مولانا فضل الرحمن سے میں نے کیا سیکھا؟ تحرير: محمد شبیر چوہان
مولانا فضل الرحمن صاحب کے خلاف جتنا کچھ بیان کیا جاتا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔میرے پاس مولانا کی صداقت کی کوئی دلیل ہے نہ بد دیانتی کی اس لئے میں جتنا جانتا ہوں اتنا ہی لکھوں گا ۔مسلک کے لحاظ سے مولانا دیوبندی ہیں اور میں سلفی فکر کا حامل ہوں لیکن افکار سلف سے جو مجھے معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دشمن ہی نہیں بلکہ کافر کی اچھی بات لے لو اور اپنے گہرے دوست کی غلط بات کبھی نہ مانو ۔ جب میں ایف اے میں پڑھتا تھا تو مولانا فضل الرحمن باغ شہر تشریف لائے تھے ۔اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاءالحق صاحب کی حکومت تھی دوسری بار ان کا خطاب میں نے مشرف صاحب کے دور میں باغ میں ہی سماعت کیا ۔ان دو خطابات کے علاوہ میں نے کچھ نہیں سنا ۔پہلے خطاب میں میں نے نفاذ شریعت کا طریقہ سنا اور سیکھا مجھے ان کے صرف ایک جملے نے پورے دین کے نفاذ کا راستہ بتا دیا مولانا نے فرمایا : چور کا ہاتھ ضرور کاٹا جاتا ہے مگر پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس نے چوری کیوں کی ؟ حکیم صابر ملتانی کے اصول طب میں کیوں کو جو اہمیت حاصل ہے بالکل کیوں کی وہی اہمیت نفاذ شریعت کے راستے میں مولانا نے بیان کی سچ بات یہ ہے کہ انہوں نے کیوں پر جو بحث کی وہ اپنی مثال آپ تھی ۔ اس لئے میں مولانا کا دل سے احترام بھی کرتا ہوں ۔
دوسری بار مولانا نے شیعہ سنی تصادم اور پاکستان میں جاری خانہ جنگی پر جس خوبصورتی اور دلیری سے بات کی میں متعجب ہو گیا ۔انہوں نے بالکل اندر کی بات جلسے میں کہہ دی ۔باہر نکلا تو دیوبندی مکتب فکر کی ہی ایک جماعت کے کارکن سیخ پا تھے اور مولانا کو کفر تک پہنچا رہے تھے میں نے ان نوجوانوں سے کہا کہ فی الحال آپ کو مولانا کے خطاب کی سمجھ ہی نہیں آئی اور آئے گی بھی نہیں کیونکہ سمجھنے کے لئے تھوڑی دیر ذہن خالی رکھنا پڑتا ہے جو ہمارا کلچر نہیں ہے ۔ مولانا پر جو الزام ہے وہ مفاد پرستی کا ہے ایک ہوٹل میں بیٹھا تھا کہ ایک سرکاری ملازم نے ٹی وی پر مولانا کو دیکھا اور کہا یہ ملا مفاد پرست ۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اگر آپ سچ بتائیں تو کچھ پوچھوں۔انہوں نے وعدہ کرلیا سچ بولنے کا میں نے سوال پوچھا کہ محترم میرا سوال یہ ہے کہ پچھلے الیکشن میں آپ نے نظریاتی ووٹ دیا تھا یا مفاداتی؟ انہوں نے فرمایا سچ یہی ہے کہ مفاداتی ۔
میں نے گزارش کی اگر آپ مفاد کے لئے ووٹ دیتے ہیں تو سیانے کہلاتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن وزارت لیں تو جرم ؟
اس پہ انہوں نے میری بات کی تصدیق کی ۔
مولانا کے تمام نظریات سے اتفاق نہیں مگر ان کے اچھے اقدامات اور خیالات کا انکار نا ممکن ہے ۔ اللہ تعالی مولانا کو ہر میدان میں قرآن وسنت کا عملی مجسمہ بنائے آمین۔
Related News
.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے
Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More
پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت
Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More