/سپورٹ رہے ہوتے ہیں۔

متذکرہ بالا حقائق اس حقیقت کی دلیل ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کی عوام خود اپنے ساتھ مخلص نہیں ، پاکستان سے شکوے کرنے کا جواز ہی نہیں بنتا۔ اللہ جانتا ہے کہ ہمارے آزاد کشمیری (لم لیٹ) الحاقیوں سے پاکستانی سیاستدان اور عوام لاکھ درجے بہتر ہیں جو وقتا فوقتا حقائق پر کھل کر بیان بازی کرتے اور ہمارے جائز حق کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔

مسلہ ریاست جموں کشمیر اور ریاستی وحدت کی بحالی اور شناخت کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں بلکہ پوری ریاستی عوام کا مسلہ ہے۔ ادھر حالت یہ ہے کہ چار آدمی آزادی کے نعرے لگاتے سڑک پر آئیں گے تو چار سو تماش بین انھیں پٹتے دیکھنے کے لیے جمع ہو جائیں گے اور شام کو گرم بستر میں گھس کر سوشل میڈیا پر (گالیوں ، لعنتوں ، فتووؤں اور غداری کے سرٹیفیکیٹس پر مشتمل) گھمسان کی جنگ شروع ہو جاۓ گی۔ اس نوٹنکی سے بہتر ہے کہ اس قصے کا خاتمہ ہی ہو جاۓ۔

آزاد کشمیری بھائیو! رونے دھونے کا فائدہ نہیں ، ریاست جموں کشمیر کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں آپ سب (ماسواۓ وادی کے تمام متنازعہ یونٹس) کی مرضی شامل ہے۔ باہتر سال سے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے آ رہے ہو ، اب بن رہا ہے تو بننے دو۔

اگر ریاست جموں کشمیر کی عوام کو واقعی آزادی چاہئیے تو باہم متحد ہو کر ایک نعرے نعرےکے ساتھ ریاست گیر ریفرینڈم کا مطالبہ کرے ورنہ جو ہوا یا ہو رہا ہے خوابوں کی دنیا سے باہر آ کر اسے قبول کرلیں۔ بقول سیانے پہیڑے (بے کار) رونے کولا چپ بھلی۔

عمران خان صاحب! ریاست جموں کشمیر کی تقسیم اگر مذہبی بنیادوں پر ہی کرنی ہے تو آپ گلگت بلتستانی اور آزاد کشمیری عوام کی خواہشات کے عین مطابق گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان کے صوبے بنالیں مگر مذہبی تقسیم کے اصول کے عین مطابق ساتھ ہی وادی کے ننانوے فیصد مسلمانوں کو بھی پاکستان کا حصہ بنانا بنتا ہے۔

اگر آپ نے ٹرمپ اور مودی کے دباؤ یا چین کے ساتھ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے “ادھر تم ، ادھر ہم” والا خود غرضانہ کام کیا تو یاد رکھیں کہ وادی کے مظلوم الحاقی مسلمانوں اور وادی میں شہید ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کی قربانیاں آپ کی گردن پر ہونگی جس کے لیے آپکو روز محشر جواب دہ ہونا پڑے گا۔

سی پیک منصوبے کو سبوتاز کرنا امریکہ اسرائیل اور انڈیا تینوں کا کا مشترکہ منشور ہے۔ انڈیا کل آزاد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر دعوی کر دے گا اور عالمی طاقتیں اسے متنازعہ قرار دے دیں گی۔ ٹرمپ اور مودی کے دام میں آ کر آپ ایک بڑی غلطی کر چکے ہیں۔ اب وادی کے بغیر صوبے وغیرہ کی بات کرکے مودی کے غیر آئینی اقدام کو تسلیم کرنے کی غلطی دوبارہ نہیں کرنا ، یہ کبھی آپکو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔ ریاست جموں کشمیر کا پائیدار اور مستقل حل صرف اور صرف ریاست گیر ریفرینڈم اور آزادانہ حق خود ارادیت ہے۔

راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے سابق مشیر حکومت ڈاکٹر حلیم خان صاحب کی اچانک وفات کی اطلاع ملی۔ اللہ تعالی انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *