Main Menu

بد حال کشمیر؛ تحریر : راشد باغی

Spread the love

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی زبوں حالی آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے تقربیاً چالیس لاکھ کی اِس آبادی والا کشمیر کا یہ حصہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے کہنے کو یہاں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرح آزدای اظہار پر پابندی نہیں کہیں کرفیو نافظ نہیں لیکن پاکستان کی زیر انتظام بسنے والے کشمیر جہاں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جسمانی طور پر گھروں میں پابند کیے گے ہیں یہاں ذہنی طور انہیں مذہبی ،قومی، اور برادریوں کی شکل میں قید و بند کی مشقتوں کا سامنا ہے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جہاں وقفے وقفے سے تحریک جاری رہیتی ہے یہاں نوے کی دہائی کے بعد کوئی بڑی تحریک نظر نہیں آتی لیکن سارا سماج ایک بے چینی اور غم و غصے کے عالم میں ضرور ہے مقامی سطح پر روزگار نہ ہونے کے باعث آزاد کشمیر کا اکثریتی محنت کش طبقہ بیرون ملک میں مقیم اپنی روٹی روزی خاطر عرب کے تپتے صحراؤں اور یورپ کے ساحلوں پر اپنے خاندان سے دور اپنی زندگی کا اکثریتی حصہ دیار غیر میں گزار کر اپنے اور اپنے خاندان کی سفید پوشی برقرار رکھے ہوئے ہے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسی کوئی صعنت وجود نہیں رکھتی جس کا ذکر کیا جا سکتا ہے کہ جس میں محنت کش طبقہ باعزت روزگار کر سکے ماسوائے سروسز کے چند اداروں جن میں تعلیم ، جنگلات اور صحت عامہ کے شعبہ جات ہیں ان شعبہ جات میں بھی محنت کشوں کے حالات بھی کسی انسان سماج بنیاد پر نہیں ہیں بلکہ یہاں سروسز دینے والا محنت کش بھی اپنی سروس کے دوران حکومتی اور نجی بنکوں کا کہیں بار مقروض ہو کر زندگی کی گاڑی چلانے میں کمر بستہ رہیتا ہے ان قومی ملیکتی اداروں کی کارکردگی پر بھی بے شمار سوالیہ نشان ہیں ان اداروں میں آج کی تیز ترین ٹیکنالوجی کا میسر نہ ہونا اور اِس پچھڑے ہوۓ سماج میں سرمایہ دارنہ ریاستوں کی نااہلی اور دیگر کئی محرکات کار فرما ہیں ۔
پاکستان اور بھارت کے سماج میں اگر اِس وقت ایک خوفناک طبقاتی تفریق موجود ہے لیکن اُس کے بر عکس کشمیر میں جہاں سرمایہ داری اکثریتی طبقے کا استحصال کرنے کے لیے کئی شکلوں میں موجود ہے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اکثریتی آبادی آج بھی دیہی علاقوں میں مقیم ہے جس میں شہروں کی نسبت بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے یہاں کوئی بہت واضح طبقاتی تفریق موجود نہیں ہے
سرمایہ داری کی غیر ہموار ترقی نے انہی دیہی علاقوں میں ایک طرف منافعہ کی غرض سے جدید ٹیکنالوجی کو یہاں کے محنت کش طبقے اور نوجوانواں کے ہاتھوں میں جدید تر سیل فون لیپ ٹاپ ہاتھوں میں تھما دیے ہیں وہاں ہم کشمیر کی پسماندہ صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں آج بھی زرعی شعبے سے منسلک انسانوں کے پاس گھاس کاٹنے اور بیجائی کرنے کے دس ہزار سال پرانے درانتی جیسے اوزار ہاتھ میں ہیں پینے کا صاف پانی اکثریت کا پاس نہیں اور پینے کے لیے پانی آج بھی عورتیں مرد میلوں دور پیدل چل کر قدرتی چشموں سے لاتے ہیں اور جن کو گھروں تک پانی میسر بھی ہے پچھلی ایک دیڑھ دہائی میں پلاسٹ پائپ کے مرہون منت میسر ہے جو کسی بھی لحاظ سے حفظان صحت کے لیے انسان کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔
ٹرانسپورٹ کی حالت بھی درگوں ہے اکثریتی آبادی کو گھروں تک سڑک ہی میسر نہیں ہے اور اگر میسر ہے تو اکثریتی کچی سڑکیں اور کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار جہاں ڈرائیور اور مسافر ہر روز منزل مقصود تک پہچنے کے لیے کسی خطرناک سرکس کی مانند سفر کرتے ہیں اور آئے دن حادثوں کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے
صحت کا شعبہ بھی باقی شبعوں سے مختلف نہیں اکثریتی غریب محنت کش انسان یہاں جب کسی بیماری کے باعث چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہیتا تو سب سے پہلے غیر سائیسی طریقے سے اپنانے پر مجبور جعلی پیروں فقیروں کے ہاں چکر کاٹتا ہے اور جہاں سے کوئی شفا نہیں ہونی ہوتی تو سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتا ہے لیکن یہاں آزاد کشمیر میں شائد ہی ایسا کوئی ہسپتال موجود ہے جہاں کسی بڑی بیماری کا علاج ممکن ہو یہاں مکمل تربیت یافتہ ڈاکٹروں اور متعلقہ بیماری کے معائنہ کے آلات نہ ہونے باعث ایسے مریضوں کو یہاں سے پاکستان میں کسی نجی یا سرکاری ہسپتال میں دھکے کھانے کے لیے ریفرل کرنے کے لیے عملہ موجود ہوتا ہے ۔غرضیکہ تمام تر شعبے یہاں نا گفتہ بے حالت ہیں جس میں عوام کے پاس ایسی صورتحال میں بے حال ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔
اس قدر استحصال اور ظلم سے پسنے والے انسان درد اور اذیت میں ایک کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں روزگار سے لے علاج تعلیم سے لے کر ٹرانسپورٹ اور دیگر بینادی ضرورتوں کے لیے یہاں کا آزاد انسان سرمائے کی غلامی میں سسک سسک کر جینے پر مجبور ہے اور یہاں کی آزاد کابینہ ماسوائے اپنی دھن دولت اور وفاق کے اشاروں پر عوام کو باندی بنائے رکھنے کےعلاوہ کچھ خاص نہیں کر رہی ہے
لیکن سسک سسک کر جینا صدا نہیں رہے گا برصغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی جو اکثریت میں ایسے ہی مسائل کا شکار ہے اور یہاں کے حکمرانوں کے لیے اپنے اندر حقارت سمائے ہوئی ہے جن حکمرانوں نے بالخصوص کشمیر اور بالعموم سارے برصغیر کو تاراج کیا ہے یہاں کے بسنے والے انسانوں کو مذہب، قوم ، فرقہ واریت اور لسانی تعصابات پھیلا کر ہمیشہ تقسیم کر کے حکمرانی کی ہے اس جبر اور ظلم کے خلاف بغاوت ہو کر رہے گی یہ تاریخ کا فیصلہ ہے جب جب ظلم اور جبر بڑھا ہے اُس کے خلاف مزاہمت کار پیدا ہوئے ہیں اور موجودہ ظلم و جبر کے خلاف برصغیر میں محنت کش طبقے کو طبقاتی طور پر ایک طبقے کی صورت میں خود کو بیدار کرتے اِس بے بسی بے حسی کے بندوں کو توڑ کر اپنی اپنی آزادیوں کی جدوجہد کرنی ہو گی تاکہ اِس نظام کو شکست کے ذریعے اکھاڑ پھینکے کے بعد انسانی سماج کی بنیاد رکھی جا سکے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *