Main Menu

جبری ناطے ؛ تحرير: کامريڈ محمد الیاس

Spread the love

پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان میں عوام نے جوں جوں جاگنا شروع کیا آزادی اور غلامی میں فرق کو سمجھنا شروع کیا توں توں قابض اور اس کی سہولت کاری کے لیے قائم کردہ کٹھ پتلی ریاست کے گٹھ جوڑ سے سیاسی کارکنوں کی نجات اور آزادی کی آواز کو دبانے کے ہتھکنڈے تیز ہو گئے ہیں۔اکتوبر کا مہینہ تاریخِ ریاست جموں کشمیر میں سیاہ ترین مہینہ ہے،04 اکتوبر 1947 کی فرضی حکومت کا اعلان اسی سازش کو آگے بڑھاتے ہوئے 22 اکتوبر 1947 کو قابض پاکستان کی قباہلی یلغار,24 اکتوبر کو اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر کے 4 اکتوبر کے کرداروں کو ہی اقتدار دیکر عوام پر مسلط کر دینا 26 اکتوبر کو ریاست جموں کشمیر میں اپنی افواج داخل کر دینا جو قبائلی حملہ آوروں کی پشت پر موجود تھی یہ سارے واقعات ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کی بنیاد بنے اور پھر 27 اکتوبر کو مہاراجہ کے مدد مانگنے پر ہندوستانی افواج کا داخل ہونا اور ریاست کا تقسیم اور متنازعہ ہو جانا اکتوبر کے مہینے کو تاریخی اعتبار سے سیاہ ترین مہینہ ثابت کرتے ہیں۔

1947 سے اب تک 73 سالوں میں قابض پاکستان نے اپنے قبضہ گیریت کے عزائم کو دوام بخشنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔اپنے زیرِ قبضہ حصے میں مطالعہ پاکستان کو بنیاد بناتے ہوئے نسل در نسل ریاست جموں کشمیر کے نوجوانوں کو جھوٹی اور بے بنیاد تاریخ پڑھائی ہے۔ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کو غلط ملط انداز میں پیش کرتے ہوئے غلامی کو ہی آزادی ثابت کرنے کا ڈھونگ اب نوجوانوں میں بری طرح بے نقاب ہو رہا ہے۔

73 سال گزرنے کے بعد اکتوبر کے مہینے میں دوبارہ سے قابض ریاست اپنی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے سیاسی کارکنوں کی نجات اور آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبا رہی ہے۔06 اکتوبر جے کے نیپ اور این ایس ایف کے پر امن مارچ پر ریاستی تشدد اور درجنوں کارکنوں کی گرفتاریاں انھیں پابند سلاسل کرنا جمہوری آزادیوں کا گلہ بزور طاقت دبانے کا عملی اقدام پوری دنیا نے دیکھا۔جبکہ 24 اکتوبر کو لبریشن فرنٹ کی جانب سے اسلام آباد کی طرف پر امن آزادی مارچ کے شرکاءکو پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے قدرتی راستوں کو ملانے والے آزاد پتن پل سے پیچھے ہی روک دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق شرکائمارچ نے رکاوٹ والی جگہ پر ہی پرامن دھرنا دیدیا ہے،شرکا دھرنا کہ ساتھ قابض ریاست کیا سلوک کرے گی یہ شرکا دھرنا کے موقف اور عمل کے ساتھ جڑا ہوا سوال ہے۔

کیونکہ پاکستانی ریاست جبری ناطوں کو برقرار رکھنے کے لیے نجات اور آزادی کے موقف اور ایسے کسی عمل کو قبول نہیں کرتی ہے،غلامی کو غلامی کہنے والوں اور غلامی کے بدلے آزادی کی مانگ کرنے والوں کا تعلق خواہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان سے ہو ،بلوچستان،سندھ یا پختونخواہ سے ہو یہ ریاست دہشت گردی کرتی ہے،محسن داوڑ کو کوئٹہ میں روک دیا جاتا ہے،افتخار کربلائی اور بابا جان پر گلگت میں بے بنیاد مقدمات قائم کر لیے جاتے ہیں،سندھیوں بلوچوں کو دن دھاڑے قتل کر دیا جاتا ہے یا جبری طور پر گمشدہ کر دیا جاتا ہے۔نیپ این ایس ایف کے کارکنوں پر چہالہ میں تشدد کیا جاتا ہے تو پختونوں کا وزیرستان میں قتل عام کیا جاتا ہے اور تنویر احمد کو میرپور جیل میں پابندِ سلاسل کرنے کے ساتھ لبریشن فرنٹ کے پرامن مارچ کو پتن کے مقام پر روک دیا جاتا ہے۔

اکیسویں صدی میں یہ فاشیسٹ ریاست کا بھیانک اور انسانیت دشمن کردار ہے۔اس غیر فطری ریاست نے ہر اطراف یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جرائم فاشزم اور دہشت گردی کی بنیاد پر قائم ریاست ہے،جو مظلوم و محکوم اقوام کے ساتھ جبری ناطے قائم رکھنے کے لیے بربریت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کا نقشہ

اس وحشی اور انسانیت کی قاتل ریاست کے بالادست طبقات کو یہ اندازہ نہیں ہے کے اقوام کے درمیان ناطے برابری اور دیانتداری پر مبنی مساویانہ بنیادوں پر پروان چڑھتے ہیں۔جبری ناطے بنتے نہیں ہیں بلکہ جبری ناطے ہمیشہ ٹوٹتے ہیں،محکوم و مظلوم اقوام بلوچستان سندھ پختونخواہ سے جموں کشمیر گلگت تک ان جبری ناطوں کے خلاف لوگ سڑکوں اور چوک چوراہوں میں محوِ احتجاج ہیں جن کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا جب تک کہ ان جبری ناطوں کو توڑ کر فتح مند نہیں ہو جاتے،اب کے بار ہر اطراف لوگ امن نجات اور آزادی کے فلسفے پر حتمی لڑائی کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *