Main Menu

تہذیبی نرگسیت از مبارک حیدر

Spread the love

“نرگسیت (کے مرض) میں مریض کسی اصول کا پابند نہیں ہوتا۔ اسے اپنی خواہشات اور پیش قدمی کے لئے جو بھی موزوں لگے، کر گزرتا ہے۔ مثلاً اگر اسے اپنی طاقت پر اعتماد ہے تو وہ طاقت کو میرٹ قرار دے گا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اگر اس کا حریف طاقتور ہوتا نظر آئے تو وہ طاقت کے استعمال کو کو ظلم اور بربریت قرار دے کر اپنی کمزوری کو میرٹ قرار دے گا۔۔۔۔۔۔۔

ہماری تہذیبی نرگسیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں محمود غزنوی، تیمور، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے ہاتھوں ہند کی پُر امن آبادیوں کا قتل جائز لگتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر حملہ کی دعوت دینا کہ وہ مرہٹوں کو تہہ تیغ کر کے مسلمانوں کا جبر دوبارہ مسلط کرے جائز لگتا ہے، کیونکہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن اگر کوئی جوابی کاروائی میں ہتھیار اٹھائے تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ نرگسیت کی بیماری میں اصولوں کا استعمال ہمیشہ اپنے حق میں کیا جاتا ہے۔

اگر مسلمان فاتحین دوسرے ملکوں پر حملہ آور ہو کر وہاں کی عورتوں کو اٹھا لائیں، لونڈیاں بنا لیں۔ حتیٰ کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے بھی غلام رہیں تو اس کے حق میں دلائل پیش کریں گے کہ اس کی فلاں ضرورت تھی اور فلاں فضیلت تھی۔ لیکن اگر کوئی دوسری قوم آٹھ سو سال کی غلامی کے بعد آزاد ہونے کی صورت میں چند روز ہماری عورتوں کی بے حرمتی کا ارتکاب کریں تو یہ انسانی فطرت کا ایسا خلل تصور کیا جائے گا جس کی کبھی معافی نہیں۔

اسی نرگسیت کی ایک تازہ مثال پاکستان کے فوجی مجاہدوں نے مشرقی پاکستان میں 71-1970ء میں پیش کی، جب وسیع پیمانے پر اپنی ہی بنگالی مسلم عورتوں کے اجتماعی ریپ کیے گئے۔ اس پر احساس جرم اس لئے نہیں تھا کہ تہذیبی تکبر حسِ انصاف کو ختم کر دیتا ہے اور اخلاقیات کے عالمی اصول مر جاتے ہیں۔”

(تہذیبی نرگسیت از مبارک حیدر، ص 79-81)






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *