Main Menu

الحاق کی منطق؛ تحرير : محمّد پرویز اعوان

Spread the love


کچھ نادان دانشوروں کے سطحی سوالات کا جواب مانگا جا رہا ہے ۔
سوال کہ دنیا بھر میں بہت سی قوموں نے دوسری اقوام سے الحاق کیا ہے تو جموں کشمیر کے آزادی پسند یا قوم پرست الحاق کو غلط کیوں کہتے ہیں ؟

میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا کہ میں اس سطحی سوال کا شعوری جواب دوں ۔مگر
ذاتی موقف لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں واضح رہے میں نیم خواندہ عام آدمی ہوں کوئی دانشور یا کوئی ماہر لکھاری نہیں اور نہ ہی کوئی اتھارٹی ہوں ۔جو دیکھتا سنتا محسوس کرتا ہوں پڑھتا ہوں اس پر اپنی فہم کے مطابق راۓ رکھتا ہوں ۔
مندرجہ بالا سوال جس کے بہت سے پوائنٹ بناے گئے ہیں کے آزادی پسند الحاق کو غلط کیوں سمجھتے ہیں ؟
پہلی بات کوئی قوم اپنے شعور معروضی حالات اور کسی وجہ سے کسی ملک کے ساتھ جمہوری راۓ سے فیصلہ کرتی ہے یہ اس کا حق خود ارادیت ہے ۔اور وہ کسی ملک کے ساتھ اپنی من مرضی سے اپنی شرائط پر الحاق کرتی ہے ریاست جمووں کشمیر ایک قوم نہیں بلکہ کثیر القومی اکائی ہے جو مخصوص حالات میں قائم ہوئی جو ایک سو ایک سال قائم رہی ایک ریاست کی حثیت سے گو کہ وہاں شخصی حکومت تھی اور تیزی سے عوامی جمہوری نظام کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت مل چکی تھی جہاں 1934 میں انتخابی عمل کے زریعے ایک اسمبلی قائم ہو چکی تھی ۔


یہ ابتدا تھی جو عوامی جدو جہد سے حاصل ہوئی تھی اور عوامی جدو جہد مزید جاری تھی اور ایک پراسس بن رہا تھا عوامی راج کیلئے جہاں مہاراجہ سیاسی جماعتوں سے اپنے سٹیٹس کی ڈیمانڈ کر رہا تھا کہ مجھے علامتی مہاراجہ تسلیم کر لیا جائے اور رياستی انتظام عوامی نمائندے اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ایک کامل جمہوری آئین کی طرف بڑھا جائے ۔ مگر سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور عوامی لیڈر شپ کے متعصبانہ روائیوں کی وجہ سے اور ایک دوسرے پر بد اعتمادی نے عوام کو تقسیم کر دیا برطانوی استعمار نے بر صغیر کی تقسیم کو سامراجی مفادات کو سامنے رکھ کر کیا اور اس تقسیم میں ایسے تضادات چھوڑے کہ یہ خطہ ہمیشہ مخاصمت کا شکار رہے جمو کشمیر بھی اس میں سے ایک تضاد ہے جو کہ تمام تضادات کا مرکز ہے جو کہ دو کروڑ انسانوں کے مستقبل کا مسلہ ہے چند متعصب تخریبی سوچ کے حامل گروہوں کا مسلہ نہیں جو ہر دو قابض ممالک نے مسلط کر رکھے ہیں مختصر یہ کہ ہم جبری تقسیم اور منقسم حصوں کے جبری الحاق یا ضم کرنے کے خلاف پر آمن سیاسی مزاحمت کر رہے ہیں تحریر تقریر احتجاج کے زریعے اور ضرورت پڑھی تو طاقت کا آپشن بھی عوام کے پاس موجود ہے ۔
اسی لئے آزادی پسند سادہ سا مطالبہ کر رہے ہیں کہ پہلے پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان جموں کشمیر کی مشترکہ آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے اس کو تسلیم کروایا جائے اور پاکستان اور دیگر آزاد ممالک میں سفارتی دفاتر بنا کر اقوام متحدہ میں کم از کم مبصر کی حثیت حاصل کی جائے جہاں خود جموں کشمیر کے عوامی نمائندے اپنا کیس پیش کر سکیں جموں کشمیر کی تاریخ جغرافیہ کو سلیبس میں شامل کیا جائے جہاں کوئی غیر جمہوری ایکٹ نہ ہو جیسے ایکٹ 74 جموں کشمیر کی وحدت کو بحال کرنے کے بعد جموں کشمیر کی تمام قومیتوں کو آزادی سے ایک دوسرے سے مل بیٹھنے کا موقع ملے ان قومیتوں کے منتخب نمائندے طے کریں کہ ریاست جموں کشمیر کا سٹیٹس کیا ہو گا ۔
ایک رضا کارانہ فیڈریشن یا الحاق ہندوستان پاکستان
یا عوام کی امنگوں کے مطابق کوئی اور سٹیٹس
بنیادی نقطہ یہ کہ الحاق کوئی جرم یا برائی نہیں بلکہ جبری الحاق یا تقسیم ظلم عظیم ہے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *