Main Menu

مائیکل جیکسن، بچوں کا جنسی استحصال اور لیونگ نیورلینڈ، تحریر: ڈاکٹر لبنی مرزا

Spread the love

میں ‌ نے کام پر جانے کے لیے جب اپنی گاڑی اسٹارٹ کی تو ریڈیو بجنا شروع ہوگیا۔ مائیکل جیکسن کا پاپولر گانا تھرلر چل رہا تھا۔ یہ گانا تو بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ مائیکل جیکسن سے میری نسل کے لوگ تمام زندگی سے واقف ہیں۔ اس وقت سے جب ٹیپ ریکارڈر کی ایک کیسٹ بیس روپے میں ‌ ملتی تھی۔ لیکن اس دن میرے احساسات مختلف تھے۔ اس گانے کی دھن پر سر ہلانے کے بجائے میں ‌ نے ہاتھ بڑھا کر چینل تبدیل کردیا۔ اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ صرف میں ‌ ہی نہیں اور بھی بہت سارے لوگوں ‌ نے لیونگ نیورلینڈ دیکھنے کے بعد مائیکل جیکسن کی موسیقی سننا چھوڑ دی ہے۔

ہفتے کے دن میں ‌ نے پورے پانچ گھنٹے صرف کرکے ایچ بی او ڈاکیومینٹری لیونگ نیور لینڈ کے دونوں ‌ حصے دیکھے اور اس کے بعد ایک گھنٹے کا 34 سالہ ویڈ رابسن اور 40 سالہ جیمز سیف چک کا اوپرا کے ساتھ انٹرویو بھی دیکھا۔ اس ڈاکیومینٹری کو دیکھنے کے لیے، اس کو سمجھنے اور محسوس کرنے کے لیے جگر گردے کی ضرورت ہے۔ یہ کہانی مائیکل جیکسن کے بارے میں ‌ نہیں ہے۔ یہ معصوم بچوں ‌ کے بارے میں ‌ اور ان دو بہادر جوان آدمیوں کے بارے میں ‌ ہے جہنوں نے سامنے آکر اپنے ساتھ ہوئے بچپن میں جنسی استحصال پر تفصیل سے بات کی۔ اس کہانی میں ‌ ہم سب کے لیے سبق ہے۔

ویڈ رابسن کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ وہ بچپن سے مائیکل جیکسن کا بہت بڑا فین تھا۔ اس کے کمرے میں مائیکل جیکسن کی تصاویر لگی ہوئی تھیں ‌ اور اس نے ٹی وی میں ‌ دیکھ کر بالکل مائیکل جیکسن کی طرح‌ ڈانس کرنا سیکھ لیا تھا۔ ویڈ کی ماں ‌ کو کسی نے بتایا کہ ایک ڈانس کا مقابلہ ہورہا ہے اور آپ اس میں ‌ ویڈ کو شامل کریں ‌ کیونکہ وہ بہت ٹیلنٹڈ ہے۔ ویڈ نے وہ مقابلہ جیت لیا۔ مائیکل جیکسن کے آسٹریلیا کے دورے کے دوران اس خاندان کو اس سے ملنے کا موقع ملا اور مائیکل جیکسن نے ان کو کیلیفورنیا میں ‌ اپنی رہائش گاہ پر آنے کی دعوت دی۔ اس نے ان سب کو ٹکٹ دلوائے اور مہنگے تحائف دیے۔ مائیکل جیکسن نے آہستہ آہستہ ان کا اعتبار حاصل کیا۔ ویڈ کو ڈانس سکھانے اور زندگی میں ‌ آگے بڑھنے میں ‌ مدد دینے کی آڑ میں ‌ مائیکل جیکسن نے اس کا سات سال تک جنسی استحصال کیا۔

کون سا بچہ ہے جس کو نہیں بتایا جاتا ہے کہ سڑک پر اجنبیوں ‌ سے بات مت کریں اور ان سے ٹافیاں وصول نہ کریں ‌ لیکن کافی ریسرچ سے یہ پتا چلتا ہے کہ بچوں ‌ کا استحصال کرنے والے قریبی رشتہ دار، دوست احباب اور خاندان کے قابل بھروسا افراد ہوتے ہیں۔ مائیکل جیکسن ایک بہت بڑا ستارہ تھا اور ویڈ اور جیمز دونوں ‌ کے خاندان اس کی توجہ اور نوازشات پاکر اس حقیقت سے قطعاً ”بے بہرہ ہوگئے کہ نیور لینڈ ان کے بچوں ‌ کے لیے بچھا ہوا ایک جال تھا۔

نیور لینڈ میں ‌ سرکس، طرح‌ طرح‌ کے جانور، ہر طرح‌ کے وڈیو گیم اور کینڈی اسٹور تھے۔ آہستہ آہستہ یہ بچے اس پر اتنا بھروسا کرنے لگے کہ موویاں ‌ دیکھتے دیکھتے اس کے بستر پر ہی سو جاتے تھے۔ جب ویڈ کی ماں اس کے باپ کو آسٹریلیا میں ‌ چھوڑ کر اپنے بچوں ‌ کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگئی تو اس کے باپ نے خودکشی کرلی تھی۔ مائیکل جیکسن نے ان بچوں ‌ کو ان کے اپنے والدین سے ذہنی اور جذباتی طور پر دور کیا اور ان کو اپنی محبت میں ‌ گرفتار کیا۔ اس نے ان کو بتایا کہ ان کے درمیان یہ جنسی تعلق ان کی محبت کا اظہار ہے، یہ خدا کا دیا ہوا تحفہ اور ایک راز ہے جس کے کھل جانے کی صورت میں ‌ ان دونوں ‌ کی زندگی تباہ ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف ان بچوں ‌ نے تمام دنیا سے بلکہ خود اپنے خاندانوں سے بھی یہ بات پوشیدہ رکھی۔

جوان ہوجانے کے بعد بھی جب دیگر افراد نے مائیکل جیکسن پر کیس دائر کردیا تب بھی ان بچوں ‌ نے کورٹ میں ‌ جاکر اس کے وکیلوں ‌ کا رٹایا ہوا اسکرپٹ پڑھ کر سنا دیا اور وہ دو مرتبہ جیوری سے بری ہوگیا۔ ان کیسوں کے بعد بھی مائیکل جیکسن نے بچوں ‌ کا جنسی استحصال جاری رکھا۔ اس نے دنیا کو دکھانے کے لیے ایک خاتون سے شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچے بھی بایولوجکلی اس کے اپنے نہیں ‌ ہیں۔ جب ویڈ اور جیمز نے شادیاں کرلیں ‌ تب بھی ان کے ذہنی اور جذباتی مسائل برقرار رہے۔

ان کی بیویاں یہ سجمھنے سے قاصر تھیں کہ یہ مسائل کیوں ‌ ہیں۔ جیمز کام کے بعد اپنا سارا وقت صرف سوتے ہوئے گذارتا اور اپنے بیوی بچوں ‌ کے ساتھ کسی ایکٹیوٹی میں ‌ حصہ نہیں لیتا تھا۔ اس نے کہا کہ میں ‌ خود سے نفرت کرتا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ کیوں؟ ان کے گھر اپنے بیٹے پیدا ہوئے تو ان کی ذہنی بیماریوں ‌ میں ‌ شدت پیدا ہوئی۔ ویڈ نے کہا کہ میرا بیٹا باہر کھیل رہا تھا اور میں ‌ اس کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اس کے ساتھ ایسا کرے جیسا میرے ساتھ بچپن میں ‌ ہوا تو مجھے شدید تکلیف محسوس ہوئی۔

اس نے تصور کیا کہ مائیکل جیکسن اس کے بچے کے ساتھ جنسی تعلق بنارہا ہے۔ یہ سوچنے سے ان نے اپنے بچے کے لیے تو صدمہ محسوس کیا لیکن مائیکل جیکسن کے لیے نفرت محسوس نہیں کی کیونکہ بچپن میں ‌ اس کے دل اور دماغ پر اثر ڈالا گیا تھا جس کے چنگل سے نکل جانا کوئی آسان کام نہیں۔ جسمانی قید چھوڑ دینا ذہنی قید سے آزادی سے بہت آسان ہوتا ہے۔ ایک دن آخر یہ لوگ یہ راز اپنے پیاروں ‌ کو بتانے پر مجبور ہوگئے تاکہ ان کو ان آدمیوں ‌ کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کو سمجھنے کا موقع ملے۔

ان دونوں ‌ کی ماؤں نے خود کو بے حد گنہگار محسوس کیا۔ وہ ڈاکیومینٹری میں ‌ بھی آنسو بہاتی دکھائی دیتی ہیں۔ جیمز کی ماں ‌ نے کہا کہ میں ‌ ایک ہاؤس وائف تھی اور میری ایک ہی جاب تھی کہ اپنا ایک بچہ پالوں ‌ اور اس کی حفاظت کروں ‌ اور وہ بھی میں ‌ ٹھیک سے نہیں ‌ کرسکی۔ وہ سارے عیش اور تحفے تحائف میرے بچے کی قیمت پر مل رہے تھے اور مجھے نظر نہیں ‌ آیا۔ جیمز سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے اپنی ماں ‌ کو معاف کردیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں ‌ ابھی اس پر کام کررہا ہوں۔ ویڈ نے کہا کہ میں ‌ نے اپنی ماں ‌ کو معاف کردیا ہے۔ وہ میرا بھلا ہی چاہتی تھیں۔

جب تک صدمات کا سامنا نہ کیا جائے، وہ انسانوں ‌ کو اندر سے دیمک کی طرح‌ چاٹتے رہتے ہیں۔ جب ان احساسات کو الفاظ نہیں ملتے تو وہ تشدد کی شکل میں ‌ سامنے آتے ہیں۔ خود کو سمجھنا اور خود کو بہتر بنانا بہت مشکل کام ہے۔ ہر کوئی دنیا بدل دینا چاہتا ہے۔ اصلی ہمت کا کام خود کو بدلنا ہے۔ خواتین کے لیے ان مسائل کو سمجھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ خواتین کو سائکالوجی، وکالت، فوج اور پولیس کا حصہ بننے کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے کو بہتر بنا سکیں۔ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنا آج کی دنیا میں ‌ کوئی دانائی نہیں۔ صرف پیدا کرلینے سے ہماری ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔

پہلے میں ‌ یہ سوچ رہی تھی کہ بچوں ‌ کا جنسی استحصال کرنے والے افراد سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنا راستہ سدھاریں ‌ اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں ‌ کہ ان کے اقدام سے دنیا کے لوگوں ‌ پر کیا منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن مجھے مزید مطالعے اور چائلڈ ابیوز کے شکار افراد سے بات چیت کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ انسان ضمیر سے عاری ہیں۔ ان کو یہ تک معلوم نہیں ‌ کہ ان کے دماغ میں ‌ یا اعمال میں ‌ کچھ خرابی ہے۔ یہاں ‌ تک کہ جو لوگ اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں تو ان میں ‌ سے جو ایسے ہیں آپ کو خود ہی معلوم ہے کہ آپ کیا ہیں اور کیا کرچکے ہیں۔

ویڈ کا جنسی استحصال 7 سال کی عمر میں ‌ شروع ہوا تھا اور جیمز کا 10 سال کی عمر میں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں ‌ کو اس وقت سے ہی تعلیم دینا شروع کردینا چاہیے جیسے ہی وہ بولنا شروع کریں۔ اس کے علاوہ بچوں ‌ کو کسی کے ساتھ اکیلا نہ چھوڑیں اور جگہ جگہ کیمرے لگا دیں۔ ان لوگوں ‌ کو پکڑٰیں، ان کو نفسیاتی علاج فراہم کیا جائے اور مجرموں کو جیل میں ‌ ڈالیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *