Main Menu

اچانک ٹیکس ؛ تحرير : وسیم حیدر

Spread the love

اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط کا زمانہ تھا ایک دن چچا جلال الدین عجوبہ بازار میں گولائی دروازے کے عین سامنے پرانے بوہڑ کے درخت کی چھاوں میں اپنے ہم عصروں کی محفل میں براجمان تھے کہ کچھ سپاہیوں کا وہاں سے گزر ہوا۔ جو بازار میں آنے جانے والے لوگوں سے بلا وجہ کے ٹیکس کی رقم وصول کرکے واپس کوتوالی جارہے تھے۔ ابھی چند لمحے قبل جلال الدین بھی ڈھائی آنے (جمع پونجی) اچانک ٹیکس کی مد میں دو اہلکاروں کو دیکر بوہڑ کی چھاوں میں پہنچے تھے۔ درجن بھر سپاہیوں کے گزرتے قافلے میں جلال الدین کی نظر اپنے محلے کے شجاع بہادر (سپاہی) پر پڑی۔ شجاع بہادر نے بھی چچا جلال الدین کو دیکھ لیا اور ایک لمحے کیلئے رکا پھر شام کو محلے کے وسط میں موجود چبوترے پر ملاقات کا کہہ کر چل دیا۔۔
جلال الدین بازار سے اٹھا جلدی اپنے کام کاج نمٹائے اور چبوترے پر پہنچ کر سپاہی شجاع بہادر کا انتظار کرنے لگا۔ سورج ڈھلنے کے قریب تھا کہ گھوڑے کی چاپ سنائی دی اور شجاع بہادر برآمد ہوا۔ سلام دعا کے بعد جلال الدین نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کا قافلہ ٹیکس کس مد میں وصول کررہا تھا؟
شجاع بہادر نے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا “حوصلہ رکھیے راز کی باتیں ہیں بھید کھلنے پر میری ملازمت بھی خطرے میں پڑ جائے گی” اور قریب آکر بیٹھ گیا
جلال الدین نے پوچھا کہ اب تو مالیا بھی ادا ہوگیا پھر نئی لگان کا کوئی فرمان بھی نہیں سنا تو یہ کس قسم کی رقم وصولی جارہی تھی۔۔میں کسی کو نہیں بتاوں گا مگر میرے اندر اطمینان نہیں ہورہا پورے اٹھائیس دن کی مزدوری پل بھر میں دی ہے میں نے۔۔
شجاع بہادر بڑا سیدھا بندہ تھا اس نے کہا “مجھے افسوس ہے مگر چونکہ ہم ماتحت ہیں حکم بجا لانا ہم پر فرض ہے”
جلال الدین نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
“اب تو بھی ہم سے راز رکھےگا؟”
سپاہی شجاع بہادر نے مجبور ہوکر کہا!
” آپ کو خبر نہیں کہ چھ دن بعد ریاست کے وزیر با تدبیر صلاح الملک کے فرزند ارجمند کی شادی شروع ہے جو لگ بھگ سات دن تک چلے گی جس میں دوسری سلطنتوں کے وزیر،مشیر، تاجر اور امراء بھی شرکت کریں گے۔ وہ شادی نہیں میلہ ہوگا میلہ۔

مجھے معلوم ہے مگر اس کا ہماری پونجی ہتھیانے سے کیا تعلق؟ جلال الدین نے حیرت سے پوچھا!
شجاع نے کہا صلاح الملک کے مشیروں نے شادی پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگا کر وزیر کو آگاہ کیا ہے جس پر وزیر نے اپنے ان کوتوالوں اور سپاہیوں کو (جن کو اس نے یا اس کے وسیلے سے ملازمت ملی ہے) حکم دیا ہیکہ اخراجات کی تمام رقم “اچانک ٹیکس” کی مد میں رعایا سے وصول کیجائے اور یہ رقم محل کی طرف سے لی جانے والی لگان سے الگ ہونی چاہیے اس طرح تمام کوتوالوں نے اپنے ماتحت سپاہیوں کو الگ الگ جگہ دوڑا رکھا ہے۔جہاں تک مجھے معلوم ہے رقم اخراجات کے تخمینہ سے دوگنی اکٹھی ہوچکی ہے پھر بھی پانچ دن باقی ہیں اور تین گنا اکٹھی ہوجائے گی۔ مگر ہمیں سختی سے کہا گیا ہے کہ بادشاہ کو اس مہم کی کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے”
جلال الدین نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا!
تو کیا دو گنا زائد رقم وزیر اپنے خزانے میں چھپا کر رکھے گا بقیہ بچوں کی شادی کیلئے؟
“”نہیں! نہیں! چچا دو گنا رقم سارے کوتوال آپس میں بانٹ لیں گے۔ ابھی ہمارے صاحب بہادر نے گاوں میں اپنی عالیشان حویلی کی تعمیر شروع کر رکھی ہے وہاں بھی تو رقم کی ضرورت ہے”
سپاہی شجاع نے جواب دیا۔
جلال الدین نے پوچھا “تو کیا اب حویلی بھی ہماری جیب سے زبردستی نکالی گئی رقم سے تعمیر ہوگی؟
اور کیا؟ دیکھتے رہنا ابھی جب صاحب بہادر اپنی بچی کی شادی کریں گے تب بھی ہمیں ان کیلئے ایسے ہی رقم اکٹھی کرنی ہے۔۔سپاہی نے کہا!
جلال الدین کا گلہ خشک ہوگیا بمشکل آواز نکالتے ہوئے پوچھا! بیٹا بادشاہ کو ان کے کرتوتوں کا علم نہیں یا اس نے انہیں چھوٹ دے رکھی ہے؟
“چچا جلال الدین! دربار میں سارے وزیر ہی ایسے ہیں کہ وہ بادشاہ کے قریب کسی کو جانے نہیں دیتے اور بادشاہ سلامت بھی تو اکثر شراب پی کر کنیزوں کی رانوں پر سر رکھ کر مدہوش رہتے ہیں کیسے ان کو خبر ہوگی؟ اب میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا میری ملازمت تو جائے گی ہی میرے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ بھی اٹھوا دو گے”
یہ کہہ کر سپاہی شجاع بہادر نے گھوڑے کی لگام پکڑی اور اپنے گھر کی طرف جانے والی گلی میں ہو لیا۔
جلال الدین لمبی سانس لیتا ہوا سر اوپر کیے نیلے آسماں کو دیکھنے لگا۔۔۔ بظاہر وہ آسمان کو ہی دیکھ رہا تھا مگر چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ کسی اور سے متکلم ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *