Main Menu

اسلام آباد: آل پارٹيز کانفرنس کا انعقاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا تحريک شروع کرنے کا اعلان

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

گزشتہ روز پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کيا گيا جس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل دینے کا اعلان کيا گيا۔ جس کا مقصد حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانا ہو گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم)، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما شریک ہوئے ۔

کانفرنس کا اعلامیہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پڑھ کر سنایا اور حکومت کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اعلاميہ میں وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔

مولانا کا کہنا تھا کہ آئین پر یقین رکھنے والی اپوزیشن کی جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت کی اور تحریک کو ‘پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ’ کا نام دیا گیا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس سے لندن میں موجود مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف ، سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔

مشترکہ اعلامیے ميں اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کے لیے ایکشن پلان بھی جاری کیا گيا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران احمد نیازی سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔

متحدہ اپوزیشن ملک گیر تحریک کے آغاز کا اعلان کرتی ہے

وکلا، تاجر، کسان، مزدور، طالبعلم، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو اس تحریک کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا۔

اکتوبر 2020 کے پہلے مرحلے میں صوبائ سطح پر مشترکہ جلسے منعقد اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔

دسمبر 2020 سے دوسرے مرحلے میں بڑے احتجاجی عوامی مظاہرے ہوں گے اور عوام کے ساتھ مل کر بھرپور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔

جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ ہو گا۔

سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لیے پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری، سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کرے گی جن میں عدم اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی شامل ہے۔

اجلاس میں 27نکاتی قرارداد منظور کی گئ ۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں منظور کردہ قراردادیں پڑھ کر سنائیں جس کے نکات درج ذیل ہیں۔

1 – آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام پر یقین رکھنے والی قومی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ‘پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ’ کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے، یہ اتحادی ڈھانچہ عوام اور غریب دشمن حکومت سے نجات دلانے کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم انداز میں چلائے گا اور رہنمائی کرے گا۔

2 – اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت کو مصنوعی استحکام اس اسٹیبلشمنٹ نے بخشا جس نے اسے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اسے عوام پر مسلط کیا، اجلاس نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں بڑھتے ہوئے عمل دخل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے ملک کی سلامتی اور قومی اداروں کے لیے خطرہ قرار دیا، اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ہر قسم کی مداخلت فوری طور پر بند کرے، اسٹیبلشمنٹ کے تمام ادارے آئین کے تحت لیے گئے حلف اور اس کی متعین کردہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں۔

3 – اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں شفاف، آزادانہ، غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے، اس مقصد کے حصول کے لیے فی الفور انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔

4۔ سلیکٹڈ حکومت نے ریکارڈ توڑ مہنگائی، مہنگائی، بیروزگاری، ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے،، یہ اجلاس، آٹے چینی، گھی، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو فوری کم کر کے اعتدال پر لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

5 – سلیکٹڈ حکومت کی ناکام پالیسیز کے نتیجے میں تباہ حال معیشت پاکستان کے دفاع، ایٹمی صلاحیت اور ملک کی باوقار خودمختاری کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔

6 – اجلاس اعادہ کرتا ہے کہ 1973 کا آئین، 18ویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ قومی اتفاق رائے کا مظہر ہیں، ان پر حملوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا اور ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

7 – اجلاس میں ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ادارے کو رد کرتا ہے اور وفاقی پارلیمان جمہوریت کو پاکستان کے تحفظ کا ضامن سمجھتا ہے، اجلاس دوٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی پر کوئی آنچ نہیں آںے دی جائے گی اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتا کیا جائے گا۔

8 – یہ سلیکٹڈ حکومت ‘سقوط کشمیر’ کی ذمے دار ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور عالمی قانون کے منافی مودی سرکار کا عمل، پاکستان کی موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔

9 – اجلاس سلیکٹڈ حکومت کی افغان پالیسی پر مکمل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

10 – اجلاس میڈیا پر تاریخ کی بدترین پابندیاں لگانے، دباو¿ اور سینسرشپ کے ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن سمیت تمام دیگر گرفتار صحافیوں، میڈیا پرسنز کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف غداری اور درج دیگر بے بنیاد مقدمات خارج کیے جائیں، اجلاس نے عزم ظاہر کیا کہ شہریوں اور میڈیا کی آزادیوں کو چھیننے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

11 – اجلاس سیاسی قائدین، رہنماو¿ں اور کارکنان کے خلاف سیاسی انتقال پر مبنی بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے، ان کی گرفتاریوں اور قید و بند کی صعوبتوں کی شدید مذمت اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے، اجلاس سید خورشید شاہ اور حمزہ شہباز سمیت سیاسی انتقام کا سامنا کرنے والے تمام قائدین اور کارکنان کی جرات، بہادری اور استقامت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

12 – اجلاس نے قرار دیا کہ نیشن ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اجلاس ملک میں امن و امان کی بگڑتی اور سنگین ہوتی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی آئینی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، اجلاس اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ فرقہ ورانہ تناو¿ میں اضافے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس معاملے پر حکومت کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کی شدید مذمت اور گہری تشویش ظاہر کرتا ہے، اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے۔

13 – سی پیک قومی معیشت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، نااہل، کرپٹ اور ناتجربہ کار حکمرانوں نے سی پیک کو رول بیک کر کے اس کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے، اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار فی الفور تیز کی جائے، مغربی روٹ پر موٹر وے اور ریلوے پنگامی بنیادوں پر تعمیر کی جائے۔

14۔ سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے توقیر اور بے وقعت کر کے مفلوج کر دیا ہے، عوام کے آئینی، بنیادی، قانونی اور انسانی حقوق کے منافی قانون سازی بلڈوز کی جارہی ہے اور اپوزیشن کی آواز دبائی جا رہی ہے آج کے بعد ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی، اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ غیرآئینی، غیرجمہوری، غیرقانونی اور شہری آزادیوں کے منافی قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے، میڈیکل کمیشن سمیت بلڈوز کر کے جو قانون سازی کی گئی ہے اسے واپس لیا جائے۔

15 – اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان میں مقررہ وقت پر صاف، شفاف اور بغیر کسی مداخلت کے انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کے بعد قومی اتفاق رائے سے گلگت بلتستان کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں، اجلاس قرار دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کا علاقہ بہت حساس ہے، وہاں انتخابات میں ایجنسیز کی مداخلت ختم کی جائےتاکہ کوئی بھی ان انتخابات کی شفافیت پر اعتراض نہ اٹھا سکے، اجلاس نے فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کے انتخابی عمل پر گہری نظر رکھی جائے گی۔

16 – اجلاس نے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقہ جات کو نوگوایریاز بنا دیا گیا ہے، یہ سلسلہ ختم کیا جائے، اجلاس نے خیبر پختونخوا میں نجی جیلوں کے قیام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پشاور ہائی کورٹ ان غیرقانونی نجی جیلوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔

17 – اجلاس نے منصف مزاج، غیرجانبدار ججوں کو ریفرنسز اور بے بنیاد مقدمات کے ذریعے جکڑنے اور آئین، قانون اور انصاف کے منافی فیصلے کرانے کے لیے دباو¿ کے ہتھکنڈے استعمال کرانے کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی، اجلاس نے قرار دیا کہ یہ تمام واقعات آئین کے تحت غیرجانبدار اور آزاد عدلیہ کے تصور کے لیے سنگین دھچکا اور ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں۔

18 – اجلاس نے پاکستان بار کونسل کی مورخہ 17ستمبر 2020 کو منعقدہ اے پی سی منظور کردہ قرارداد کی توثیق کرتے ہوئے قرار دیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار ایک آزاد عدلیہ کی راہ میں رکاوٹ ہے ، اس ضمن میں پاکستان بار کونسل کی اے پی سی میں منظور کردہ متفقہ قرارداد کے نکات پر عمل کیا جائے۔

19 – اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی روشنی میں احتساب کا نیا قانون بنایا جائے اور ملک کے تمام اداروں اور افراد کا خواہ ان کا تعلق عدلیہ یا ڈیفنس سروسز، یا بیورو کریسی یا پارلیمان سے ہو ، ایک ہی قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے۔

20 – اجلاس نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی اطلاعات و چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کے بارے میں سامنے آنے والی حالیہ رپورٹ کی مکمل اور شفاف تحقیقات اسی طریقہ کار کے مطابق کی جائے جو ملک کے دیگر سیاست دانوں سے متعلق اپنایا گیا ہے، تحقیقات جب تک مکمل نہیں ہو جاتی، انہیں عہدہ سے برطرف کیا جائے۔

21 – اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو مسنگ پرسن بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور پہلے سے مسنگ پرسنز کو قانون کے مطابق عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔

22 – اجلاس نے پنجاب میں آئینی و قانونی مدت کی تکمیل سے قبل بلدیاتی ادارے ختم کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں فی الفور بحال کیا جائے، اجلاس ملک میں غیرجماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات مسترد کرتا ہے۔

23 – اجلاس حکومت کی اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی مذمت کرتا ہے، مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی جامعات کی مالی مدد کی جائے اور فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے۔ 24 – اجلاس آغاز حقوق بلوچستان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

25 – اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان میں سول حکمرانی کا احترام ‘ایف سی’ کی جگہ سول اتھارٹی کو بحال کیا جائے، ہر ضلع میں ایف سی کی قائم کردہ رکاوٹیں ختم کی جائیں۔

26 – اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ہر ضلع میں ‘ٹروتھ کمیشن’ بنایا جائے جو 1947 سے اب تک کی پاکستان کی حقیقی تاریخ کو دستاویز کی شکل دے۔

27 – اجلاس نے فیصلہ کیا کہ چارٹر آف پاکستان مرتب کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جائے جسے یہ ذمے داری سونپی جائے کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے ایسی ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے جس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات اور 1973 کے دستور کی روشنی میں پاکستان کی جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر واضح سمت متعین ہو۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *