Main Menu

سرکاری سہوليات سے منعقد ہونیوالی کانفرنسوں کے نتائج کيا ہونگے؟ تحرير: عُمر حيات

Spread the love

سرکار کی سہولتوں سے منقعد کی جانے والی کانفرنسوں اور سیمیناروں سے کیا نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ان کا نفرنسوں کے نتائجپر بات کرنے سے پہلے ان میں شریک پارٹیوں کے ماضی کے کردار اور سیاسی نقطہ نظر پر بات ضروری ہے ۔

کل اسلام آباد کے ایک مہنگے ترین ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے والے لوگوں میں ذیادہ تعداد حکمران طبقے کی تھیجن میں  مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی جے کے پی پی،مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف شامل ہیں ۔ اگر مسلم کانفرنساور پیپلز پارٹی کے موقف پر غور کیا جائے تو مسلم کانفرنس ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی وکالت کرتی آ رہیہے اور مختلف ادوار میں دوران اقتدار پاکستان کی اسٹبلشمٹ کے ساتھ ملکر یا ان کے براہ راست حکم پر ایسے اقدامات اٹھائےہیں اور ایسے قوانین متعارف کر وائے ہیں جو کہ بنیادی انسانی آذادیوں اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں اور ان کو متعارفکر وانے کا واحد مقصد آذادی کی آوازوں کو دبانا اور عام لوگوں کے درمیان آذادی پسندوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنا تھا۔ 1949 میںگلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر یک طرفہ طور پر معائدہ کراچی پر دستخط کئے گئے اور یہ دستخط کرنے والے اس وقتکے صدر ابراہیم خان جن کا تعلق مسلم کانفرنس سے تھا اور دوسرے چوہدری غلام عباس جو اس وقت مسلم کانفرنس کے صدرتھے۔

جس معائدے کو جواز بنا کر پاکستان نے گلگت بلتستان پر قبضہ کیا ہوا ہے اور گزشتہ 73 سالوں میں مسلم کانفرنس کے زعما کا اسمعائدے اور پاکستان کے قبضے پر منہ بند رہا اور مسلم کانفرنس براہ راست اس پروپیگنڈے میں شامل رہی کہ گلگت بلتستان کےعوام ریاست جموں کشمیر کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے ۔ 1992 میں جب ایک رٹ پیٹیشن پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹسعبدالمجید ملک نے فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں اور حکومت فوری طور پر ان علاقوں کا کنڑول لے لےتو اس وقت کی مسلم کانفرنس کی حکومت جس کے وزیراعظم عبدالقیوم خان تھے ۔

سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف رٹ دائر کردی تھی جس سے مسلم کانفرنس کا کردار اس معاملے پر بلکل واضع ہوجاتا ہےلہذا گلگت بلتستان کے معاملے پر مسلم کانفرنس کو ساتھ لے کر کی جانے والی کسی بھی پیش رفت میں مسلم کانفرنس ناقابل اعتبارہے ۔ جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 1974 میں ایکٹ نافذ کیا گیا اور پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو مسلم کانفرنس نے مجرمانہغفلت کا مظاہرہ کیا۔  پیپلز پارٹی پاکستان کے حکمران طبقات کی پہلی براہ راست برانچ تھی جس نے اپنے قیام سے ہی پاکستان کےحکمران طبقے کی مرضی اور منشا کے مطابق کام شروع کیا اور گلگت بلتستان کی طرف نہ توجہ دی اور نہ وہاں کی عوام کو کسی طرح کاریلیف دیا جبکہ وہاں پر ایک پولٹیکل ایجنٹ کے ذریعے نظام حکومت چلایا جاتا رہا ۔

پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں تو لوگ اپنے لئے جمہوریت کی جدوجہد اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے آواز اٹھاتےرہے لیکن اس دور دراز خطے کے عوام کی زندگیوں پر نہ کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی کوئی یکجہتی کا اظہار کیا گیا ۔ جس سے اس خطےکے عوام میں مزید نفرتیں پیدا ہوئیں جن آذادی پسندوں نے اس خطے کی حالت زار پر بات کی یا تو ان کو علاقہ بدر کیا گیا یا گرفتار کرلیا گیا ۔ لیکن اقتدار پرست جماعتوں کی طرف سے اس پر آواز بلند نہیں کی گئی 2009 میں پیلپز پارٹی نے ایک آرڈیننسن کے ذریعےوہاں پر جو اصلاحات کی ان کا مقصد بھی اس کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی راہ ہموار کرنا تھا۔  جس کا اظہار گزشتہ دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کےبلاول زرداری نے اپنے ایک جلسے میں بھی کیا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ گلگت بلتستان کے بارے میں یہ موقفرہا ہے کہ یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں ۔

لیکن پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کی پیپلزپارٹی کے کسی بھی ذمہ دار کو کبھی اس بات پر اپنی مرکزی پارٹی سے بات کرنے کیجرات نہیں ہوئی اسلئے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان کے بارے میں کوئی حکمت عملی بنانا اپنے آپ سے اور اپنے عوامسے دھوکہ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ مسلم لیگ ن کا چہرہ اس بھی بھیانک ہے خود پاکستان میں مسلم لیگ ن جب بھیبرسراقتدار رہی انھوں گلگت کے معاملے پر کوئی سنجیدہ کوششیں کرنے کی بجائے مختلف نوع کی کمیٹیاں بناکر اس کو پاکستان میں ہیضم کرنے کی کوشش کی اور گزشتہ حکومت کے دوران سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے کمیٹی کی سفارشات بھی ایسی ہی تھیں ۔

جبکہ گلگت بلتستان پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر اور اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں قائم تھی اور ان کی موجودگی میںایک انتہائی قابل عمل حل نکالا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ جن لوگوں نے مسلم لیگ ن کا منشور لکھا تھا وہ خود گلگتبلتستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے زیرقبضہ جموں کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے حق میں مختلف فورموں پر دلیلیں دیتے رہے ہیں۔ ان 3 بڑی روایتی جماعتوں کے ساتھ جے کے پی پی اور جماعت اسلامی بھی اقتدار کے ایوانوں کی مکین رہی ہے لیکن انھوںنے بھی اس پر کبھی بات نہیں کی ہے جبکہ تحریک انصاف چونکہ پرانی روایتی سیاسی پارٹیوں کا چربہ ہے اور خود تحریک انصافکے موجودہ صدر پانچ سال تک اقتدار میں رہ چکے ہیں اور اس طرف انھوں بھی کبھی کوئی بات نہیں کی ہے اور اب پاکستان میںاسٹبلشمٹ کی طرف سے وہاں کے عوام پر مسلط کی گئی حکومت نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے ۔

اسلئے یہاں کی تحریک انصاف سے کسی بھی مثبت پیشرفت میں شرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی جبکہ حریت کانفرنس نے بھی ہمیشہپاکستان کی اسٹبلشمٹ کی ہاں میں ہی ہاں ملائی ہے اسلئے ان کا بھی ایسی کانفرنسوں میں آنا اور فوٹو بنوانا ایک معمول کی کاروائی ہےنہ انھوں نے اس معاملے کو سنجیدہ لینا ہے اور نہ ان قوتوں نے ان کی بات کو سنجیدہ لینا ہے جو ان کو تنخواہ دیتی ہیں ۔

اسلئے اس طرح کی لاحاصل اور لایعنی مشق کرنے سے کوئی نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے ایک بات طہ ہے کہ پاکستان کےحکمران طبقات اور اسٹبلشمٹ عالمی سرمایہ داری کے اس خطے میں محافظ اور چوکیدار ہیں اور وہ یہاں کے عوام کے مفادات سےذیادہ اپنے عالمی آقاوں کے مفادات کا ہی خیال رکھیں گے یہ لڑائی عوام کی ہے اور جلد یا بدیر عوام کو اپنی لڑائی خود لڑنے کےلئے نکلنا ہوگا ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *