Main Menu

آفتاب احمد۔۔دوسروں کے لیے جینے اور انہی کی فکر میں مر جانے والے لوگ؛ تحرير: صنم افسر

Spread the love


ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جب کوئی ہم سے بچھڑ جاتا ہے یا دور ہو جاتا ہے تب ہمیں اسکی قدر سمجھ آتی ہے۔ہمارے اردگرد ہماری زندگی میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو غیر مشرط طور پر ہم سے جڑے ہوتے ہیں،جنہیں اپنے کسی مفاد یا مطلب کی بجاے دوسرے کی فکر یا پرواہ ہوتی ہے۔طبقاتی اور استحصالی نظام نے انسان کو ہمدردی،خلوص،محبت اور احساس کے رشتوں سے دور کر کے مادی چیزوں کی طرف لگا دیا ہے۔آج ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انکے پاس مال دولت،سرمایہ اور طاقت ہوگی تو انکی زندگی مکمل ہو جاے گی جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ جن کے پاس یہ سب موجود بھی ہے وہ اپنی زندگی میں مطمعین اور خوش نہیں ہیں۔وہ بے مقصدیت کا شکار ہیں۔انسان اگر اپنی زندگی مقصد طے کیے بنا جیے گا تو وہ جلد حالات کا شکار ہو جائے گا۔ہمارے ہاں زندگی گزارنے کا دستور پہلے سے طے کردہ ہوتا ہے۔لوگ سماج میں پہلے سے طے کردہ رواجوں،رویتوں اور طور طریقوں کے مطابق اپنے آپکو ڈھالتے ہیں۔انکے نزدیک یہی ایک واحد طریقہ زندگی ہوتا ہے۔اسکے علاوہ وہ کسی دوسری چیز کو قبول نہیں کرتے ہیں۔یہاں تک کہ سماج میں جاری زیاتیوں،ظلم اور استحصال کو بھی ویسے ہی قبول کرتے ہیں جیسے وہ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں سکھایا ہی نہیں جاتا کہ ان سے لڑنا ہی انسان کی بقا کا ظامن ہوتا ہے۔لوگ اپنے اپنے حصار میں قید رہ کر سماج کو دیکھتے ہیں،اس سے باہر نکل کر کوئی دیکھنا نہیں چاہتا۔کیونکہ کچھ لوگ قسمت اور نصیب کے چکر میں بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ بے بسی کا نام لیکر چپ سادھ لیتے ہیں۔اس سب کے باوجود جو بات تکلیف دہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو جب حقیقت یا سچائی بتائی جاتی ے تو اسے سمجھنے کی بجائے یہ سمجھتے ہیں کہ سمجھانے یا بتا ے والا اپنے فائدے کے لیے ہی ایسی بات کر رہا ہوگا۔یعنی اس طبقاتی اور استحصالی نظام نے انسان کو اس قدر متنفر اور بیزار بنا دیا ہے ہے لوگ ایسی بات جو حقیقت پر مبنی ہو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور جو ان پر کسی حقیقت کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے یا سچ اور جھوٹ کو سامنے لانے کی بات کرتا ہے لوگ اسے سمجھنے کی بجائے منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ریاست،اقتدار اور سیاست کے نام پرلوگ اپنے اپنے مفادکا کاروبار کرتے ہیں کیونکہ جن جاگیردارانہ بقایات کے یہ پیروکار ہیں وہ انہیں یہی سکھاتی ہے ایسا ہی کرنے پر ابھراتی ہے۔بیشتر لوگ ان کے جھال میں آسانی سے پھنس بھی جاتے ہیں،مگر اسکی وجہ یہی ہے کہ لوگ بار بار یہی غلطی دوہراتے ہیں،وہ نظام کو سمجھنے کی بجائے بار بار انہی لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں جن کو وہ کئی بار آزما چکے ہوتے ہیں۔اور کئی بار آزمانے اور دھوکہ کھانے کے باوجودوہ پھر انہی کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔مگر ایسے سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں،جو بنا کسی مطلب اور مفاد کے لوگوں کی بہتری اور خشحالی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں،انہیں صہیح اور غلط میں پہچان کرانے کے لیے اپنی زندگی تک مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔لوگ جن زیادتیوں،تکلیفوں،نا انصافیوں اور استحصال کو اپنا نصیب سمجھ کر خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں یہ لوگ حکمرانوں کے آگے انکا سوال کرتے ہیں۔حکمران عوام کو لاعلم اور بے خبر رکھنا چاہتا ہے یہ لوگوں کو با شعور بنانے کی بات کرتے ہیں۔۔یہ شعور،انصاف اور برابری کی بات کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی اپنی جگہ بڑی سکون اور آرام سے گزار سکتے ہیں،اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنا حق اگر نہ ملے تو چھین کر لے سکتے ہیں،بے خبر،لا پروا ہو کر اپنی ذات تک خوش و خرم زندگی جی سکتے ہیں،مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔باشعور لوگ اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہوتے ہیں۔وہ جانتے ہوتے ہیں کہ یہ انکے حصے کا کام ہے کہ اگر کوئی ظلم و جبر،استحصال،جہالت اور پسماندگی کا شکار ہے تو وہ اگر اس قابل ہیں تو لوگوں کو بھی اس قابل بنائے کہ وہ حکمران طبقے سے اپنا حق لے سکیں،وہ بے بسی کی زندگی جینے کی بجائے اپنے جینے کا حق لیں ان سے جو انکے نام پر اقتدار میں بیٹھ کر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ باشعور لوگ جانتے ہوتے ہیں کہ زندگی کا مقصد محض روپہ پیسا اور نام کمانا نہیں ہوتا،وہ جانتے ہوتے ہیں کہ جس سماج میں وہ رہتے ہیں اگر وہ پسماندگی،غربت،ناانصافی اور استحصال کا شکار ہے جبکہ عوام کو سارے حقوق دینے والے اقتدار میں بیٹھے صرف اپنے اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں تو وہ انکے خلاف کھڑئے ہوں،لوگوں کو بتایں کہ وہ انکے ساتھ جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں تاکہ عوام لاعلم رہے اور وہ آرام سے اپنی زندگی جیتے رہیں۔ایسے لوگ ہمیں بہت کم ملتے ہیں اپنے اردگرد،اور جو ہوتے ہیں انہیں ہم اپنی خودساختہ سوچ اور رویے کی وجہ پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ہم ایسے لوگوں کو سمجھنے کی بجائے سنی سنائی باتوں کی آڑ میں فراموش کر دیتے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے،سوائے ایک تکلیف کے،اس احساس کے کہ جن کو وہ اپنا سمجھتے ہیں انہیں غیر سمجھا جاتا ہے۔مگر ان لوگوں کا بہت نقصان ہوتا ہے جو پہلے سے ہی جبر اور استحصال میں جیتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنی طرف آنے والی ایک مضبوط آواز اور حقیقت کی کو نظر انداز کر دیتے ہیں،جو ان کو اس قابل بننے میں مدد دے سکتی کہ وہ اپنا حق لینے کے لیے کھڑے ہو جایئں،آفتاب احمد کا شمار بھی ان لوگوں میں شامل رہے گا جنہوں نے ایک پسماندہ سماج میں رہتے ہوئے اپنی ذات کے نفعے نقصان کا سوچنے کی بجائے اپنی عوام کے لیے سوچا۔جنہوں نے روپیہ پیسا،شہرت،اور طاقت ور بننے کی خواہش رکھنے کی بجائے پسماندہ سماج اور اسکی عوام کے متعلق سوچا۔جنہوں نے لوگوں کو شعور اور اگاہی دینے کے لیے آواز بلند کی،انصاف کی بات کرنے کے لیے دشمنوں اور غاصبوں کی زیادتیاں سہی مگر کبھی اپنے مقصد سے ہٹے نہیں۔انکی زندگی نے وفا نہیں کی جو وہ زیادہ دیر ہمارے ساتھ رہ نہ سکے۔پر اپنی مختصر زندگی میں انہوں نے خود کو ان لوگوں میں شامل کیا جو بہت بڑا مقصد لیکر زندگی جینے کا ارادہ کرتے ہیں۔انکا شمار ان لوگوں میں نہیں ہو سکتا جو مخض اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں۔آفتاب احمد وہ انسان تھے جو دوسروں کے لیے جیے اور دوسروں کا ہی غم لیکر مر گئے۔آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کتنے ایسے لوگ ہیں جو ہمیں ہمارے لیے لڑنا سکھاتے ہیں،اس قابل بننے پر ذور دیتے ہیں کہ ہم ظالم کے ظلم نہ سہیں بلکہ اپنا حق لیں۔ہم اپنی خود ساحتہ سوچ اور سنی سنائی باتوں اور رویوں کی وجہ سے ایسے لوگوں کو کھو دیتے ہیں جو ہمارے لیے ہی کسی دوسرے کے حصے کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں لوگوں کو انکی سوچ اور عمل کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ کون ہمارا اپنا ہے اور کون غیر۔ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگی کا اآرام و سکون لوگوں کی بھلائی اور انکے حقوق حاصل کرنے کے پیچھے قربان کر دیتے ہیں جو صلے میں ہم کچھ بھی نہیں مانگتے،سوائے اسکے کہ غاصب اور ظالم کو خود پر حاوی نہ ہونے دو اور اپنا حق ہر حال میں حاصل کرو۔اس لیے ایسے لوگ ملیں تو انکی قدر کیجئے،یہ وہ انمول لوگ ہوتے ہیں جو روز نہیں ملتے،جو صدیوں نہیں لوٹتے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *