Main Menu

دوہی سیاسی نظریات ہیں ؛ تحریر:رضوان کرامت

Spread the love


ہم اکثر ٹاک شوز اور ٹی وی پروگراموں میں سنتے ہیں یا اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا نظریاتی تھا. انھوں نے کبھی نظریات پر سمجھتا نہیں کیا. ساری عمر نظریات کے لیے قربانیاں دی وغیرہ وغیرہ,,
ہم ریاست جموں کشمیر میں پائے جانے والے مختلف سیاسی نظریات پر نظر ڈالتے ہیں ان میں ایک نظر یہ خودمختار کشمیر ہے اس کی روح سے84471مربع میل پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ دے دیا جائے. وہاں معاشی نظام جاگیردار نہ ہو گا یاسرمایہ دارانہ کہ سوشلسٹ اس پر خاموش ہیں. اگر اس ریاست میں جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم کر دی جاتی ہے تو پھر یہاں کے عوام کو کسی قسم کی معاشی, سیاسی اور سماجی, آزادیاں حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ اجرتی غلام ہی رہے گے. ان کے معاشی, سیاسی اور سماجی حالات زندگی میں کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما نہیں ہو گی. بلکہ ریاست کے عوام جو چار قومیتوں ( جموں, وادی, گلگت بلتستاں اور لداح) پر مشتمل ہیں. ان کے قومی تضاد مزید شدت اختیار کریں گے اس لیے ہم اس نظریہ کو کوئی مستقل حل نہیں سمجھ سکتے.
دوسرا نظریہ الحاق کا ہے. اس نظریہ کے پیروکار پاکستان یا بھارت کے جاگیرداروں, سرمایہ داروں, حکمران طبقات اور مقتدر حلقوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں. نام نہاد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں الحاق کا نعرہ لگا تے ہیں. اور یہ نعرہ لگانے کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے ہیں. اس کا اندازہ پچھلے 73 سالوں میں ان کے معیار زندگی میں واضح تبدیلی سے لگایا جا سکتا ہے. اسطرح بھارتی مقبوضہ کشمیر (جموں,وادی,لداح)میں الحاق نواز بھارتی مقتدر حلقوں سے اپنی وفاداری کی قیمت وصول کرتے ہیں. ان کا نظریہ صرف اور صرف غاصبوں اور وطن دشمنوں کے لیے خدمات اور ہموطنوں کو بےوقوف بنا کر ریاست جموں کشمیر سے ہر سال کھربوں روپے پاکستان اور بھارت کے مقتدر حلقوں کو لوٹنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے. اس لوٹ مار سے کچھ حصہ ان کو بھی مل جاتا ہے. نظریہ الحاق کے پیروکار ریاست جموں کشمیر کی موجودہ تقسیم کے ذمہ دار ہیں. یہاں کے عوام کے تمام مصائب اور مشکلات کو قائم رکھنے کے لیے ان کا بھرپور رول ہے. یہاں غربت, ننگ, افلاس, بیروزگاری, غلامی, صحت کی سہولیات کا فقدان, بوسیدہ نظام تعلیم, سمیت تمام سماجی بیماریاں انھیں کے وجہ سے ہیں. پچھلے 73 سالوں میں دونوں اطراف ان کی نظریاتی جدوجہد صرف اور صرف ریاست جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ غداری ہے اسکے سوا کچھ نہیں. اور ریاست میں سیاسی پراکسی ہے.
اسکے علاوہ متعدد مذہبی, جہادی اور ہندوتوا کے نظریات بھی موجود ہیں. یہ بھی غاصب ممالک کے بالائی طبقات کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں. عسکری پراکسی انھیں کی وجہ سے ہے.
یہاں کچھ سیاسی گروپ غیر طبقاتی سماج کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں. جس کی روح سے ریاست کی کچلی ہوئی, پسی ہوئی, محکوم و محروم, سیاسی معاشی اور سماجی طور پر غلام عوام کے لیے ایسے سماج کا قیام جس میں ہر طرح کے طبقات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے گا. ریاست پر یہاں کی محنت کشوں اور عوام کا مکمل کنٹرول ہو گا. ریاست کی دولت تمام عوام کی مشترکہ ملکیت ہو گی. تمام بنیادی شہری سہولیات ریاست مہیا کرنے کی پابند ہو گی. ریاست کی چاروں قومیتوں کو برابری کی بنیاد پر ان کی زبان, تہزیب و ثقافت کو جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دی جائے گی .اسکے بعد محنت کشوں کی ریاست پوری دنیا کے محنت کشوں کی تحریکوں کو سیاسی اور اخلاقی طور پر سپوٹ کرے گے. ان عظیم آدرشوں کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے لاتعداد مصائب, ریاستی جبر ہر لمحہ ان کا استقبال کرتا ہے. لیکن ان آلہ مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والے ان رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے لئے شعوری طور پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں. غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لئے نہ صرف جموں کشمیر بلکہ پوری دنیا میں جہاں بھی جدوجہد کی گئی یاہورہی ہے. وہ پوری انسانیت کی بالا دستی کے لیے جدوجہد ہے. پوری انسانیت کو سرمایہ داری کے عذاب اور اجرتی غلامی سے آزادی کی جدوجہد ہے. پوری دنیا کے انسانوں کو ایک عظیم مستقبل دینے کی جدوجہد ہے. اسکے علاوہ جتنے بھی سیاسی نظریات موجود ہیں. وہ نہ صرف ریاست جموں کشمیر کے عوام بلکہ پوری انسانیت کو جدت اور ترقی سے روکنے کی ناکام کوشش ہے. دنیا بھر میں غیرطبقاتی سماج کے قیام کے علاوہ جتنے بھی سیاسی نظریات ہیں. وہ پوری انسانیت سے غداری کے علاوہ کچھ نہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *