Main Menu

جموں و کشمیر میں ڈوگرہ اصلاحات؛ انتخاب: شوکت تيمور

Spread the love

عہد ہری سنگھ

اُنيس سو پچيس میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کی موت کے بعد اس کے یورپی تعلیم یافتہ بھتیجے راجہ ہری سنگھ نے ریاست کا تخت سنھبالا۔ پیچیدہ سیاسی واقعات، سازشوں اور وسیع تبدیلیوں سے بھرا یہ دور ریاستی تاریخ کا بہترین اصلاحاتی دور کہا جا سکتا ہے۔ پہلے بادشاہوں کی نسبت اس نے بے شمار مشکل فیصلے، تاریخ ساز اقدامات کیے اسے ریاست کا سب سے روشن خیال حکمران کہا جا سکتا ہے جس نے اقتدار سنبھالتے وقت پہلا بیان جاری کیا کہ میرا مذہب انصاف ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی اصلاحات پر ایک نظر

تعلیمی اصلاحات
مہاراجہ ہری سنگھ جنوبی ایشیا کا بہترین تعلیمی اصلاحات کار تھا۔ اس نے ابتدائی و ثانوی تعلیم کو پوری ریاست میں مفت کیا۔ 1930ء میں تمام قصبوں میں لڑکوں کے لیے ابتدائی تعلیم لازمی قرار دی جسے اس دور میں جبری سکول کہا گیا۔ وظائف بورڈ قائم کیا جس سے مستحق طلباء کو اعلی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے ہندوستان و بیرون دنیا حصول تعلیم کے لیے وظائف دئیے گئے، تعلیمی قرضے کی اسکیمیں متعارف کروائیں گئیں۔ (یاد رہے تقسیم کے اہم کردار سردار ابراہیم خان نے بھی ریاستی حکومت کے وظیفے و تعلیمی قرضے سے مستفید ہو کر بار ایٹ لاء کی برطانیہ سے تعلیم حاصل کی)۔ ریاست میں طلباء کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھ کر نئے سکول، کالج، ادارے بنائے گئے۔ اس کے عہد میں پرائمری سکولوں کی تعداد 706 سے 20728 تک جا پہنچی۔ بکر وال طبقے کے لئے گشتی تعلیم کو رواج دیا۔ 1943ء تک جہالت کے خلاف مہم کے تحت تعلیم بالغاں کے چار ہزار مراکز میں 55000 لوگوں کو پڑھایا گیا جن میں 28000 کو سرٹیفکیٹ دئیے گئے ان میں 1457 خواتین بھی شامل تھیں۔ خواتین کے الگ سکولوں کی تعداد 335 تک جا پہنچی جن میں 21067 طالبات نے تعلیم حاصل کی۔ کالجز کی تعداد 2 سے بڑھا کر 11 کر دی گئی۔ پرائمری تعلیم لازمی کر دی جنہیں جبری سکول کہا گیا۔

صحت عامہ اصلاحات
صحت عامہ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال سرینگر میں قائم ہوا ریاست کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ برصغیر کا پہلا ٹی بی سینٹر یہاں قائم کیا گیا۔ اس کے شہروں میں مزید ہسپتال و ڈسپنسریاں قائم ہوئیں اور لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات حاصل ہوئیں۔

جوڈیشل اصلاحات
عدالت عالیہ کا قیام 26 مارچ 1928ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نمبر 1 پر عمل میں آیا اور لالہ کنور سین کو چیف جسٹس جبکہ لالہ بودھا راج اور خانصاحب آغا سید حسین کو جج تعینات کیا گیا، ریاست کی مسلم آبادی کے لئے شریعی قوانین اور قاضی مقرر کئے۔

سماجی اصلاحات
مہاراجہ کا شمار اہنے دور کے عظیم انسانوں میں ہوتا تھا جس نے سماجی مسائل جیسا کہ تشدد، خواتین کے اغوا، بچوں کی شادی، اچھوتوں کی طرف توجہ دی۔ عورتوں کے بھاگنے کو روکنے کے لئے مہاراجہ نے 1926ء اور 1929ء میں دو کمیٹیاں قائم کی جنھوں نے لوگوں کو تعلیم دینے اور جرم کے مجرم کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی، کمیٹی کی دونوں سفارشات کو قبول کیا۔ اس نے لڑکیوں کی شادی کے لیے فنڈ قائم کیا۔ اس نے بچوں کے تمباکو نوشی پر پابندی لگائی۔ اس نے 14 اور 18 سال سے کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی پر پابندی لگائی خلاف ورزی کی صورت میں ایک سال قید اور ہزار روپے جرمانہ رکھا۔ وہ جنوبی ایشیا کا پہلا حکمران تھا جس نے سماجی اصلاحات پر قانون سازی کی۔ عورتوں، بچوں کے اغوا قابل سزا جرم قرار دیا۔ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور جسم فروشی کروانا ممنوع قرار دے کر سزا مقرر کی گئی۔ مہاراجہ نے 1931ء میں اچھوتوں کے لیے قانون سازی کی ان کے لیے تمام سکول، کالج اور کنویں کھول دیئے اور ایک سال بعد سارے مندر کھولے گئے اور 1940ء میں اچھوت سمجھنا جرم قرار دیا گیا۔ اس نے ہندو بیواؤں کی شادیوں پر پابندی ختم کر کے برصغیر میں روایت قائم کی۔ پانی کے ذخائر سرکاری ملکیت قرار دئیے گئے تاکہ کوئی کسی کا پانی نہ روکے اسی طرح انسان اور جانور کے گزرنے کا راستہ سرکار کی ملکیت قرار دیا گیا تاکہ کوئی کسی کا راستہ نہ بند کر سکے۔ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر پابندی لگائی گئی۔
مسلم تہواروں میں شرکت کی اور ان کے مذہبی ایام پر ریاست میں عام تعطیل کی۔

مواصلاتی اصلاحات
مہاراجہ نے ریاست کے سارے اہم شہروں، قصبوں کو ٹیلی گراف، ٹیلیفون اور وائرلیس کے جدید نظام سے منسلک کیا۔ ریاست کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے پل، سڑکیں، سرنگیں، ہائیڈرو پاور سٹیشن تعمیر کروائے اور سیلاب کنٹرول کا محکمہ بنایا۔

دیہی ترقی اصلاحات
مہاراجہ نے گاؤں کی پنچایت کو مضبوط کیا جو وہاں دیہی زندگی کے جھگڑوں کو نمٹاتے تھے اور 1937ء میں محکمہ دیہی ترقی قائم کیا گیا۔ پنچایتوں کو دیہی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔

معاشی اصلاحات
صنعت و تجارت کی ترقی پر توجہ دی گئی بہت سارے ٹیکس ختم کیے گیے۔ ریاستی حکومت نے مقامی مصنوعات خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ مہاراجہ ریاست کو صنعتی ریاست بنانے کے لیے پر عزم تھا۔ ماچس، ٹینٹس، قالین، لکڑی کے کام، کرافٹ، سلک، گھریلو مصنوعات، خوراک کے چھوٹے یونٹ اس کے دور میں قائم کیے گئے۔ مہاراجہ نے 1938ء میں جموں و کشمیر بنک قائم کیا اس کی شاخیں، سرینگر، جموں اور دوسرے شہروں میں کھولی گئیں۔ ان اقدامات نے کاروبار و صنعت کو فروغ دیا اور زندگی بہتر ہوئی۔ ریاستی حکومت نے جموں میں ایک چھوٹی ریشم فیکٹری قائم کی جس کا پیداواری یونٹ سرینگر میں لگایا، اس کو اس کے اصل حجم سے چار گنا تک بڑھایا گیا بڑی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم ملا۔ 1941ء میں کشمیر اور پھر جموں میں صنعتی مراکز نے ریاستی مصنوعات کو پروموٹ کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے اناج، گندم، چاول کی قیمتوں کے کنٹرول پر خصوصی توجہ دی۔ تیل اور چینی جیسی بنیادی ضروریات بھی مہیا کی گئیں۔ ایک خصوصی محکمہ بنایا گیا جس کے ذمہ قیمتوں کا تعین اور مساوی تقسیم تھی۔ مہاراجہ نے غربت کے خاتمے کے لئے بھی ایک فنڈ قائم کیا۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی فائل فوٹو۔

سیاحتی اصلاحات
سیاحت کی طرف خصوصی توجہ دی گئی چونکہ جموں و کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے جانا جاتا تھا۔ 1931 -32ء میں 8604 سیاحوں نے ریاست میں تفریح کی اور 1936 -37ء میں یہ تعداد 24659 تک جا پہنچی۔ جس سے مقامی باشندوں اور محکمہ سیاحت دونوں کو فائدہ ہوا حکومت نے اسے مزید ترقی دینے کی منصوبہ بندی کی۔ سرینگر، پہلگام، گلمرگ جیسے مقامات کو خوبصورت بنانے کے لیے متعدد سکیمیں شروع کی گئیں۔

زرعی اصلاحات
مہاراجہ نے زراعت کے شعبے کو جدید بنانے کے لئے غیر معمولی توجہ دی ہے اس نے زرعی ریلیف ایکٹ بنایا جس سے قرض دینے والے کو حق ملا کہ وہ نادہندہ کو عدالت لے جائے۔ اس قانون نے کاشتکاروں اور دیہی مزدوروں کے لیے آسانی پیدا کی کہ وہ زمینداروں اور آجروں سے پیسہ لے سکیں۔ ایک قانون لایا گیا جس کے تحت زرعی زمین کی غیر زمیندار کو منتقلی پر پابندی لگا دی گئی زمینداروں کو زمینوں کے ملکیتی حقوق دئیے گئے، ٹیکسوں، نذرانے اور مالکانے سے استثناء دیا گیا۔

زرعی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے چیچری ایکٹ نافذ کیا گیا۔ ریاستی حکومت نے قسطوں پر دیہی معشیت، مال مویشی، زرعی اراضی کی بہتری کے لیے قرضہ جات آسان شرائط پر فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ بنا زمین کے دیہی آبادی اور کاشت کاروں کو خالصہ زمین مالکانہ حقوق پر لینے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جانوروں کی بہتری کے لئے سندھی اور دانی نسل کے بیلوں کی بڑی تعداد کاشتکاروں میں تقسیم کی گئی۔ زمین کی تصفیہ کی مدت چالیس سال تک بڑھا دی گئی تھی بیگار کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ زراعی شعبے کی سرگرمیاں جو ابتدائی طور پر کشمیر کے صوبے میں محدود تھیں کو جموں اور دیگر شمالی صوبوں تک بڑھایا گیا۔

سیاسی اصلاحات
اُنيس سو چونتيس میں مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلی قانون ساز اسمبلی پرجا سبھا قائم کی۔ یہ 75 اراکین پر مشتمل تھی جس میں 16 سرکاری اہلکار، 16 سٹیٹ کونسلر، 14 نامزد اور 33 منتخب نمائندے تھے۔ 33 منتخب نمائندوں میں 21 مسلم، 10 ہندو اور 2 سکھ تھے۔ مسلم کانفرنس نے پرجا سبھا کے پہلے انتخابات میں 21 میں سے 14 سیٹیں جیتیں جبکہ 1936 میں یہ تعداد 19 تک جا پہنچی اور ریاست کی بڑی سیاسی جماعت کہلائی۔ 1939ء میں شیخ محمد عبداللہ نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی جسے بہت زیادہ پذیرائی ملی۔

اس نے مطالبہ کیا کہ پراجھا سبھا کو زیادہ اختیار دیئے جائیں اور ایک مشترکہ انتخابی بالغ رائے دہی کے ذریعے تمام اراکین کا انتخاب کیا جائے جس میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں موجود ہوں۔ 1939ء میں عوامی مطالبے کے احترام میں پر جا سبھا کی نشستوں کی تعداد 33 سے 40 کر دی گئی اختیار میں اضافہ ہوا غیر سرکاری اراکین حکومت کے ساتھ کام کرنے کے کیے زیادہ منسلک ہوئے۔ پرجا سبھا کو ریاستی باشندوں کی بہبود، ٹیکسوں، جرمانے، فیس کے بارے میں قانون سازی اور حکومتی بجٹ پر ووٹ کرنے کا اختیار دیا گیا اکتوبر 1944ء میں اس کو مزید با اختیار بنایا گیا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے اعلان کیا کہ پرجا سبھا جموں، کشمیر اور سرحدی علاقہ جات سے 6 رکنی پینل بنائے جس میں سے تین مسلمان ہوں اور وہ اس پینل میں سے اپنے دو اراکین کو وزیروں بنائے گا جس میں سے ایک مسلمان ہو گا۔ اسی بنیاد پر افضل بیگ اور گنگا رام کو بعد میں وزارتیں ملیں۔
قانون باشندہ ریاست
شہریت کا منفرد قانون وہ کارنامہ ہے جس نے مہاراجہ ہری سنگھ کو تاریخ میں امر کر دیا اسی وجہ سے تقسیم و غلامی کے بعد بھی ریاست کی انفرادیت قائم رہی۔ 26 اپریل 1927ء کو نافذ ہونے والے اس قانون نے نہ صرف ریاستی باشندوں کے حقوق محفوظ کیے بلکہ انہیں الگ پہچان دی۔ 27 جون 1932ء کو اس میں مزید ترمیم کی گئی سٹیٹ سبجیکٹ قوانین کے تحت کوئی بھی باشندہ جو مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سے ریاست میں مقیم تھا وہ ریاست کا شہری شمار ہوا اور ریاستی باشندوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے غیر ریاستی باشندوں کی ریاست میں جائیداد خریدنے، شہریت لینے، سرکاری وظیفے لینے اور سرکاری ملازمت پر روک لگی۔ ریاست کے لوگوں کو ریاستی شہریت دی گئی، ریاست سے باہر بھی جانے کی صورت بھی دو نسلوں تک ان کی ریاستی شہریت کو برقرار رکھا گیا۔ اس قانون نے باشندگان جموں و کشمیر کو خصوصی حقوق دیئے ان کی اپنی زمین پر ملکیت مستحکم ہوئی اور تعلیم، ملازمتوں کے حقوق محفوظ ہوئے۔ یہ ایک مکمل امیگریشن قانون بھی تھا۔ اس قانون نے تہتر سال تک ریاست کو پاکستان و ہندوستان کا مال غنیمت نہیں بننے دیا اسی ریاست کے باشندگان کی ریاست دشمنی کے باعث پہلے 1974ء میں گلگت و بلتستان میں پاکستان نے اسے معطل کیا اور بالاخر 5 اگست 2019 ء کو ہندوستان اس پر سرعام ہاتھ صاف کر گیا۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *