Main Menu

نئے عوامی رحجانات اور عقیدت مندی کا شکار نقطہ نظر؛ تحرير: آفتاب احمد

Spread the love

دنیا کے ہر انسان کاسماج،کائنات اور سماجی مسائل کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک نقطہ نظر ہے، وہ نقطہ نظر سائنسی بھی ہو سکتا اور غیر سائنسی بھی۔سائنسی نقطہ نظر چیزوں کا درست تجزیہ کرکے انھیں اجتماعی فائدے کے لیے آگے بڑھانے کی جدوجہد کرتا ہے جبکہ غیر سائنسی نقطہ نظر مخصوص خول میں بند ہوکرذاتی،گروہی فائدے،رجعت پسندی اور تعصبات کے تحت سماج کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی سماجی تبدیلی کی تحریک کی محرک قوتیں بھی انہی دو نقطہ نظر میں سے کسی ایک کی نمائندگی کررہی ہوتی ہیں۔اور ان دونوں نقطہ نظر کے درمیان کشمکش آج سے نہیں ہے بلکہ بہت قدیم ہے جب انسانی سماج طبقوں میں بٹا تو یہ کشمکش بھی شروع ہوگئی تھی۔ جیسے ان دونقطہ نظر کے اندر بھی مختلف رحجانا ت آپس میں متصادم رہتے ہیں۔اسی طرح سماجی تبدیلی کی وہ تحریک جو سائنسی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے،سماجی تبدیلی کی محرک قوت عوام کو سمجھتی ہے۔اور ا س کااس بات پر بڑا واضح موقف ہوتا ہے کہ سماجی تبدیلی کے لیے عوام کی سرگرم شرکت لازم ہے اور عوام ہی تبدیلی لا سکتے ہیں،اور اس جدوجہد میں عوام کی شرکت اور فتح پر یقین ہوتا ہے۔جبکہ غیر سائنسی نقطہ نظر کی تحریک عوام کو ناکارہ،بیکار معذور،حقیر اور بے صلاحیت سمجھتی ہے اور اس کے نزدیک تبدیلی ایسی کوئی پروڈکٹ ہے جس کو اس نے کسی سے چھین کر یا وصول کر کے اس معذور،حقیر اور بے صلاحیت عوام کو احسان کے طور پر دینی ہے کیونکہ وہ عوام کو سما ج تبدیلی کی جدوجہد کے قابل نہیں سمجھتی ہے۔ان کے نزدیک سماجی تحریکوں میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ان کے نزدیک عوا م ایک بے جان قوت ہیں۔یعنی وہ خود کو برتر اور عوام کو کمتر سمجھتی ہے۔اسی طرح سماجی تبدیلی کے تحریکوں کے لیے متحریک تنظیمیں بھی انہی دو نقطہ نظر کے گرد گھومتی ہیں۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اگر کوئی تنظیم سائنسی نقظہ نظر رکھتی ہے تو وہ سائنسی ہوگئی ہے بلکہ اسکی سرگرمی اور عمل اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ اس سائنس کو سمجھ بھی پارہی ہے یا عقیدت مندی کے باعث محض لفظوں سے رومانس رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کشمیری سماج ہو یا یورپ افریقہ،ایشاء یا دیگر عوام اپنی بے چینی،اور موجودہ نظام سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کررہی ہے افریقہ میں بے روزگاری،رہائش،صحت،غربت اور طبقاتی تقسیم کے خلاف کئی تحریکیں موجود ہیں جو خود رو انداز میں عوام کی مختلف پرتیں چلا رہی ہیں،اسی طر ح امریکہ اور یورپ اور ایشاء میں بھی موجودہ نظام کے خلاف عوام کسی نہ کسی شکل میں خود رو انداز میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔کشمیر کے تینوں حصوں میں بھی عوام اسی طرح کی بے چینی و بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ہم یہاں صرف آزادکشمیر کو مثال بنائیں گئے جہاں اس وقت ہر چھوٹے بڑے شہر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ،تعلیمی اداروں کی عمارات،سڑکوں اور دیگر حقوق کی تحریکیں خود رو انداز میں موجود ہیں جن میں اس سماج کی مختلف پرتیں اپنے اپنے طور پر منظم کیئے ہوئے ہیں۔ یہ رحجان آج ترقی یافتہ معاشروں سے لیکر کشمیر جیسے پسماندہ معاشرے میں نظر آرہا ہے۔اور ان حقوق کی تحریکوں پر بڑے پیمانے پر بحث مباحثہ بھی موجود ہے کہیں یہ نقطہ نظر اپنا یا جا رہا ہے کہ ہمیں موجودہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کرنے کی بجائے انسانی حقوق کی تحریکوں کو کو فروغ دینا چاہیے اور کئی یہ نقطہ نظر بھی آرہا ہے کہ ان حقوق کی تحریکوں کے ذریعے ہی عوام کی نہ صرف تربیت کی جاسکتی ہے بلکہ منظم کر کے ہی بالادست طبقات کیخلاف کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں بھی بعض اوقات ابہام کی وجہ سے قومی و طبقاتی جبر جیسی دوہری غلامی کا شکار معاشروں میں جدوجہد کا توازن کھو جاتا ہے۔کیونکہ تبدیلی کی محرک قوتیں جب جمہوری حقوق کی جدوجہد میں کودتی ہیں تو وہ عوام پر اعتماد کرنے کی بجائے خود اس حد تک ملوث ہوجاتی ہیں یا اسے اپنی ذاتی لڑائی بنا کر عوام سے کٹ کر رہ جاتی ہیں جس کے نتیجے کے طور پر وہ حکمران طبقہ اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں سماج میں مذاق بن کر رہ جاتی ہیں۔اور عوام تماشائی بن کررہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ جمہوری حقوق کی جنگ میں کود کر بڑے مقصد سے ہٹ جاتی ہیں اور چھوٹی لڑائی کو حاوی کرلیتی ہیں۔یہ دوہری لڑائی اسی صورت میں لڑی جاسکتی ہے جب تنظیموں کی فکری سطح بلند ہو۔جس کے تحت ان تنظیموں کو اپنے مقاصد،اہداف اور حکمت عملی کا علم ہو اور توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں ؎۔جب وہ کلیئر ہوں تو جمہوری حقوق کی تحریکوں کو حکمت عملی کے ساتھ طبقاتی تضاد کو ابھارنے کے لیے استعمال کریں گی اور اسی طبقاتی تضاد کی بنیاد پر عوام کو قومی تضاد کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو سکیں گی۔ یہ تو خیر سائنسی نقظہ نظر کے اندر مختلف رحجانات پر فلسفیانہ بحث مباحثہ ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کشمیر سمیت دنیا بھر میں عوام موجودہ نظام کے جبرو استحصال کے خلاف بڑے پیمانے پر خود رو انداز میں نفرت اور بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔لیکن سماجی تبدیلی کی دعویدار تنظیمیں اس عمل کے ساتھ کہیں بھی اس طرح کی جڑی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔ان کے اور عوام کے درمیان ایک فاصلہ ہے۔ہم یہاں آزادکشمیر کی اس بات کو بحث بنائیں گئے جہاں اس وقت لوڈ شیڈنگ،بجلی نرخوں،سڑکوں،تعلیمی اداروں سمیت دیگر حقوق کی تحریکیں بڑے پیمانے پر ہر ضلع اور شہر اور گاؤں کی سطح تک موجود ہے۔لیکن آزادکشمیر میں ترقی پسند اور نہ ہی قوم پرست عوام کی ان تحریکوں سے کوئی جڑت نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں نقطہ نظر ابہام کا شکار ہیں۔اور وہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے ساتھ شعوری بنیادوں پر نہیں بلکہ عقیدت مند ی کے باعث جڑے ہوئے ہیں۔اور اسی عقیدت مندی کے باعث وہ ایک خول میں بند ہوکر جمود کا شکار ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عوام ان سے اپنے تضادات کے باعث عمل میں آگے نکل چکے ہیں۔ یعنی ہم کہے سکتے ہیں یہ فکری ابہام ہے جس کے باعث عقیدت مندی کے تحت کام لیا جارہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خول اور خوف سے نکل کر سائنسی بنیادوں پر تاریخی سماجی رحجانا ت کو سمجھا جائے۔محض عقیدت مندی سے کام نہیں چلے گا۔یہاں کیفیت یہ ہے کہ جو جس فکر کی نمائندگی کررہاہے وہ اس کو شعوری طور پرسمجھنے سے قاصر ہے۔وہ اس کو نہ خود سمجھ پا رہاہے اور نہ دوسرے کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہی عقیدت مندی ہوتی ہے،اور عقیدت مندی کو ایک وقت میں سماج پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔سماجی ضروریات پیچیدگیوں اور سوالات کا جواب عقیدت مندی کے پاس نہیں ہوتا۔تو وہ سماجی مسائل کاحل ساءئنسی اور شعور ی بنیادوں پر تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اس لیے وہ پسماندہ رہ جاتی ہے اور سماج آگے نکل جاتا ہے۔ جب وہ سماج کے نئے رحجانات کا جواب دینے سے قاصر ہوتی ہے تو وہ تعصبات کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کشمیرمیں سائنسی نقطہ نظر کے یا غیر سائنسی نقظہ نظر کے کسی بھی رحجان کے حامل لوگ اسی عقیدت مندی کا شکار نظر آتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سیاسی،سماجی تنظیموں اور تحریکوں کا اندر سے عقیدت مند ی کا خاتمہ کر کے تاریخی اور نئے رحجانا ت پر کھل کر بحث کی جائے اور عمل میں عوام کے اندر بھی ان رحجانات کو رکھا جائے۔بجائے خول میں بند ہونے کی اس وقت عملی سرگرمی کی ضرورت ہے۔اور جب تک ابہام رہیں گئے یہ تنظیمیں اسی طرٹمک ٹوئیاں مارنے اور تصوراتی حل نکالنے میں مصروف رہیں گی۔دوسری طرف عوام کی تمام پرتیں یہاں تک کہ ان تنظیموں کے ساتھ وابستہ افراد بھی اسی طرح بے چینی و بیزاری کا اظہار کررہے ہیں جس طرح سماج میں ہو رہا ہے۔جس کو محسوس کرنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں بھی نئی سمتوں کا درست تعین کیا جاسکے۔اور جدوجہد کے درست راستے اپنائے جا سکیں۔ورنہ اس خودرو بیزاری کو بالادست طبقات اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہیں گے۔

آفتاب احمد اب ہم ميں نہيں رہے۔ وہ جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل تھے اور يہ کالم انہوں نے بائيس جنوری دو ہزار پندرہ کو لکھا تھا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *