Main Menu

عقل والوں کیلیے نشانیاں ہیں؛ تحرير: اسد نواز

Spread the love

ہم نے شروع دن سے کہا کہ یہ جو تحریک آزادی کشمیر ہے یہ ایک غاصب ملک کی پراکسی جنگ ہے یہ ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کی قومی آزادی کی جنگ نہیں۔ایک قابض کبھی وکیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ آپکو آزادی لیکر دے گا،اسکے اپنے مفادات اور مقاصد ہیں جیسے ہی اسکے یہ مفادات پورے ہونگے وہ آپکو کوڑا دان میں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دے گا۔وقت نے سب کچھ سچ ثابت کیا۔پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد اور اب کھلم کھلا صوبے بنانے کی باتوں کے بعد شک و شبے کی گنجائش نہءں رہی ۔لاکھوں انسانوں کے قتل،گھر بار کی تباہی اور بربادی کے بعد آج اس وکیل کا کردار سامنے آ چکا ہے۔ہمارا کل بھی دعویٰ تھا اور آج بھی دعویٰ ہے کہ جب تک ریاست کی تمام منقسم اکائیوں کے اندر بیک وقت قابضین کے خلاف جدوجہد نہیں کی جاتی اور ایک ہی آواز بلند نہیں ہوتی تب تک نہ ہی ہماری وحدت بحال ہوگی اور نہ ہی کوئی ملک ہماری آواز پر توجہ دے گا۔دیر سے ہی سہی لیکن وہ وقت آن پہنچا ہے۔قابضین کے اقدامات کے نتیجہ میں ہی اس وقت ریاست کی تمام اکائیوں میں بالعموم اور دو اکائیوں جعلی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوامی بیداری اور شعور کی تحریک جنم لے چکی ہے۔اسکو درست سمت میں آگے لے بڑھانے کی ضرورت ہے۔گلگت بلتستان اور آزادکشمیر ریاست جموں کشمیر کی دو الگ الگ اکائیاں ہیں ، دونوں کی دو باختیار اسمبلیاں اور ان پر مشتمل ایک پارلیمنٹ یا سینٹ کا قیام اور اسکے بعد اگلے مرحلے پر جموں،کشمیر اور لداخ کی بااختیار اسمبلیاں ،ان تمام اکائیوں کے درمیان برابری کے اصول پر ایک نیا عمرانی معاہدہ اور ایک آزاد ریاست کا قیام ۔یہی واحد حل ہے جو بہتر سالہ غلامی اور تقسیم کو ختم کر کے ہماری وحدت کی بحالی کا راستہ ہے۔تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اس کیلیے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں بس عوام باہر نکلیں احتجاج کریں اور دھرنے دیکر بیٹھ جائیں۔اگلے مرحلے پر سول نافرمانی شروع کر دی جائے، ان مقاصد کو قابض ممالک کے عوام تک پہنچایا جائے،ان ریاستوں میں اتنی سکت نہیں کہ یہ اتنا دباو برداشت کر سکیں۔انکے پاس دو ہی راستے ہونگے یا ہمیں آزادی دیں یا ہم پر ایٹم بم ماریں۔ انکو آزادی ہی دینا پڑے گی۔بس ہمیں اعتماد ،یقین ،دلیر ی اور حوصلے کے ساتھ ثابت قدم رہنا ہو گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *