Main Menu

کشمیر تاریخی معاشی وسیاسی پس منظر؛ تحرير: آفتاب احمد

Spread the love


(کامريڈ آفتاب احمد کا يہ آرٹيکل جموں کشمير پيپلز نيشنل پارٹی کے ميگزين ماہنامہ وطن دوست مئی 2014 ميں چھپا تھا)

نوآبادیاتی معاشروں میں سیاسی ،سماجی ،معاشی و تعلیمی نظام غلامی کے مقاصد کے تحت اور غاصب قوتوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔کشمیری سماج ریاست کی جبری تقسیم سے قبل ترقی کے عمل یا سماجی تشکیل کے حوالے سے جاگیردارانہ عہد میں تھا ۔(کسی حد تک چھوٹی صنعتیں ابھر رہی تھیں)جس کی 85فیصد آبادی کا انحصارمعاشی طور پر زراعت پر جبکہ 15فیصد کا چھوٹے ،درمیانے درجے کی صنعت،تجارت اور سرکاری شعبہ پر تھا۔جہاں جاگیردارانہ عہد کی شخصی حکمرانی میں سیاسی،سماجی ،معاشی و ثقافتی آزادی تو کجا تما م شعبوں سے وابستہ آ بادی کوبدترین جبر کا سامنا تھا.جاگیرداری میں وراثت بہت اہم ہوتی ہے .یہی وجہ ہے کہ ریاست کا اقتدار بھی وراثت کے طور نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔85 فیصد آبادی جو کہ زراعت سے وابستہ تھی۔اس کی محنت کا حکمران طبقہ بدترین استحصال کررہا تھا ۔ان کی محنت سے پیدا ہونے والے اناج کا ایک بڑا حصہ ریاست ٹیکس کے نام پر ہڑپ کرلیتی تھی ۔ٹیکس ادا نہ کرسکنے والے کسانوں کو بدترین جبر ،تشدد ،تذلیل اور جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتاتھا،جبری مشقت تک لی جاتی تھی ۔حکومت کی مقرر کردہ شرح کے مطابق ٹیکس مالیہ ادا نہ کرسکنے والے کسان دوسری جگہوں پر جا کر محنت مزدوری کرکے مالیہ بھی ادا کرتے تھے،یہاں تک کہ کشمیری عوام کو شادی ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔مہاراجہ حکومت نے باقاعدہ ایک محکمہ بھی قائم کررکھا تھا ۔جس میں ریاست بھر سے مالیہ کی مد میں جمع ہونے والی اجناس کو سٹور کیا جاتا تھا۔ جس کا ہیڈ کوارٹر سری نگر میں تھا۔اس سے جہاں حکمران طبقہ عیش و عشرت کررہا تھا وہاں کچھ حصہ روڈز، زرعی انفرا سٹرکچر ،آبپاشی،تعلیم وغیرہ پر بھی خرچ کیا گیا ۔اسی طرح کشمیر میں شال بافی،قالین بافی،چوب کاری ،برتن سازی،پیپر ماشی اور سلک کا شمار بھی قدیم صنعتوں میں ہوتا ہے ۔بالخصوص شال بافی اور سلک انڈسٹری کا شمار دنیا کی معروف صنعتوں میں رہا ہے۔کشمیری صنعتوں کو بھی شدید ٹیکسوں کے بوجھ سامنا کرنا پڑا۔بالخصوص شال جس کی مانگ یورپ اور مصر کی منڈیوں میں بڑے پیمانے پر تھی۔اس کو بے رحمانہ ٹیکسوں کا سامنا تھا ۔اور مہاراجہ حکومت نے صرف شال پر ٹیکس کی وصولی کے لیے ایک الگ سے داغ شال کے نام سے ایک محکمہ قائم کر رکھا تھا ۔جو ہر بننے والی شال پر سرکاری مہر لگاتا تھا ۔یہاں تک کہ شال بافی سے منسلک مزدوروں پر پابندی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں.اس سارے عمل سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ریاست اوپر تشکیل نہیں پاتی بلکہ سماج کے اندر سے ہی جنم لیتی ہے .یعنی .طاقتور طبقہ جبرکے ذریعے عوام کی محنت کا استحصال کرتا ہے.مہاراجہ نے بھی عوام کی محنت کا استحصال کرنے اور اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ریاست کوجدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی۔مہاراجہ حکومت نے روڈ انفراسٹرکچر پر بھی کسی حد تک کام شروع کیا ۔جس کی مثال 1889میں کوہالہ سے بارہمولہ تک جہلم ویلی روڈ مکمل کی گئی۔جسکا شمار دنیا کی خوبصورت ترین روڈز میں ہوتا ہے ۔جو 1897 میں توسیع دے کر سری نگر سے ملایا گیا۔1922میں سری نگر اور جموں کو آپس میں ملانے والی ہائی وئے بھی تعمیر کی گئی۔سری نگر کو گلگت اور لیہ سے ملانے کے لیے بھی سڑکوں کی تعمیر کا کام کیا گیا۔سری نگر کو ریلوئے سے بھی منسلک کرنے کے منصوبے بنائے گئے ۔جو پایہ تکمیل نہ پہنچ سکے ،1891میں محکمہ جنگلات قائم کیا گیا۔جو ریاست کے محصولات میں کافی اضافے کا باعث بنا ۔کشمیر میں کھانے پکانے اور موسمیاتی سختیوں کا مقابلہ کر نے کے لیے ایندھن کی کثرت سے ضرورت پڑتی تھی۔اور سری نگر میں ایندھن کی قلت تھی۔محکمہ جنگلات نے سری نگر میں ایندھن(بالن لکڑی ) سرکاری نرخوں پر فروخت کرنا شروع کی جس کی وجہ سے 1921تا 1930کے دوران محکمہ جنگلات کا محصولا ت میں حصہ سالانہ5ملین سے زائد رہا ہے۔اور جنگلات کے تحفظ کو بھی فروغ ملا ۔جس کی وجہ سے 52فیصد رقبہ تک جنگلات پھیل گئے تھے۔ زرعی انفراسٹرکچر پر بھی مہاراجہ حکومت نے توجہ دی 1887میں زمینوں کی سٹلمنٹ بھی ہوئی جس کاشتکاروں کو تھوڑا سا تحٖفظ بھی ملا اور پیدوار می بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ریاست نے دس سال کے لیے کاشتکاروں سے مجموعی پیدا وار کا 30فیصد حصہ ریاست کا جبکہ باقی کاشتکاروں کا معائدہ کیا .یہ معائدہ عوام کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ہوا.مہاراجوں نے عوام کے لیے جو بھی اصلاحات کیں وہ سب کی سب عوامی دباو اور احتجاج کی بنیاد پر کیں۔1904 میں دریا جہلم کے سیلابی پانی کا بہاؤ موڑنے کے لیے سپیل چینلز تعمیر کیے گئے ۔1911میں 251میل لمبی نہر بھی تعمیر کی گئی ۔جس پر 35 لاکھ 36ہزار 714روپے لاگت آئی ،جس سے کئی چھوٹی نہریں بھی آبپاشی کے مقاصد کے لیے تعمیر کی گئیں۔زراعت کے فروغ کے لیے سری نگر میں 1912میں ایک ماڈل زرعی فارم بھی قائم کیا گیا ۔کوآپریٹیو کریڈٹ سوسائٹیز بنائی گئیں جن کی 1929 میں تعداد 11سو تھی اور ان کی ممبر شپ 27ہزار5 سوتھی۔ جس سے پیداوار بڑے پیمانے پر اضافہ بھی ہوا۔مہاراجہ حکومت نے عوامی ردعمل کے باعث تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات کیں جس کے تحت پرائمری کی سطح تک تعلیم کو مفت قرار دیا گیا ،سرکاری سطح پر اساتذہ کی تربیت کا بھی بندوبست کیا گیا ۔اس سلسلے میں جموں اور سری نگر میں ایک ایک ڈگری کالج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔1905 میں سری نگر میں سری پرتاب کالج جبکہ 1907میں جموں پرنس آف ویلز کالج قائم کیے گئے ۔1914میں ٹیکنیکل کالجز بھی قائم کیے گئے۔جس میں امر سنگھ ٹیکنیکل سکول اور سری پرتاب ٹیکنیکل سکول شامل ہیں۔اسی طرح صحت کے لیے ہسپتال اور ڈسپنسری وغیرہ بھی قائم کی گئیں۔یعنی مہاراجہ حکمرانی کے دوران ریاستی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ۔اور اس پر خاص توجہ بھی دی گئی۔لیکن یہ کہنا کہ مہاراجہ حکمران عوام کی سہولیات کے لیے ایسے کررہے تھے ایسا نہیں تھا ۔بلکہ وہ ریاست کی آمدنی بڑھانے کے لیے ایسا کررہے تھے ۔ چونکہ شخصی حکمرانی میں انسانوں کو جمہوری آزادیاں نہیں ہوتیں بلکہ بدترین جبر و استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس طرح ریاست کشمیر کے عوام کو بھی بدترین جبر کا سامنا تھا ۔سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور مذہبی آزادیاں چھین لی جاتی ہیں۔عوام پر نمبردار ،ذیلدار،چوکیدار مسلط کرکے دوہرے جبر کا شکار کیا گیا ۔،روزگار صرف مخصوص لوگوں کے لیے تھا ،لوگوں سے بیگار تک لی جاتی تھی ۔جس کے خلاف کشمیری عوام میں سخت ردعمل پایا جاتا تھا اور کشمیری عوام نے مہاراجہ حکومت کے ظلم و جبر کے خلاف خودر و انداز میں اپنی بیزاری کا اظہار شروع کیا۔ گو کہ اس پر مذہبی چھاپ تھی لیکن بنیادی طور یہ جمہوری حقوق کی جدوجہد تھی ۔ کیونکہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں تھے اس لیے ان میں اس جبر کے خلاف نفرت زیادہ شدت سے موجود تھی ۔لیکن وہاں روزگا ر اور دیگر سہولیات ہندووں کو,بھی میسر نہیں تھی ۔جس کی مثال 1924 سے1931تک جو مطالبات کیے جاتے رہے ان میں جہاں مسلمانوں کو ملازمتیں دی جائیں،تعلیم دی جائے ،بیگار ختم کی جائے ۔وہاں کشمیری ہندؤوں کی جانب سے بھی یہ مطالبات سامنے آتے رہے کہ ہندؤوں کو روز گار فراہم کیا جائے ،ریاستی اعلیٰ عہدوں پر نمائندگی دی جائے،پریس کی آزادی،نمائندہ قانون ساز اسمبلی، ایسوسی ایشن بنانے کا حق دیا جائے ۔یہ مطالبات واضح کرتے ہیں ۔کہ ہندؤوں کو بھی اسی طرح کے جبر کا سامنا تھا ۔جس کے خلاف عوام بیزرای کا اظہار کررہے تھے۔جس کے نتیجے میں 1932میں مسلمانوں کے مراعات یافتہ طبقہ،جس میں جاگیردار،ٹھیکدار،ذیلدار،سرکار سے مراعات حاصل کرنے والے مذہبی پیشواؤں نے مل کر مسلم کانفرنس کے نام سے پارٹی بھی تشکیل دی۔جس کو 1939میں نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا گیا۔لیکن اس کی قیادت بھی چونکہ عوام کے ہاتھ میں نہیں تھی اور اس کی پھینگیں بھی انڈین نیشنل گانگریس کے ساتھ بڑھنا شروع ہوگئیں تھی۔1941میں دوبارہ مسلم کانفرنس زندہ ہوگئی،جہاں نیشنل کانفرنس نیشنل کانفرنس کی دم چھلہ تھی وہاں مسلم کانفرنس مسلم لیگ کی دم چھلا تھی۔یہ دونوں عوام کے قومی سیاسی اور جمہوری حقوق کے خلاف تھیں۔ان دونوں پارٹیوں نے کشمیریوں کو قومی غلام بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور ہندوستان اور پاکستان کو کشمیر پر قابض ہونے میں مدد دی۔1936میں کشمیر یوتھ لیگ کے نام سے قوم پرست ترقی پسندتنظیم بھی بنائی گئی تھی،1942میں کشمیر سوشلسٹ لیگ ،1945میں کسان کانفرنس بھی بنائی گئی۔1946میں کشمیر چھوڑ دو تحریک چلائی گئی۔جس کی کوئی واضح فکری سمتیں نہیں تھیں بلکہ یہ برصغیر میں انگریزوں کے خلاف چلنے انڈیا چھوڑ دو تحریک سے متاثر ہو کر چلائی گئی تھی۔انڈیا میں تو انگریز براہ راست قابض تھے۔ان کے خلاف تو انڈیا چھوڑدو تحریک کی سمتیں تو واضح تھیں۔لیکن کشمیر میں مہاراجہ حکومت کے خلاف جمہوری حقوق کی تحریک تو بنتی تھی۔لیکن کشمیر چھوڑ دو نہیں۔کیونکہ مہاراجہ بھی اسی ریاست سےتھے اور ان کی شخصی حکمرانی کے جبر و استحصال کے خلاف کشمیری عوام جدوجہد کررہے تھے۔مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس جن کا مقصد عوام کے قومی جمہور ی حقوق نہیں تھے بلکہ عوام میں شخصی حکمرانی کے خلاف پائے جانے والے ردعمل کو استعمال کرکے مفادات حاصل کرنا تھے۔اس لیے ان کی اس کشمکش کے نتیجے میں کشمیری عوام جوپہلے ہی طبقاتی غلامی کا شکار تھے ریاست کی جبری تقسیم کے باعث ان پر دوہری غلامی مسلط کردی گئی۔یعنی وہ قومی غلام بھی بن گئے۔ریاست کی تقسیم کے بعد کشمیر کے تقسیم شدہ حصوں میں ایک طرف پاکستان کے اور دوسری طرف ہندوستان کے گماشتہ حکمران مسلط کر دیئے گئے ۔ یہی وہی لوگ تھے جو نیشنل کانفرنس او ر مسلم کانفرنس کی قیادت کررہے تھے اورانہوں نے ہندوستان اور پاکستان کو کشمیر پر قبضہ کرنے میں مدد دی ۔ اور آج بھی ان کی اولادیں مسلط ہیں۔تقسیم کے بعد قابض ممالک کے مقامی گماشتہ حکمرانوں کشمیر میں سیاسی،سماجی،معاشی،ثقافتی،تعلیمی پالیساں غلامی کے مقاصد اورغاصب ممالک کے مفادات کی تکمیل کے لیے تشکیل دیں۔بالخصوص پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں جو زرعی و صنعتی ڈھانچہ تھا اس کو بری طرح تباہ و برباد کیا گیا ۔اور مقامی سطح پر ہونے والی پیدواری سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ کرکے یہاں صارف منڈی کو فروغ دیا گیا تاکہ پاکستانی مصنوعات کی کھپت ہوسکے اور یہاں کے محنت کش کو بیرون ملک منتقل ہونا پڑا جس کی وجہ سے کشمیری محنت کش بیرون ملک محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے خاندانوں کا نظام چلا نے کے لیے جو سرمایہ منتقل کرتے ہیں ۔وہ پاکستان کی منڈی میں جارہا ہے۔جس سے مقامی مشعیت محض تجارتی مشعیت بن کر رہ گئی۔پاکستان کے جاگیردار سرمایہ دار کو مقامی طور پر پیداوار نہ ہونے کے باعث ایک محفوظ منڈی مل گئی ہے۔اسی طرح ہندوستان اور پاکستان کشمیر کے قدرتی وسائل پانی،معدنیات ،جنگلات وغیرہ کو بھی بے دردی سے لوٹ رہے ہیں۔ایک بات ہمیں یاد رکھنی ہو گی کہ جاگیرداری میں ذات پات اور فرقے حاوی ہوتے ہیں.کشمیر میں عوامی جدوجہد کی مادی بنیادوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے.عوامی جدوجہد ,مسلم کانفرنس ,نیشنل کانفرنس اور مہاراجہ تینوں کو الگ الگ کر کے دیکھنا ہو گا.مہاراجہ ریاست کو جوں کی توں کفیت میں رکھنا چاہتے تھے .جبکہ عوام زیادہ سے زیادہ حقوق اور آزادیاں چاہتے تھے .جو شخصی حکمرانی نے غصب کررکھی تھیں.عوام اس وقت کے خودرو سیاسی شعور کے تحت جدوجہد کررہے تھے.اگر یورپ میں بھی جاگیرداری کے خلاف عوام کی جدوجہد دیکھی جاے تو شروع میں ایسی مثالیں ملیں گی.لیکن وہاں کے نئے ابھرتی ہوئی سرما داری نے منظم انداز میں اتحاد تشکیل دے دیے تھے .ریاست جموں کشمیر جاگیردار ریاست تھی .عوامی جدوجہد اگر کامیاب ہوتی تو یہ بالاخر قومی ریاست کی طرف جاتی .لیکن غیر ملکی مداخلت نےعوام کے اس سفر کا راستہ روکا ہے.اس لیے یہ بات ہمیں سمجھنی ہو گی کہ مہاراجہ بھی عوام کی جدوجہدکو روکنے کے لیے جبر کا راستہ اختیار کیے ہوے تھے .جبکہ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کی قیادت عوام کی اس جدوجہد سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی.اس لیے جموں کشمیر میں تاریح کا جائزہ لیتے ہوے جاگردارانہ باقیات کے زیر اثر تعصبات کی عینک اتار کر عوام کے ترقی پسند کردار کو تلاش کرنا ہوگا.اور یہ سمجھنا ہوگا کہ کہ عوام کی جدوجہد مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کی وجہ سے نہیں تھی .بلکہ وہ عوام کی مادی ضرورت تھی.عوام کا حقیقی تضاد تھا اس شخص حکمرانی کے خلاف. ضرورت اس امر کی ہے کشمیر ی آزادی و ترقی پسند عوام اس بات کو سمجھیں کی مقامی حکمران دراصل غاصب ممالک کے مفادات کی نمائندگی کررہے ہیں۔ہمیں ان کے پھیلائے ہوئے مغالطوں سے نکلنا ہوگا ۔ہمیں کشمیر کی تاریخ میں عوام کا ترقی پسند کردار تلاش کرنا ہو گا.کشمیر میں چھوٹی بڑی جتنی بغاوتیں ہیں ان کے مادی اسباب جاننے ہوں گئے .نہ کہ ہمیں تعصبات اور توہمات کا شکار ہو کر عوامی جدوجہد کو دیکھنا چاہیے.جو ہمیں آزادی آزادی کا درس سبق پڑھایا جارہا ہے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم آزاد نہیں ہوئے بلکہ قومی غلام بنے ہیں۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم دوہرے غلام ہیں۔ایک ان مقامی گماشتہ حکمرانوں کے طبقاتی غلام او ر دوسرا ہم ان کے آقا غاصب ممالک کے حکمرانوں کے قومی غلام بنے ہیں۔ہمیں ان کے خلاف منظم ہوکر استحصال،تعصب ،جبر سے پاک سماجی معاشی انصاف پر مبنی کشمیری سماج کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *