Main Menu

کراچی: گلگت بلتستان یوتھ الائنس کا گلگت بلتستان کے سیاسی اسیران کی رہائی کے حق میں احتجاجی مظاہرہ

Spread the love

گلگت بلتستان سات دہائيوں سے خطہ بے آئين رکھا گيا، سانحہ علی آباد کے قاتلوں کو فوری گرفتار کيا جائے، جوڈیشل انکوائری کمیشن کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

گلگت بلتستان یوتھ الائنس کراچی کا گلگت بلتستان کے سیاسی اسیران کی رہائی کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کيا گيا۔ تفصيلات کے مطابق آج کراچی پریس کلب میں گلگت بلتستان ہوتھ الائنس کے بینر تلے گلگت بلتستان کے سیاسی اسیران کی رہائی کے لئے اور ہنزہ علی باد میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری دھرنے کی حمایت اور یکجہتی میں احتجاجی مظاہرہ رکھا گیا۔ احتجاج میں کراچی میں مقیم خطہ بے آئین گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو گزشتہ 7 دہائیوں سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور اگر کوئی فرد اپنے بنیادی انسانی حق کے لئے آواز اٹھائے تو اسے نشان عبرت بنانے کی سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں۔ ہنزہ میں اسیران کا مسلہ بھی حق کی آواز بلند کرنے والے ہنزہ کے نوجوانوں کو دیوار سے لگانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔

گلگت بلتستان یوتھ الائنس کراچی کی جانب سے جاری پريس ريليز ميں بتايا گيا کہ دس سال قبل2010 میں ہنزہ کے بالائی علاقے گوجال عطا آباد میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں مصنوعی جھیل بنی تھی جس کی زد میں آ کر تین گاوں زیر اب آگئے، لوگوں کے زمین، مویشی مکان و جائیداد سب پانی کے نذر ہو گیا اور 20 افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔ جھیل کے متاثرہ خاندان اپنا گاوں چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ ان متاثرین کے لئے حکومت کی طرف سے معاوضے کا اعلان کیا گیا مگر وہ ایک سیاسی اعلان اور ہمدردیاں لینے کا ذریعہ ہی رہا۔ 11 اگست 2011 کو اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعلی کے دورہِ ہنزہ کے دوران علی آباد میں متاثرین عطاآباد نے اپنے معاوضے کے حق کے لئے احتجاج کیا، احتجاج کے دوران پولیس کی طرف سے متاثرین پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک باپ اور بیٹا شیر اللہ اور شیر افضل کو شہید کیا گیا۔ دن دہاڑے دو افراد کی شہادت پر عوام مشتعل ہوگئی اور اسی اشتعال کے دوران پولیس تھانہ بھی نذر آتش کیا گیا اور اسی بنیاد پر ہنزہ میں ریاستی کریک ڈاون ہوا اور سینکڑوں نوجوانانِ ہنزہ کو جیلوں میں بند کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں کچھ افراد کو چھوڈ دیا گیا مگر 14 اسیران ہنزہ گزشتہ 9 سالوں سے عمر قید کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مقامی عدالتوں نے ان 14 اسیران پر کوئی ثبوت، گواہ نہ ہونے کی بنیاد پر کیس سے بری بھی کیا ہے مگر ڈمی اپیلیٹ کورٹ اور دہشت گردی کورٹ کو ڈرا دھمکا کر اس کیس کی شنوائی گزشتہ 4 سال سے ہونے نہیں دی جا رہی ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے سے اسیران رہائی کمیٹی کی کال پر ہنزہ میں تمام پیر و جواں مرد و زن دن رات دھرنے پر ہیں۔ گلگت بلتستان یوتھ الائنس کراچی عوامِ ہنزہ و گلگت بلتستان سے یکجہتی میں اپنےمندرجہ ذیل مطالبات حکومت و ریاست کے سامنے رکھتی ہے۔

٭ – سانحہ 11 اگست 2011 کے تمام اسیران کو فی الفور اور غیر مشروط رہا کیا جائے
٭ – سانحہ علی آباد کے شہید باپ بیٹے شیر اللہ اور شیر افضل کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے قانونی کاورائی کی جائے۔
٭ – سانحہ علی آباد کی جوڈیشل انکوائری کمیشن کو منظر عام پر لایا جائے۔

کراچی: بلتستان یوتھ الائنس کے زير اہتمام پريس کلب کے سامنے مظاہرہ کيا جا رہا ہے۔

مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں اسیران رہائی کمیٹی کی کال پر پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں احتجاجی سلسلے کو تیز کیا جائے گا۔

الائنس میں شامل تنظیموں کے نام آل بلتستان مومنٹ، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان، بالاورستان نیشنل سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، قراقرم نیشنل مومنٹ، بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان، گلگت بلتستان اویرنس فورم، بگروٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور کے ٹو نیشنل یوتھ فیڈریشن ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *