Main Menu

جذبےاور لگن کے ساتھ جدوجہد ! تحرير: ہاشم قريشی

Spread the love


یہ 1982/83 کی بات ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ” ہم ہجیرہ میں جلسہ کرینگے؟ اُن دنوں “آذاد کشمیر میں جہاں کھڑے ہوتے تھے لوگ جمع ہوتے تھے اور اچھا بھلا جلسہ ہوجاتا تھا ۔ پھر چونکہ میری پیٹھ پر ” گنگا جہاز” بندھا ہوا تھا اور میں سوا نو سال جیل کاٹ کر آیا تھا اس لئے لوگ میرا نام سنکر جلسے و جلوس میں آہی جاتے تھے۔

پھر I.G “آذاد کشمیر” قمر عالم شاہی قلعہ کا جلاد تھا۔اُس نے پہلے میرے پاس ایک SP کو میرے گھر سیٹیلائٹ ٹاون راولپنڈی بیھج کر مجھ سے شاہی قلعہ کے رویہ اور تشدد پر معافی مانگی اور آفر دی ” کہ قمر عالم کہہ رہے ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپکو جھنگ میں دو تین مربع زمین دلادونگا جو مہاجرین کو مل رہی ہے ” میرا جواب سن کر S.P جو غالبا میرپور یا پونچھ کا تھا سنکر نہ صرف حیران ہوا بلکہ ان کی آنکھوں میں عقیدت اُ بھر آئی ! میں نے قمر عالم کو پیغام بھیجا کہ :

” میری قوم کو آزادی کا احساس نہیں ہے ورنہ تم نے جن ہاتھوں اور پیروں سے میرے لیڈر اور میرے سیاسی باپ مقبول بٹ پر تشدد کیا ہے اور گالیا دی ہيں ہم کوہالہ پار کرنے سے پہلے ہی تمہارے ہاتھ پیر کاٹ دیتے “

آفر لانے والے S.P نے بڑی عقیدت سے سلام کیا اور شیاید فخر سے اس کا سر کندھے پر بلند ہوا کہ ” کیا ہماری قوم میں ایسے بھی لوگ ہيں؟” کیونکہ ان کو میرے اقتصادی حالات کا علم تھا کہ دو کمبروں کے گھر میں کرایہ بستا ہوں اور نادر سینما میں میرے دوست نادر پرویز نے کرایہ پر کنٹین دی ہے ؟

اس لئے مجھے “آزادکشمیر” میں بار بار پکڑا کر ضلع بدر کرانے میں اُسی کا ہاتھ ذیادہ تھا۔بہرحال ہم نے ہجیرہ اور رولاکوٹ اطلاع دی اور بزریعہ بس یا ویگن میں اور رؤف کشمیری رولاکوٹ کے لئے روانہ ہوئے تو حسب دستور رولاکوٹ میں CID اور پولیس والے ڈھونڈ رہے تھے۔ہمارے ساتھ NSF کے سردار انور صاحب بھی شامل ہوئےجو کھائی گلہ کے ہے کھائی گلہ نے عارف شاہد شہید جیسے سپوت بھی پیدائش !
ہم پولیس سے بچتے بچاتے سردار ابراہیم مرحوم کے گھر کی طرف چلے گئے اور شاید ہمارے پیچھے پولیس تھی کہ ہم وہاں پر بنے ہوئے ایک ٹین کے بنے ہوئے کمبرے میں گھُس گئے جو کمبرے سے بڑا تھا!

شکر ہے گرمی کے دن تھے مگر کوئی چٹائی یا فرش پر کسی قسم کا کوئی فرش نہ تھا۔ہم سب فرش پر بیٹھے رہے اور وقتا وقتا رؤف صاحب یا سردار انور باہر نکل کر ماحول کو دیکھتے تھے۔مگر باہر رولاکوٹ میں جیسے کوئی فوج آئی تھی کہ ہر جاننے والے کے گھروں میں جا گھُستے تھے۔

ہم زمین پر لیٹ گئے کب نید آئی مجھے پتہ نہ چلا مگر میری جب آنکھ کھلی تو اپنے سر کو سردار انوار کی گود میں پایا اور وہ جاگ رہا تھا ! آنکھوں سے تشکر کے آنسو ٹپکے ! میں نے سردار انور کو کہا کہ آپ نے غلط کیا خود جاگتے رہے مگر میرے سر کو زمین پر نہ رکھا ؟ کیا جذبے اور کیا لگن اور کیا محبت اور عقیدت تھی اُن وقتوں میں !

ہم صبح سویرے نکل کر کسی کے گھر گئے۔ناشتہ کیا اور مجھے سردار انور بنجوسہ کی طرف لے گئے اور بنجوسہ کے چوکیدار جس کو ہم چاچا کہتے تھے ان کو پولیس کا کہا اور اُنھوں نے مجھے اس کمرے میں باہر سے تالہ لگا کر بند کیا جو کمبرہ صدر یا وزیر اعظم کے لئے ہوتا تھا۔ سردار انور رؤف کو لانے کا کہہ کر موٹر سائیکل پر واپس چلے گئے!

پولیس بنجوسہ گیسٹ ہاؤس بھی ڈھونڈنے کے لئے آئے اور وہاں چائے پی لی۔تالے والے کمبرے کے بارے میں پوچھا تو چاچا نے کہا ” یہ صرف صدر یا وزیر اعظم کے لئے کھلتا ہے ” کیا لوگ تھے! جب لوگ سسٹم اور نظام کے خلاف دل سے ہو جاتے ہے تو ہر گھر۔ہر چھت اور گلی کوچہ پناہ گاہ بن جاتی ہے ؟ اور جب لوگوں پر نام نہاد قیادت بندوق ٹھونس دیتی ہے تو گھر گھر “مخبر ” پیدا ہو جاتے ہے ؟

بہرحال ہم اُس دن نہ جلسہ کرسکے اور نہ گرفتار دے دی۔میں نے سر پر مدرسے کی ٹوپی رکھ کر راولپنڈی کے لئے نکل آیا ایک بس میں ! رؤف صاحب بعد میں آگئے !

میں آج بھی رؤف کشمیری اور سردار انور کے عظیم پاکیزہ جزبوں کو سلام کرتا ہوں! بنجوسہ کے گیسٹ ہاؤس کے چاچا وفات پا کے ہے اللہ تعالی اُن کو کروٹ کروٹ جنت بخشیں۔آ میں !

میں یہ واقعات اپنی بہادری کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ ایک تو نوجوانوں کو یہ سبق ملے کہ “یہ جو آپ لوگوں کو آزادی کا خود مختاری کا۔اپنے حقوق کا نعرہ اور جدوجہد کرنے کی آزادی ملی ہے ؟ اسک پیچھے بہت قربانیاں ہے۔بہت جدو جہد ہے! میں اور رؤف کشمیری میلوں پیدل چلتے تھے۔ صدر سے چُوڈ چکی تک رؤف کشمیری کے پاس دو چار روپیہ کرایہ نہ ہوتا تھا۔پیدل چلتے تھے! کھبی کھبی مجھے پتہ ہوتا تھا کہ آج رؤف کشمیری بھوکا اور بھوکا رہے گا۔اس لئے میں جبرا” ان کو یہ کہہ کر کہ ” چلو واک کریں اور بات وبا توں میں واک کے بہانے چُوڈ چکی گھر لے جاتا تھا !

نہ وہ وقت ہے اور نہ ویسے وفا شعار ساتھی ملے ؟

ع۔”بے نور ہوچکی ہے بہت شہر کی فضاء ۔۔ تاریک راستوں میں کہیں کھونہ جائیں ہم

اُس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہے۔ ۔جالب چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم!”






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *