Main Menu

سیاست کے فرعون سے چند اقتباسات ، انتخاب: قمر خليل

Spread the love
تصوير مثالياتی مقصد کے لئے استعمال کی گئ ہے

جون 1857 کو ملتان چھاونی میں پلاٹون نمبر دس کو بغاوت کے شبہے میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو بمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور انہیں تھوڑا تھوڑا کرکے تہہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی تقریبا بارہ سو سپائيوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاونی کے درمیان واقع پل شوالہ پر دربار بہا الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی ہمارے سابقہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا تھے اور ان کا نام انہی کے حوالے سے رکھا گیا تھا۔ کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔ جلالپور پیر والہ کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔

مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کو رنگا کی طرف نکل گئی جسے مہر شاہ آف حویلی کو رنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال ، ہراج ، سرگانہ، ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا ۔ مہر شاہ آف حویلی کو رنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔ اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیرسالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور آٹھ چاہات جن کی سالانہ جمع ساڑھے پانچ سو روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئی مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ عطا کیا۔ مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔
حویلی کو رنگا کے معرکے میں بظاہر سارے مجاہدین مارے گئے مگر علاقے میں آزادی کی شمع روشن کر گئے۔ حویلی کو رنگا کی لڑائی کے نتیجے میں جگہ جگہ بغاوت پھوٹ پڑی اور حویلی کو رنگا، قتال پور سے لیکر ساہیوال بلکہ اوکاڑہ تک کا علاقہ خصوصا دریائے راوی کے کنارے بسنے والے مقامی سرائیکیوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک آزادی میں شامل ہو گئی ۔ اس علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گو گیرہ کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ سیال ،احمد سیال ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے ۔

مورخہ 16ستمبر 1857 کو رات گیارہ بجے سرفراز کھرل نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال بمقام گوگیرہ کو احمد خان کھرل کی مخبری کی مورخہ اکیس ستمبر 1857کو راوی کے کنارے ”دلے دی ڈل“ میں اسی سال احمد خان کھرل پر جب حملہ ہوا تو وہ عصر کی نماز پڑھ رہا تھا۔ اس حملے میں انگریزی فوج کے ہمراہ مخدوموں ، سیدوں ، سجادہ نشینوں اور دیوانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جس میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی دربار بہا الدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی ، دربار فرید الدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن ، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخادیم وسجادہ نشین شامل تھے۔ احمد خان کھرل اور سارنگ شہید ہو ئے ۔ انگریز احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے ۔ احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو پیوند خاک کرنے کے بعد آگ لگا دی گئی ۔ فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ تمام مال مویشی ضبط کر لیے گئے دیگر سرداروں کو سزا کے طور پر بعبور دریائے شور یعنی کالا پانی بھجوادیا گیا۔ اس طرح اس علاقے کی تحریک آزادی مخدووموں ، سرداروں، وڈیروں اور گدی نشینوں کی مدد سے دبادی گئی۔ اس کے بعد دریائے راوی کے کنارے اس علاقے کے بارے میں راوی چین لکھتا ہے۔
کاش ھمارے ماہرین تعلیم مطالعہ پاکستان میں ایک چیپٹر ایسے غداروں پر شامل کرتے۔
کاش آزادی کے بعد قائداعظم, لیاقت علی خان اور دیگر رہنماء ایسے غداروں کے تسلسل کو توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیتے. اور انگریزوں کی دلالی کرنے پر عطا کی گئی وسیع و عریض زمینوں کو بحق سرکار ضبط کرلیتے۔

مگر وہ ایسا نہ کر سکے کیونکہ مسلم لیگ کے منشور میں ایسا شامل ہی نہیں تھا. اور مسلم لیگ میں یہ مخدوم, شاہ, ٹوانے اور تانے بانے ہی تو شامل تھے۔

اگر ایسا کر لیا جاتا تو نہ ہی قائد اعظم کی ایمبولینس راستے میں بند ھوتی, اور نہ ہی لیاقت علی خان کو جلسہ عام میں گولی لگتی.

پاکستان بننے کے بعد ہر دور میں ان ہی لوگوں کی نسلوں نے حکومت کی ھے. خدا نہ کرے اگر پاکستان پر کوئی بیرونی غاصب کامیاب ھوتا ھے, تو یہی سجادہ نشیں کے جانشین اپنے مریدوں کے ذریعے عوام اور پاکستان کے اداروں کو برباد کریں گے.

یہی سجادے دھرنے دیتے ہيں اپنے معصوم مریدوں کو سڑکوں پر لاتے ہيں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *