Main Menu

شہریو! میرپور بچاؤ ؛ تحریر :رضوان کرامت

Spread the love

چوبيس ستمبرکو میرپور میں 5.8 ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا. جس کا دورانیہ 13 سیکنڈ اس کی گہرائی 10 کلو میٹر اور مقام کھڑی شریف کا گاؤں ساہنگ ککری تھا. اس میں 41 شہری شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے .متعدد عمر بھر کے لیے معذور ہو گے. تقریباً کھڑی شریف اور میرپور کے 70 فیصد مکانات کو نقصان پہنچا. اور کھربوں کا نقصان ہوا. ایک سال ہونے کو ہے ریاست یا حکومت کی طرف سے نہ تو متاثرین کو مالی امداد دی گئی اور نہ ہی تباہ شدہ مکانات کی بحالی کا کوئی منصوبہ عملی طور پر نظر آیا. شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مکانات کی مرمت یا تعمیر کی یا کچھ این جی او ز نے کچھ متاثرین کو مکانات تعمیر کر کے دیئے ہیں. حکومت انتظامیہ اور ریاست کی طرف سے مکمل بے حسی نظر آئی. آج متعدد جگہوں پر شہری انہیں تباہ شدہ مکانات میں رہنے پر مجبور ہیں. جو کسی وقت بھی قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے.
جب 24 ستمبر کے زلزلے پر جامعہ کشمیر کی طرف سے رپورٹ منظر عام پر آئی. جس میں واضح خدشات کا اظہارہے کہ 24 ستمبر اور پھر مسلسل زلزلوں کے سلسلے کا محرک منگلا ڈیم ہو سکتا ہے. اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے جس پر ضلع میرپور کی تقریباً تمام سیاسی قیادت, طلباء تنظیموں, انجمن تاجران کے تقریباً تمام گروپس, ڈسٹرکٹ بار میرپور سمیت تمام باشعور شہریوں نے مختلف فورم پر مطالبہ کر چکے ہیں کہ منگلاڈیم کے پانی کا لیول 1190 سے کم کیا جائے اور غیر جانبدارانہ عالمی معیار کے مطابق ڈیم اور میرپور کی زمین کا جیولوجیکل سروے کروا کے رپورٹ پبلش کی جائے. شہریوں کے خدشات ہیں کہ ہماری جان و مال غیر محفوظ ہیں جبکہ بے حس واپڈا کے نمائندے ہر جگہ یہ کہتے پائے گے کہ ڈیم کو کوئی خطرہ نہیں ہم ڈیم دشمن نہیں لیکن لاکھوں زندگیاں اور کھربوں کی پراپرٹی جو شہریوں نے اپنی مدد آپ یورپ, امریکہ اور مڈل ایسٹ میں دن رات محنت سے پیدا کی ہیں. جس میں انتظامیہ, حکومت یا واپڈا کا کوئی کردار نہیں. آج ڈیم کی وجہ سے یہ سب خطرے میں ہے یا نہیں ہمارے خدشات دور کیے جائیں.
منگلا ڈیم جو 1960 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا. اس وقت کے تمام باشعور شہریوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی اور واضح کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد کی قبروں, ہماری ہزاروں سالوں کی تاریخ, تہذیب و ثقافت پر پانی نہ چڑھاؤ لیکن خبراً ڈیم کی تعمیر کی گئی اور میرپور کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ڈیم برد کر دی گئی. باشعور شہریوں پر بد ترین تشدد کیا گیا اور باشعور قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا. اس لیے ہمیں تاریخ کو درست انداز میں پیش کر نا ہوگا. کہ میرپوریوں نے ڈیم کے لیے شعوری طور پر کوئی قربانی نہیں دی بلکہ یہ ڈیم جبر کی بنیاد پر میرپوریوں کی مرضی کے بغیر تعمیر کیا گیا. اس وقت کے پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے کہا تھا کہ میرپوریوں کے ایک ایک آنسو کا معاوضہ دو گا. یاد رہے اس وقت میرپور سے مراد آج کا ضلع بھمبر, ضلع کوٹلی اور ضلع میرپور تھا.ضلع میرپور کو بجلی بالکل مفت دی جائے گی, نیا میرپور یورپ کے جدید شہروں کی طرز پر تعمیر کیا جائے گا, 24 گھنٹے بجلی اور پینے کا صاف پانی کی سپلائی ہو گی. پیرس کی طرح کی سڑکیں ہو گی جو شیشے کی طرح صاف ہو گی, سوئی گیس کی سہولت دی جائے گی, صحت اور تعلیم کا جدید نظام ہوگا.
اسطرح وقت گزرتا رہا ان تمام سہولتوں میں کوئی سہولت کبھی بھی پوری طرح شہریوں کو میسر نہیں آئیں.2000 میں واپڈا کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے ڈیم مٹی سے بھر گیا. چائیے تو یہ تھا کہ اسکی بھل صفائی کی جاتی تاکہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم نہ ہوتی. واپڈا ایک بار پھر میرپوریوں پر آبی دہشت گردی کا منصوبہ تیار کر چکا تھا اور اب وہ اس کو اپ ریز کرنا چاہتا تھا نہ صر ف میرپور کے شہریوں بلکہ پورے نام نہاد آزاد کشمیر اور پھر دنیا بھر میں موجود کشمیریوں نے اس آبی دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی. اور دنیا بھر میں جلسے, جلوس اور ریلیاں منعقد کی. لیکن وقت کا حاکم پرویز مشرف 30 ستمبر 2001 کو ڈیم کی اپ ریزنگ کا افتتاح کرنے کی غرض سے میرپور آیا تو میرپور کی تمام سڑکوں پر فوج نے مورچے بنا لیے. میرپور میں مکمل کرفیو کا سماں تھا. لیکن میرپور کے جرتمند اور باشعور شہریوں نے سیکڑوں فوجیوں کی موجودگی میں بھرپور احتجاج کیا. فوجی آمر اور اپ ریزنگ کے خلاف شدید نعرے بازی کی. ریاستی مشینری حرکت میں لائی گئی نہتے معصوم اور بے گناہ شہریوں پر ربڑ کی گولیوں, آنسو گیس اورلاٹھی چارج شروع کر دیا گیا. سیکڑوں شہری زخمی ہوئے اور تمام باشعور قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا. یہ آبی دہشت گردی بھی ظلم وجبر اور بربریت کی بنیاد پر مکمل کر لی گئی. لیکن نیو ڈڈیال, نیو اسلام گڑھ اور نیو سٹی میں اپ ریزنگ کے متاثرین کو آباد کیا گیا. ان کو جبراً گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا. انکو اس کے بدلے جس پیکج کا اعلان کیا گیا. اس میں سے صرف 10 فیصد ڈلیور کیا گیا.

اب آئے روز کے زلزلے جس کا محرک ڈیم ہو سکتا ہے. ہم شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مندرجہ ذیل مسائل کی بنیاد پر متحدو منظم اور بیدار ہو کر اجتماعی مفادات کے لیے جدوجہد کا حصہ بنے. اسی میں ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل پوشیدہ ہے.
نمبر۱- منگلا ڈیم اور اسکے ارد گرد تقریباً 40 کلومیٹر زمین کا بین الاقوامی معیار کے مطابق غیر جانبدارانہ جیولوجیکل سروے کروایا جائے اور رپورٹ پبلش کی جائے.
نمبر۲- جب تک جیولوجیکل سروے کی رپورٹ پبلش نہیں ہو جاتی ڈیم کے پانی کا لیول 1190 سے کم رکھا جائے.
نمبر۳- آزاد کشمیر کے تمام شہریوں کو منگلاڈیم سے مچھلی کے شکار کی اجازت ہونی چاہئے.
نمبر ۴- آزاد کشمیر میں بجلی کی ایک سیکنڈ کی لوڈشیڈنگ کا کوئی جواز نہیں بنتا لہذا 24 گھنٹے بجلی کی سپلائی کو یقینی بنایا جائے.
نمبر ۵- آزاد کشمیر کے جن علاقوں میں بجلی کے وولٹیج کم ہیں انھیں ہنگامی بنیادوں پر پورا کیا جائے. محکمہ برقیات کے گھریلو صارفین کو بجلی بالکل مفت دی جائے. اور کمرشل بجلی کا بل 3 روپے فی یونٹ سے زائد نہ ہو.
نمبر ۶- آزاد کشمیر کی تمام سڑکیں عالمی معیار کے مطابق بنائی جائیں.
نمبر ۷- میرپور شہر کے تمام گھروں میں سوئی گیس کی سہولت دینے کے لیے فی الفور عملی طور پر گراؤنڈ پر کام کا آغاز کیا جائے.
نمبر ۸- تمام شہریوں کو پینے کا صاف پانی وافر مقدار میں مہیا کیا جائے.
نمبر ۹- 24 ستمبر کے زلزلے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کو 50 لاکھ فی کس,زخمی ہونے والوں کو 5 لاکھ فی کس جبکہ عمر بھر کے لیے معذور ہو جانے والوں کی کفالت کی ذمہ داری ریاست قبول کر ے.
نمبر ۱۰- زلزلے میں جتنا بھی مالی نقصان ہوا ہے. اس کا سول انجینئروں سے درست سروے کروا کے شہریوں کے نقصان کا ازالہ کیا جائے.
نمبر ۱۱- ڈی ایچ کیو میں شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت وینٹیریٹر مہیا کیے ہیں حکومتی بے حسی کہ ان کو اپریٹ کرنے کے لیے عملہ موجود نہیں فی الفور عملہ مہیا کیا جائے.
نمبر ۱۲- ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی صحت اور تعلیم کا بندوبست کرے.
نمبر ۱۳- جو شہری تباہ شدہ مکانات میں رہنے پر مجبور ہیں. ان کے لیے فی الفور متبادل رہائش کا بندوبست کیا جائے.
نمبر ۱۴- موجودہ متاثرین کے ذیلی کنبہ جات کے مسئلہ کو فی الفور حل کیا جائے. نیز موجودہ متاثرین اور سابقہ متاثرین کی اولادوں کے ہر شادی شدہ جوڑے کو جدید طرز اور جدید سہولیات کے رہائشی منصوبوں کا آغاز کیا جائے.
نمبر ۱۵- رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے.






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *